کھابوں کا شہر گوجرانوالہ: چور رائتہ اور سلاد بھی لے گئے
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) مزے مزے کے روایتی کھانوں کے لیے ملک بھر میں مشہور گوجرانوالہ شہر میں ہونے والی اپنی نوعیت کی اس منفرد واردات کے بارے میں یہ سوال زبان زد عام ہے کہ چوروں نے کوئی دولت ، سونا یا قیمتی اشیا چرانے کی بجائے کھانوں کی دوکان سے کھانے پینے کی اشیا کیوں چرائیں۔ گوجرانوالہ کے سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رضوان طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے پولیس کیریئر میں اس طرح کی واردات پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
ریسٹورنٹ کے مالک ملک زبیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ مقدمہ درج کرانے تھانے پہنچے تو چرائی گئی چیزوں کی فہرست دیکھ کر پولیس اہلکار بھی حیران رہ گئے اس موقعے پر موجود کچھ لوگ اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکے۔
(جاری ہے)
پاکستانی بجٹ: عوام کو بہتری کی کوئی توقع نہیں؟
گوجرانوالہ کے تھانہ اروپ میں ملک وسیم کی طرف سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ چور ریسٹورنٹ کا دروازہ توڑ کر مبلغ ساٹھ ہزار روپے کی مالیت کا جو سامان چرا کر لے گئے ہیں اس میں ڈیڑھ من چکن پکوڑہ، پچیس کلو مچھلی، دو پیٹی گھی، دس کلو رائتہ اور چار کلو سلاد کے علاوہ پانچ بڑے برتن (پتیلے) بھی شامل تھے۔
اس واردات کے بعد تعزیرات پاکستان کی دفعہ تین سو اسی کے تحت مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق کوٹ اسحاق کے رہائشی ملک وسیم نے حافظ آباد روڈ پر عکاشہ تکہ شاپ کے نام سے کھانے پینے کی ایک دوکان بنا رکھی ہے۔ چند روز پہلے جب رات کے پچھلے پہر کوئی تین بجے کے قریب وہ دوکان بند کر کے گھر گیا تو اس کے جانے کے بعد نامعلوم چور اس کی دکان پر آئے اور تالا توڑ کر کھانے پینے کا سامان چوری کرکے لے گئے۔
ملک وسیم اگلے روز وہاں پہنچا تو اس کو ٹوٹے ہوئے تالے اور خالی فریج دیکھ کر اس چوری کی واردات کا علم ہوا۔گوجرانوالہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی بھوکے چوروں کی کارستانی ہو سکتی ہے لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ چوروں کو اتنے زیادہ کھانے پتیلیوں سمیت لے جانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
گوجرانوالہ کے سینئر سپرتنڈنٹ پولیس رضوان طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ چور کھانوں کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسوں کو چرانے کے لیے اس ریسٹورنٹ پر آئے لیکن تالے توڑنے پر انہیں معلوم ہوا کہ یہاں پیسے نہیں ہیں تو پھر وہ کھانے اور دیگر اشیا اٹھا کر لے گئے۔
پاکستانی کھانے کہاں غائب ہو رہے ہیں؟
ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا،'' پولیس کی ایک خصوصی ٹیم اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے متاثرہ ریسٹورنٹ جو کہ ایک دوکان میں واقع ہے۔ اس پر یا اس کے آس پاس کوئی کیمرا موجود نہیں ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ چرایا جانے والا سامان کندھوں پر لے کر جانا مشکل ہے چور کسی گاڑی یا رکشے پر آئے ہوں گے۔
ہم اس دکان کے دونوں طرف جانے والے راستوں پر نصب کیمروں کی مدد سے واردات کے وقت آنے جانے والی ٹریفک کی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ چور جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ ‘‘کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کھانے پینے کی اشیا لوٹنے کی واردات حالات کی سنگینی کی عکاسی بھی کرتی ہے، مقامی صحافی شفقت عمران کہتے ہیں کہ چند ہفتے پہلے گوجرانوالہ کے علاقے چاندی چوک کے قریب مسلح افراد گن پوائنٹ پر راہ چلتے شخص سے پانچ کلو مٹن کا پیکٹ چھین کر فرار ہو گئے تھے۔
ان کے مطابق لگتا ہے کہ چوروں ڈاکوؤں میں بھی پارٹی کرنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ ان کے نزدیک بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم بڑھ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اچھی بات یہ ہے کہ ملزم پکڑے بھی جا رہے ہیں۔چکن تکہ مسالا کا موجد فوت
متاثرہ ریسٹورنٹ کے مالک تیس سالہ ملک وسیم اسی علاقے کے رہائشی ہیں اور وہ پچھلے پندرہ سال سے اس ریسٹورنٹ کو چلا رہے ہیں۔
یہاں صبح کے وقت ناشتہ پائے اور چنے وغیرہ کے ساتھ ملتا ہے شام کو مچھلی اور چکن کی ڈشز اور بار بی کیو فروخت ہوتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ملک وسیم نے بتایا کہ چور اس کی دکان سے گھی کے کنستروں سمیت سب کچھ اٹھا کر لے گئے ۔ملک وسیم نے اس واردات کے فوراً بعد اپنی دوکان دوبارہ شروع کر دی تھی۔ اس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، اس واردات کے بعد ڈاکو گن پوائینٹ پر سب کے سامنے اسی علاقے میں پنجاب سینٹری اسٹور کو لوٹ کر لے گئے۔
ان کے مطابق اس علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ اس واقعے کے بعد تاجر برادری خوف و ہراس کا شکار ہے۔ایس ایس پی رضوان طارق ملک وسیم کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ گنجان آبادی پر مشتمل ہے یہاں آبادی کے مطابق جرائم کی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ گوجرانوالہ میں سکیورٹی کے حالات بہت خراب ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد گوجرانوالہ میں حفاظتی گشت بڑھا دیا گیا ہے، مقامی چوکیداری نظام کو بھی سرگرم کیا گیا ہے اور عکاشہ ریسٹورنٹ کی رات پٹرولنگ پر مامور پولیس عملے کی بھی سرزنش کی گئی ہے۔یاد رہے گوجرانوالہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اہم شہر ہے۔ یہ سکھ سلطنت کے بانی رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش بھی ہے۔ اسے پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے بار بی کیو اور چکن کڑاہی سے لطف لندوز ہونے کے لیے دور دور سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ یونان کشتی الٹنے کے واقعے کی پہلی ایف آئی آر بھی ادھر درج ہوئی تھی۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی اسی شہر میں درج کئے گئے تھے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کھانے پینے کی واردات واردات کے کر لے گئے کے مطابق ملک وسیم رہے ہیں نہیں ہے کے بعد
پڑھیں:
رائے عامہ
جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔
وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔
مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔
ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔
دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔
’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔
مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔
رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔
تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!