Nai Baat:
2025-04-25@10:35:52 GMT

حقیقی آگ یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ٹرمپ کو تحفہ!

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

حقیقی آگ یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ٹرمپ کو تحفہ!

آگ کبھی مقام دیوتائی پر فائز تھی لیکن انسانی شعور نے اُسے اِس آسمانی منصب سے اتار کر زمین پر دے مارا ۔ تاریخ نہ جانے کتنے گمشدہ خدائوں کا پتہ دیتی ہے لیکن یہ انسانی شعور ہی تھا جو حق کی تلاش میں بڑھتا ہوا آج اُس مقام پر پہنچا چکا ہے کہ مستقبل میں ایک خدائے یکتا کی متفقہ حکمرانی زمین پر قائم ہو جائے ۔ آلات ِابلاغ نے جہاں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے وہیں کلچروں کا تبادلہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے گو کہ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے لیکن اُس کی رفتار کچھوے جیسی تھی لیکن جدید آلات ابلاغیات نے پرانے کچھوے کو نیا خرگوش بنا دیا ہے ۔ کوئی زمانہ تھاکہ شہروں کے شہر صفحہء ہستی سے مٹ جاتے تھے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی اور پھر صدیوں بعد زمین کی کھدائی کے دوران شہروں کے آثار برآمد ہوتے تو معلوم پڑتا کہ یہاں کوئی آسمانی یا زمینی آفت نازل ہوئی تھی ۔ہماری اپنی دفن شدہ تہذیبیں اس کی زندہ مثال ہیں ۔ لیکن آج کاانسان ایک دوسرے کے حالات سے مکمل باخبر ہے ٗ کہیں زلزلہ آ رہاہو یا سونامی آپ اُسے براہ راست دیکھ سکتے ہیں اور شہروں پرگزرنے والی قیامت کے بھی چشم دید گواہ بن جاتے ہیں ۔ آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ریسرچ کو جو مقام حاصل ہے وہ شاید اِس سے پہلے نہیں تھا ۔ہمیں ہرچیز پر پہلی نظر تحقیقی ہی ڈالنا پڑتی ہے ۔مکالمے کے اِس عہد میں اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی بات کو بغیر زیر بحث لائے من و عن تسلیم کر لیا جائے تو وہ زمانے گزرے بھی زمانہ گزر چکا ہے ۔

لاس اینجلس جہاں 1984ء کا اولمپک ہوا تھا امریکہ کے امیر ترین لوگوں کا علاقہ ہے کہ وہاں مال دار امریکیوں کے علاوہ وہاں کے مشہور و معروف لوگ بھی رہتے ہیں جن میں ماضی ٗ حال اور مستقبل کے اداکاروں کے علاوہ اے پلس بزنس مین اور دوسری اہم شخصیت بھی قیام پذیر تھیں ۔ لاکھوں انسانوں کا یہ خوبصورت ترین شہردیکھتے دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا اور آخری اطلاع آنے تک 11افراد اِس آگ کے حصار میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ اربوں ڈالر کا نقصان اس کے علاوہ ہے ۔ کل تک دنیا بھر میں خیرات تقسیم کرنے والے ارب پتی آج خود کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔بلاشبہ ! رب کے اپنے فیصلے ہیں جنہیں جاننے کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا ۔سماج اچھے اوربُرے لوگوں کے مجموعے کا نام ہوتا ہے ۔ دنیا کا ایک بھی معاشرہ سوفیصد نیکو کاروں کا ہے اور نہ ہی گناہگاروں کا ۔یہی سماج ہوتا ہے جس میں ہم سب نے زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ امریکی اداکار جیمز وڈ کا گھر بھی اس سانحہ میں جل کر راکھ کاڈھیر بن گیا جو 2 مرتبہ آسکر کیلئے نامزد ہوئے اور تین مرتبہ انہوں نے ایمی ایوارڈ اپنے نام کیا ۔ جیمز وڈ کا رویہ فلسطینیوں کے حوالے سے انتہائی احمقانہ تھا اور وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر نہ صرف خوش تھے بلکہ اُسے جائز سمجھتے اور جاری رکھنے کے حمایتی بھی تھے ۔ یقینا یہ ایک گھٹیا اور کمتر سوچ ہے اور بالخصوص ایک ایسے شخص سے تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی جس کا تعلق فنون ِ لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے ہو ۔یہ رویہ انتہائی قابل مذمت تھا اور دنیا بھر کے غیرت مند اور انسان دوست انسانوں نے اس کی مذمت بھی کی لیکن کیا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جیمز وڈ کا جو رویہ قابل مذمت بلکہ قابل ِ نفرت تھا وہ کسی دوسرے انسان کیلئے جائز کیسے ہو سکتا ہے ؟ جیمز وڈ اپنے گھر کے جلنے کی روداد سناتے ہوئے رو پڑے جس نے اینکر کو بھی افسردہ کردیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جس کا دل دکھا ہو اُس کا دل نہیں دکھانا چاہیے ۔ ہمیں وہ فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جو صرف اللہ نے خود کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ لاس اینجلس کی آگ کے حوالے سے میرا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ یہ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پہلا تحفہ ہے اور ایسے کئی تحائف اسے اگلے چار سال تک وقتاً فوقتاً ملتے رہیں۔ آج ممکن ہے یہ بات آپ کو حیرت انگیز محسوس ہو لیکن میں کسی صورت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ جنگل کی معمولی آگ نے جدید ترین امریکہ کا ایک بڑا شہر جلا کر خاکسترکر دیا ۔ جلد یا بدیر یہ بات سامنے آ جائے گی کیونکہ اس آگ نے انسان تو بچا لیے کیونکہ انسانو ں کی اموات حکومتیں جانے کے بعد بھی ریاست کیلئے درد سر ہوتی ہے لیکن سرمایہ نہیں بچایا گیا حالانکہ یہ بھی بچایا جا سکتا تھا اوریہ آگ لمحوں میں نہیں پھیلی ۔

پنجاب میں دھی رانی پروگرام کا آغاز میرے لئے خوشی کا باعث ہے لیکن اِس کے ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے 51 بیٹیوں کی شادی کی ہے تو خانقاں ڈوگراں کے شاہد محمود عاجز نے ٗ جو واقعی ایک عاجز شخص ہے اور لوگ سے فنڈ اکھٹے کر کے سالہا سال سے یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے اُس نے 13غریب بیٹیو ں کی شادی کی جس میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا ۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ اس بار ہونے والی شادیوں نے اُس اکیلئے شخص کی جدوجہد کو 575 شادیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ پنجاب میں آج بھی ایسے بیٹے موجود ہیں جو بہنوں کا سر ڈھانپنا جانتے ہیں ۔عبد العلیم خان کے ساتھ ایک طویل سفر کے بعد میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ نے اُسے بہترین انتظامی صلاحیتوں سے نواز رکھا رہے ورنہ ایک شخص بہت سے ادارے اتنی مہارت سے نہیں چلا سکتا ۔ وفاقی وزیر مواصلات و نجکاری عبد العلیم خان نے اس ہفتے عبد العلیم خان فائونڈیشن کے زیر انتظام چلنے والے ڈائیلیسز سینٹرز کادورہ کرتے ہوئے میوہسپتال اور سروسز ہسپتال لاہور میں مریضوں سے ملاقات کی اور انہیں ملنے والی سہولتوں بارے خود اُن سے دریافت کیا ۔ عبد العلیم خان نے مریضوں کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ڈاکٹروں کو ہدایات جاری کرنے کے بعد عبد العلیم خان فائونڈیشن کی فری ڈسپنسریوں کا دورہ کیا جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر صبح شام مریضوں کی خدمت کیلئے مصروف رہتے ہیں۔ عبد العلیم خان فائونڈیشن فری ڈسپنسریوں میں مریضوں کو عالمی میعارکی ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اِس کے علاوہ صاف پانی کی فراہمی کیلئے جا بجا ڈرنکنگ واٹر فلٹر پلانٹ نصب کر رکھے ہیں جہاں سے لاکھوں لیٹر پینے لائق پانی عام آدمی کو بغیر کسی تکلیف کے روزانہ کی بنیاد پر فراہم ہو رہا ہے ۔ ایسا ملک جہاں عبد العلیم خان جیسا صاحب ِ ثروت اپنی جیب سے ضرورت مندلوگوں پر کروڑوں خرچ کر رہا ہے اوردوسری طرف خانقاں ڈوگراں کا خالد محمود عاجز مفلسی کی حالت میں بھی غریب اور یتیم بچیوں کی شادیوں کیلئے کامیاب کوششیں کرتا رہتا ہے اُس ملک کو قیامت کی صبح تک کچھ نہیں ہونے والا ۔آگ ٗ زلزلہ اور سیلاب حادثات ہیں اور یہ کہیں بھی ہو سکتے ہیں ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عبد العلیم خان جیمز وڈ ہے لیکن لیکن ا رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے‘ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے
  • صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا
  • پی ایس ایل؛ ڈرائیر، ٹریمر کے بعد 24 قیراط گولڈ پلیٹڈ آئی فون کا تحفہ