Nai Baat:
2025-09-18@13:42:21 GMT

حقیقی آگ یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ٹرمپ کو تحفہ!

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

حقیقی آگ یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ٹرمپ کو تحفہ!

آگ کبھی مقام دیوتائی پر فائز تھی لیکن انسانی شعور نے اُسے اِس آسمانی منصب سے اتار کر زمین پر دے مارا ۔ تاریخ نہ جانے کتنے گمشدہ خدائوں کا پتہ دیتی ہے لیکن یہ انسانی شعور ہی تھا جو حق کی تلاش میں بڑھتا ہوا آج اُس مقام پر پہنچا چکا ہے کہ مستقبل میں ایک خدائے یکتا کی متفقہ حکمرانی زمین پر قائم ہو جائے ۔ آلات ِابلاغ نے جہاں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے وہیں کلچروں کا تبادلہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے گو کہ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے لیکن اُس کی رفتار کچھوے جیسی تھی لیکن جدید آلات ابلاغیات نے پرانے کچھوے کو نیا خرگوش بنا دیا ہے ۔ کوئی زمانہ تھاکہ شہروں کے شہر صفحہء ہستی سے مٹ جاتے تھے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی اور پھر صدیوں بعد زمین کی کھدائی کے دوران شہروں کے آثار برآمد ہوتے تو معلوم پڑتا کہ یہاں کوئی آسمانی یا زمینی آفت نازل ہوئی تھی ۔ہماری اپنی دفن شدہ تہذیبیں اس کی زندہ مثال ہیں ۔ لیکن آج کاانسان ایک دوسرے کے حالات سے مکمل باخبر ہے ٗ کہیں زلزلہ آ رہاہو یا سونامی آپ اُسے براہ راست دیکھ سکتے ہیں اور شہروں پرگزرنے والی قیامت کے بھی چشم دید گواہ بن جاتے ہیں ۔ آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ریسرچ کو جو مقام حاصل ہے وہ شاید اِس سے پہلے نہیں تھا ۔ہمیں ہرچیز پر پہلی نظر تحقیقی ہی ڈالنا پڑتی ہے ۔مکالمے کے اِس عہد میں اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی بات کو بغیر زیر بحث لائے من و عن تسلیم کر لیا جائے تو وہ زمانے گزرے بھی زمانہ گزر چکا ہے ۔

لاس اینجلس جہاں 1984ء کا اولمپک ہوا تھا امریکہ کے امیر ترین لوگوں کا علاقہ ہے کہ وہاں مال دار امریکیوں کے علاوہ وہاں کے مشہور و معروف لوگ بھی رہتے ہیں جن میں ماضی ٗ حال اور مستقبل کے اداکاروں کے علاوہ اے پلس بزنس مین اور دوسری اہم شخصیت بھی قیام پذیر تھیں ۔ لاکھوں انسانوں کا یہ خوبصورت ترین شہردیکھتے دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا اور آخری اطلاع آنے تک 11افراد اِس آگ کے حصار میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ اربوں ڈالر کا نقصان اس کے علاوہ ہے ۔ کل تک دنیا بھر میں خیرات تقسیم کرنے والے ارب پتی آج خود کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔بلاشبہ ! رب کے اپنے فیصلے ہیں جنہیں جاننے کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا ۔سماج اچھے اوربُرے لوگوں کے مجموعے کا نام ہوتا ہے ۔ دنیا کا ایک بھی معاشرہ سوفیصد نیکو کاروں کا ہے اور نہ ہی گناہگاروں کا ۔یہی سماج ہوتا ہے جس میں ہم سب نے زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ امریکی اداکار جیمز وڈ کا گھر بھی اس سانحہ میں جل کر راکھ کاڈھیر بن گیا جو 2 مرتبہ آسکر کیلئے نامزد ہوئے اور تین مرتبہ انہوں نے ایمی ایوارڈ اپنے نام کیا ۔ جیمز وڈ کا رویہ فلسطینیوں کے حوالے سے انتہائی احمقانہ تھا اور وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر نہ صرف خوش تھے بلکہ اُسے جائز سمجھتے اور جاری رکھنے کے حمایتی بھی تھے ۔ یقینا یہ ایک گھٹیا اور کمتر سوچ ہے اور بالخصوص ایک ایسے شخص سے تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی جس کا تعلق فنون ِ لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے ہو ۔یہ رویہ انتہائی قابل مذمت تھا اور دنیا بھر کے غیرت مند اور انسان دوست انسانوں نے اس کی مذمت بھی کی لیکن کیا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جیمز وڈ کا جو رویہ قابل مذمت بلکہ قابل ِ نفرت تھا وہ کسی دوسرے انسان کیلئے جائز کیسے ہو سکتا ہے ؟ جیمز وڈ اپنے گھر کے جلنے کی روداد سناتے ہوئے رو پڑے جس نے اینکر کو بھی افسردہ کردیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جس کا دل دکھا ہو اُس کا دل نہیں دکھانا چاہیے ۔ ہمیں وہ فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جو صرف اللہ نے خود کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ لاس اینجلس کی آگ کے حوالے سے میرا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ یہ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پہلا تحفہ ہے اور ایسے کئی تحائف اسے اگلے چار سال تک وقتاً فوقتاً ملتے رہیں۔ آج ممکن ہے یہ بات آپ کو حیرت انگیز محسوس ہو لیکن میں کسی صورت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ جنگل کی معمولی آگ نے جدید ترین امریکہ کا ایک بڑا شہر جلا کر خاکسترکر دیا ۔ جلد یا بدیر یہ بات سامنے آ جائے گی کیونکہ اس آگ نے انسان تو بچا لیے کیونکہ انسانو ں کی اموات حکومتیں جانے کے بعد بھی ریاست کیلئے درد سر ہوتی ہے لیکن سرمایہ نہیں بچایا گیا حالانکہ یہ بھی بچایا جا سکتا تھا اوریہ آگ لمحوں میں نہیں پھیلی ۔

پنجاب میں دھی رانی پروگرام کا آغاز میرے لئے خوشی کا باعث ہے لیکن اِس کے ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے 51 بیٹیوں کی شادی کی ہے تو خانقاں ڈوگراں کے شاہد محمود عاجز نے ٗ جو واقعی ایک عاجز شخص ہے اور لوگ سے فنڈ اکھٹے کر کے سالہا سال سے یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے اُس نے 13غریب بیٹیو ں کی شادی کی جس میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا ۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ اس بار ہونے والی شادیوں نے اُس اکیلئے شخص کی جدوجہد کو 575 شادیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ پنجاب میں آج بھی ایسے بیٹے موجود ہیں جو بہنوں کا سر ڈھانپنا جانتے ہیں ۔عبد العلیم خان کے ساتھ ایک طویل سفر کے بعد میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ نے اُسے بہترین انتظامی صلاحیتوں سے نواز رکھا رہے ورنہ ایک شخص بہت سے ادارے اتنی مہارت سے نہیں چلا سکتا ۔ وفاقی وزیر مواصلات و نجکاری عبد العلیم خان نے اس ہفتے عبد العلیم خان فائونڈیشن کے زیر انتظام چلنے والے ڈائیلیسز سینٹرز کادورہ کرتے ہوئے میوہسپتال اور سروسز ہسپتال لاہور میں مریضوں سے ملاقات کی اور انہیں ملنے والی سہولتوں بارے خود اُن سے دریافت کیا ۔ عبد العلیم خان نے مریضوں کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ڈاکٹروں کو ہدایات جاری کرنے کے بعد عبد العلیم خان فائونڈیشن کی فری ڈسپنسریوں کا دورہ کیا جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر صبح شام مریضوں کی خدمت کیلئے مصروف رہتے ہیں۔ عبد العلیم خان فائونڈیشن فری ڈسپنسریوں میں مریضوں کو عالمی میعارکی ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اِس کے علاوہ صاف پانی کی فراہمی کیلئے جا بجا ڈرنکنگ واٹر فلٹر پلانٹ نصب کر رکھے ہیں جہاں سے لاکھوں لیٹر پینے لائق پانی عام آدمی کو بغیر کسی تکلیف کے روزانہ کی بنیاد پر فراہم ہو رہا ہے ۔ ایسا ملک جہاں عبد العلیم خان جیسا صاحب ِ ثروت اپنی جیب سے ضرورت مندلوگوں پر کروڑوں خرچ کر رہا ہے اوردوسری طرف خانقاں ڈوگراں کا خالد محمود عاجز مفلسی کی حالت میں بھی غریب اور یتیم بچیوں کی شادیوں کیلئے کامیاب کوششیں کرتا رہتا ہے اُس ملک کو قیامت کی صبح تک کچھ نہیں ہونے والا ۔آگ ٗ زلزلہ اور سیلاب حادثات ہیں اور یہ کہیں بھی ہو سکتے ہیں ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عبد العلیم خان جیمز وڈ ہے لیکن لیکن ا رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: ٹرمپ
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی
  • کئی مقدمات میں وکلاء کو انگیج کرنا چیلنج ہے، سلمان صفدر
  • ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر بے وقوف بن جاتے ہیں، وزیراعلی علی امین گنڈاپور
  • ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر بے وقوف بن جاتے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی