واٹس ایپ میں سال کی پہلی بڑی تبدیلی ، جانیں تفصیل
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
میٹا نے واٹس ایپ میں 2025 کی پہلی بڑی تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میٹا کی جانب سے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کو میسجنگ ایپ کے ہر پہلو کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔واٹس ایپ کے اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے بیٹا (beta) ورژن میں اے آئی ٹیب کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ صارفین کمپنی کے متعدد اے آئی ٹولز کو استعمال کرسکیں۔
رپورٹ کے مطابق اے آئی ٹیب میں مختلف فیچرز موجود ہوں گے جیسے ایک فیچر مقبول اے آئی کریکٹرز کا ہوگا۔آپ مختلف اے آئی بوٹس سے متعدد موضوعات پر چیٹ کرسکیں گے۔اسی طرح اے آئی سے تیار کردہ اسٹیکرز، تصاویر اور میٹا کے اے آئی سرچ انجن جیسے فیچرز بھی وہاں دستیاب ہوں گے۔اے آئی اسٹیکرز اور تصاویر کا آپشن تو ابھی بھی دستیاب ہے مگر اس نئی تبدیلی سے سب کچھ ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے گا۔
درحقیقت اس ری ڈیزائن کا مقصد ہی اے آئی کو زیادہ نمایاں کرنا ہے تاکہ ان ٹولز کا استعمال بڑھے۔اس نئی تبدیلی سے کمیونیٹیز ٹیب متاثر ہوگی کیونکہ اسے ختم کرکے چیٹس ٹیب کا حصہ بنا دیا جائے گا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ میٹا کی جانب سے واٹس ایپ میں کاسٹیوم اے آئی بوٹس پر کام کیا جا رہا ہے۔واٹس ایپ میں یہ نیا اضافہ انسٹا گرام کے اے آئی اسٹوڈیو سے زیادہ بہتر ہوگا۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے افراد اپنے کاسٹیوم اے آئی بوٹس تیار کرنے کے خواہشمند ہیں۔زیادہ تر تو پہلے سے دستیاب بوٹس سے بات کرکے ہی مطمئن ہو جائیں گے یا حقیقی انسانوں سے چیٹ کو ترجیح دیں گے۔جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ نئی تبدیلی بیٹا ورژن میں متعارف کرائی گئی ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ تمام صارفین کو یہ کب تک دستیاب ہوگی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: واٹس ایپ میں اے ا ئی
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔