شرابی کو بیٹی نہیں دے سکتی، دلہن کی ماں نے بارات واپس لوٹا دی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
بھارت میں شراب پی کر آنے والے دلہا کو دلہن کی والدہ نے خالی ہاتھ واپس لوٹا دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بینگلورو میں لڑکی کی ماں نے نشے میں دھت دلہا کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کرنے سے انکار کردیا۔ دلہن کی ماں کا کہنا تھا کہا لڑکے کا ابھی سے یہ حال ہے تو شادی کے بعد پتا نہیں کیا کرے گا۔ دلہن کی ماں نے ہاتھ جوڑ کر دلہا اور اس کے گھر والوں سے واپس جانے کی درخواست کی۔
رپورٹ کے مطابق کچھ رشتے داروں نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی تاہم رسومات کے دوران نشے میں دھت دلہا نے رسم کے لیے لائی گئی تھالی کو زمین پر پٹخ دیا۔ دلہا کی حالت دیکھ کر دلہن کی ماں نے دلہا کے گھر والوں سے فورا واپس چلے جانے کی درخواست کی اور اپنی بیٹی کو شرابی کے ساتھ رخصت کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہ میں ایسے شخص کو اپنے خاندان کا حصہ نہیں بنا سکتی۔
واقعہ سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین نے لڑکی کی والدہ کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو محفوظ مستقبل دینے کے لیے نا مناسب رویے کے خلاف آواز اٹھائی جو قابل تحسین ہے۔ دلہن کی والدہ نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ اپنی بیٹی کو ایک شرابی سے بچانے کے لیے درست اور بروقت فیصلہ کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دلہن کی ماں کی ماں نے
پڑھیں:
27ویں ترمیم آئین کے نمایاں خدوخال کو متاثر کر سکتی ہے
اسلام آباد:26 ویں آئینی ترمیم کے کامیاب تجربے کے بعد، وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع کر دی ہے جو آئین کے نمایاں خدوخال کو مزید متاثر کر سکتی ہے۔
سابق پی پی پی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا خیال ہے کہ 27ویں ترمیم کا بنیادی مقصد آرٹیکل 243 میں ترمیم ہے، جو مسلح افواج کے کنٹرول اور کمانڈ کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کی تقرری سے متعلق ہے باقی سب کچھ صرف شور وغل ہے جس پر مذاکرات اور دستبرداری ممکن ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے اندر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے درمیان وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر تقریباً اتفاق رائے ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق یاسر قریشی کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان 27ویں ترمیم کے دیگر پہلوؤں پر اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن عدلیہ کو تقسیم کرنے اور اسے زیرنگین بنانے کے اقدامات پر اتفاق رائے ہونے کا امکان ہے۔
26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی پر 27 ویں ترمیم کے اثرات پر بحث اب غیر متعلقہ ہے۔ میرے خیال میں عدلیہ کا کردار اب ایک ربڑ سٹمپ کے طور پر ہے جس کا مقصد ایگزیکٹو کو مزید طاقت اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اگرچہ کچھ سینئر وکلا اب بھی سرکاری حکام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بنچ کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔
جوڈیشل کمیشن جس پر ایگزیکٹو کا غلبہ ہے آئینی بنچ سے کسی جج کو کسی بھی وقت ہٹا سکتی ہے تاہم وفاقی آئینی عدالت میں صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے جہاں ایک بار جج کی تقرری کے بعد وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عہدے پر برقرار رہے گا۔
وکلا کا الزام ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج جو کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ اب آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کے نام پر غور و فکر جاری ہے۔
ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے اتفاق رائے پر مبنی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت تمام سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومتوں اور آئینی اداروں کو ایک وسیع قومی مکالمے میں شامل کرے تاکہ عملی، جامع اور مستقبل کے حوالے سے اصلاحات تیار کی جا سکیں۔
انہوں نے آئینی عدالت کے قیام کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی عدالتیں وفاقی و صوبائی سطح پر ہونی چاہئیں جن میں تمام وفاقی یونٹس کی نمائندگی کرنے والے جج شامل ہوں۔