Nai Baat:
2025-06-10@06:18:32 GMT

محمد احسن راجہ … گور پیا کوئی ہور

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

محمد احسن راجہ … گور پیا کوئی ہور

’’پاکستان میری ماں ہی تو ہے، دھرتی ماں جس نے مجھے شناخت دی ہے۔ پاکستان کو ہر وطن پر فوقیت ہے۔ مجھے عظمتوں کی یہ سر زمین بخدا اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ مادر وطن کی محبت سے سرشار یہ چند قیمتی سطریں مرحوم محمد احسن راجہ کی ہیں جو انہوں نے اپنے سفرنامے ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ کے دیباچے کے آخر میں 2 دسمبر 2005ء کو تحریر کی تھیں۔ قارئین! ہمارے ہاں یہ خیال عام ہے کہ اعلیٰ بیورو کریسی میں دین دار اور محب وطن لوگوں کا قحط ہے۔ ممکن ہے اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہو لیکن وہ لوگ جو مرحوم محمد احسن راجہ صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ یقینا میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ہمارے یہ دوست ایک ایسے دین دار، محب وطن، قابل، ذہین اور شاندار انسان تھے جن کے لیے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے ’’جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ / آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں یوں تو بے شمار خرابیاں ہیں لیکن ان میں خرابیوں میں ایک انتہائی بُری اور بدنما خرابی یہ ہے کہ اول تو ہمارے ہاں اچھے، قابل اور محب وطن لوگوں کا شدید قحط ہے اور اگر ہمیں خوش قسمتی سے ایسا کوئی قیمتی شخص میسر آ جائے تو ہم اس کی ایسی قدر نہیں کرتے جس کا وہ اصل حق دار ہوتا ہے۔ سابق وفاقی سیکرٹری محمد احسن راجہ اپنی دیگر خوبیوں کے ساتھ پنجابی، اردو اور انگریزی زبان کے اول درجے کے ایک ایسے ہی ادیب، سفرنامہ نگار اور ناول نویس ہیں جنہیں میری دانست میں اُن کی زندگی میں وہ ادبی مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ خاص طور پر پنجابی زبان میں اُن کا ناول ’’اڈیک‘‘ ایک ایسا اچھوتا کارنامہ ہے جسے پنجابی ناول نگاری کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ پنجابی میں ناول نگاری کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اب تک اس میں کتنے اچھے اور بڑے ناول لکھے گئے ہیں۔ مگر یہ بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی پنجابی زبان و ادب میں تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے چند بڑے ناولوں کی بات ہو گئی تو اُن میں اپنے پلاٹ، کرداروں اور خالص زبان و بیان کے حوالے سے ایک بڑا اور اہم ناول محمد احسن راجہ صاحب کا لکھا ہوا پنجابی ناول ’’اڈیک‘‘ ضرور ہو گا۔ ضرورت ہے کہ اس ناول کو شاہ مکھی کے ساتھ گور مکھی میں بھی شائع کیا جائے تا کہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگ تک پہنچ سکے۔ راجہ صاحب اس ناول کی ڈرامائی تشکیل میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کے باعث اُن کے لیے یہ کوئی بڑا کام بھی نہیں تھا مگر اپنی اصول پسندی کی وجہ سے وہ اس کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر کسی سے نہ کہہ سکے جس کی وجہ سے اُن کا یہ خواب اُدھورا رہ گیا۔ محمد احسن راجہ تہذیب و شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں سے مزین اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والے ایک ایسے ہی بااصول اور خاندانی شخص تھے۔آج مادہ پرستی کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی اکثریت کوئی بھی تعلق یا رشتہ بنانے سے پہلے اسے نفع نقصان کے تراوز میں تولتی ہے وہاں محمد احسن راجہ صاحب جیسے بامروت، ہمدرد اور وضع دار لوگ اب شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں راجہ صاحب جیسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ سیرت کے ساتھ حُسن صورت سے بھی نوازا ہو۔ محمد احسن راجہ سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ وفاقی سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے ایک لائیو انٹرویو کے لیے ایف ایم 101 ریڈیو پاکستان لاہور تشریف لائے تھے۔ میں اُس وقت وہاں پروڈیوسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ یہ ایک رسمی سا انٹرویو تھا جس کے بعد ہمارے اس وقت کے انچارج خورشید احمد ملک صاحب نے راجہ صاحب کو چائے کے لیے اپنے کمرے میں روک لیا تو پروٹوکول کا تقاضا نبھاتے ہوئے مجھے بھی وہاں بیٹھنا پڑا۔ چائے پر راجہ صاحب سے کچھ غیر رسمی گفتگو ہوئی تو یہ بھید کھلا کہ آپ ایک بڑے سرکاری افسر ہونے کے ساتھ لکھاری بھی ہیں اور آپ کی تین چار کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سچی بات ہے یہ جان کر بھی مجھے کوئی خاص اعتبار نہیں آیا اور میں نے سوچا کہ آج کل کے دیگر بڑے بڑے افسروں کی طرح راجہ صاحب بھی شاید کوئی شوقین قسم کے افسر ہیں جنہوں نے کسی اور شوق کے بجائے ’’کمپنی‘‘ کی مشہوری کے لیے لکھنے لکھانے کا شوق پالا ہوا ہے۔ مگر میری یہ بدگمانی اُس وقت باقاعدہ شرمندگی میں بدل گئی جب کچھ عرصہ بعد مجھے ان کا سفرنامہ ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا ’’گھر کا رستہ بھول گیا‘‘ کے بعد یہ اُن کا دوسرا سفرنامہ تھا جس میں راجہ صاحب نے ایک سرکاری کورس کے سلسلے میں امریکہ کے سفر اور ہاورڈ میں اپنے قیام کی روداد بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔ دوران سفر انہوں نے وطن سے اپنی محبت کو جس انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھتے ہوئے قاری بھی اُن کے ساتھ وطن کی محبت میں پوری طرح ڈوب جاتا ہے۔ جو لوگ راجہ صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ کی ان اختتامی لائنوں سے ان کو بھی راجہ صاحب کی وطن سے بے پناہ محبت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ ’’ہم اٹلانٹک اور سات سمندروں سے دور چاند ستاروں کی اس خوبصورت سرزمین کی طرف بڑھ رہے تھے جو جنت نظیر ہے۔ جس کی خاک میں لعل و جواہر ہیں، جس کی کوکھ میں محبت کی حرارت ہے جو میری اپنی ہے، جو میرا وجود ہے جو میری پہچان ہے جو میرا چاند سا پاکستان ہے‘‘۔ سچی بات ہے یہ سفرنامے پڑھنے کے بعد میری یہ غلط فہمی پوری طرح دور ہو گئی کہ محمد احسن راجہ جی پُر تعیش کمروں اور بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے وہ اعلیٰ سرکاری افسر ہیں جو کھاتے تو پاکستان کا ہیں لیکن گن انگلستان اور امریکہ کے گاتے ہیں۔ راجہ صاحب سے دوچار ملاقاتیں اور ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اپنی گفتگو اور تحریر میں ایک محب وطن، درد مند اور شائستہ دکھائی دینے والے محمد احسن راجہ حقیقت میں بھی ایسے ہی اصلی اور خالص انسان ہیں۔ بغیر کسی بناوٹ کے اندر باہر سے یکساں خوبصورت کسی مصلحت اور منافقت کے بغیر اپنے دین، وطن اور شاندار روایات و اقدار سے جُڑے ہوئے پیارے انسان۔ یہ دنیا دارالفنا ہے ہر بندے کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ راجہ صاحب بھی حکم خداوندی کے تحت اپنے حصے کی زندگی گزار کر اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ مگر پتا نہیں مجھے آج بھی یہ احساس کیوں ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان اسی طرح موجود ہیں جیسے اپنی زندگی میں تھے۔ آپ جیسے بے لوث لوگ اس جہانِ فانی سے گزر بھی جائیں تو اپنے اعلیٰ اخلاقی رویوں اور پُر خلوص محبتوں کی وجہ سے دلوں میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو انہیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے۔ بابا بلھے شاہ ؒ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ کہا ہے ’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے ساتھ ایسے ہی کے لیے کے بعد

پڑھیں:

نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی، شرجیل میمن

حیدرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی اسٹیٹ کے خلاف بیانیے کو تبدیل کریں، واحد حل بات چیت ہے، بات چیت کے ذریعہ اپنی بات کریں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے سینئر وزیر برائے اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ حکومت کو کسی بھی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی۔ حیدرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ پاک بھارت لڑائی میں فوجی اور سویلین شہدا کو یاد رکھیں، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو یاد رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ عید کا دن نمازوں اور قربانی کے ساتھ اتحاد کا دن ہوتا ہے، میری زندگی میں یہ پہلی عید ہے جو فاتح قوم کےطور پر منارہے ہیں، بھارت کو پاکستان نے عبرتناک شکست سے دوچار کیا، یہ جنگ ہماری بہادر افواج، سیاسی قیادت اور عوام نے مل کر لڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ عید کے روز  2022ء کے سیلاب متاثرین کو یاد رکھیں گے، سیلاب متاثرین کےلیے بلاول بھٹو کی ہدایت پر 21 لاکھ گھر بنارہے ہیں، مئی میں ہم 8 لاکھ گھر بنانے کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں، سولر سسٹم بھی مفت تقسیم کیے جارہے ہیں۔ 

شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ کا بجٹ 13 جون کو پیش ہوگا، کوشش ہے عوام کو ریلیف دیں، وفاقی حکومت بھی کوشش کرے گی کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بجٹ میں صحت اور تعلیم کو خصوصی توجہ دی ہے، ایم کیو ایم کی شعلہ بیانی اس کی مجبوری ہے، ہم سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی اسٹیٹ کے خلاف بیانیے کو تبدیل کریں، واحد حل بات چیت ہے، بات چیت کے ذریعہ اپنی بات کریں۔ انہوں نے بتایا کہ علیم خان آئے تھے، وعدہ کیا تھا کہ حیدرآباد سکھر موٹروے بنانے جارہے ہیں، اس سڑک پر سندھ کی نہیں پورے ملک کی ٹرانسپورٹ چلے گی، اسی سال حیدرآباد کو ای وی بسیں ملیں گی، مفت پنک اسکوٹر بھی بہنوں اور بچیوں کو دینے جارہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا وفاقی بجٹ پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ
  • ہمیں ملکر آبی وسائل کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا، احسن اقبال
  • ن لیگ والے کہتے ہیں کہ جنگ کا ڈیزائن میاں صاحب نے بیٹھ کر بنایا ہے: پرویز الہیٰ
  • ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • آپریشن سندور کا منطقی انجام نریندر مودی کی شکست ہوگا، احسن اقبال
  • فلسفۂ قربانی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی، شرجیل میمن
  • بلوجستان میں بھی ہندوستان کے فسادیوں کو عبرتناک شکست دیں گے، احسن اقبال
  • شکر گڑھ: احسن اقبال کی شہید ایف سی اہلکار معظم کے گھر آمد