امریکا کا مصنوعی ذہانت کے ”مائیکروپراسیسر“ کی برآمدپر نئی پابندیوں کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 جنوری ۔2025 )امریکا نے جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ”مائیکروپراسیسر“ کی برآمد اور اس کی ملکیت اور اے آئی سسٹمز کے صارفین کے باہم رابطوں کے قواعد سے متعلق نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے قانون کو 120 دنوں کے لیے عوامی تبصروں اور ردعمل کے لیے پیش کیا جائے گا نئے قانون کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اس کی ضرورت ہے.
(جاری ہے)
وائس آف امریکا کے مطابق اعلان کردہ قانون میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ قابل اعتماد شراکت دار ممالک کی کمپنیاں، جدت و اختراع کو فروغ دینے کے لیے اس ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی تک کیسے رسائی حاصل کر سکتی ہیں کامرس کی وزیر جینا ریمانڈو نے صحافیوںسے بات کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے برسوں میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا اطلاق حقیقتاً دنیا بھر میں ہر صنعت کے ہر کاروباری عمل میں ہر جگہ ہو رہا ہو گا کیونکہ اس میں پیداواری استعداد بڑھانے، سماجی شعبوں، صحت کی دیکھ بھال اور اقتصادی فوائد میں اضافے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے. ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی چپ جیسے جیسے مزید طاقت ور ہو گی ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرات بھی مزید سنگین ہو جائیں گے انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا ہے کہ نئے قانون کے تحت اے آئی چپ کی فروخت پر پابندیوں کا اطلاق آسٹریلیا، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے، جنوبی کوریا، اسپین، سویڈن، تائیوان، برطانیہ یا امریکہ پر نہیں ہو گا وہ ممالک جن پر امریکی ہتھیاروں کی پابندی ہے وہ پہلے ہی سے جدید اے آئی چپ کی پابندی کے تابع ہیں اور اب ان پر طاقتور کلوزڈ ویٹ اے آئی ماڈلز (آزادانہ کام کرنے والا مائیکروپراسیسر) حاصل کرنے کی پابندیوں کا بھی اطلاق ہو گا. نیشنل ٹیلی کمیونیکیشنز اینڈ انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ کلوزڈ ویٹ اے آئی ماڈلز میں ویٹ خود یہ تعین کرتا ہے کہ وہ ایک صارف کے بھیجے جانے والے مواد کو کس طرح پراسیس کرے گا اور وہ اسے کیا جواب فراہم کرے گا کلوزڈ ویٹ اے آئی چپ میں پراسیسنگ کے قواعد اور طریقے خفیہ ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اوپن ویٹ سسٹم کی چپ میں اسے استعمال کرنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ چپ کس طریقہ کار کے تحت دیے گئے مواد سے جواب تیار کرتی ہے. امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جو امریکہ کے قریبی شراکت دار ہیں یا جن پر ہتھیاروں کے حصول کی پابندیاں نافذ نہیں ہیں ان میں سے زیادہ تر کو جدید ترین اے آئی چپ حاصل کرنے کے لیے لائسنس کی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااگران کے ہاں موثر سیکیورٹی سسٹم نافذ ہو. ان ملکوں کے حوالے سے عہدے دار نے کہا کہ امریکہ کے کچھ قریبی اتحادیوں کی سیکیورٹی کا نظام بہت موثر ہے اور اے آئی ٹیکنالوجی کے تحفظ سے متعلق ان کے پاس دستاویزی ریکارڈ موجود ہے جو ہماری قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات پر پورا ترتا ہے نئے قانون کی بنیاد 2023 میں نافذ کی جانے والی وہ پابندیاں ہیں جن کے تحت چین کو مخصوص نوعیت کی آرٹیفیشل انٹیلی جینس چپ کی برآمد محددو کر دی گئی تھی. بیجنگ نے امریکہ کے اس نئے حکم نامے کو بین الاقوامی تجارتی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیاہے چین کی وزارت تجارت نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا اعلان برآمدی کنٹرول کے غلط استعمال کی ایک اور مثال اور بین الاقوامی کثیرالجہتی اقتصادی اور تجارتی قواعد کی صریحاً خلاف ورزی ہے بیجنگ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پابندیوں کا کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
فضل الرحمٰن کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور، کراچی، کوئٹہ میں ملین مارچ کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’عوام مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں‘
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’اپوزیشن کا باضابطہ کوئی اتحاد موجود نہیں‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
’مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کرتے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔