14 آئی پی پیز کیساتھ نظر ثانی معاہدوں کی منظوری،بجلی کی قیمت میں 11 روپے تک کمی کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی کابینہ نے 14 آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں کی منظوری دے دی جس سے بجلی کی قیمت میں 11 روپے تک کمی کا امکان ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا۔
وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر 14 انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز ) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی تجویز کی منظوری دے دی۔ ان نظر ثانی شدہ معاہدوں کی رو سے 14 آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے بعد مذکورہ آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں 802 ارب روپے کی کمی کی تجویز منظور کی گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق ان آئی پی پیز سے گزشتہ سالوں کے اضافی منافع کی مد میں 35 ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی، ان آئی پی پیز میں 10 وہ ہیں جوکہ 2002 کی پالیسی کے تحت بجلی بنا رہے تھے جبکہ 4 وہ ہیں جو کہ 1994کی پاور پالیسی کے تحت قائم کئے تھے۔
اس کے علاوہ 1994ء کی پالیسی کا ایک آئی پی پی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کیا گیا ہے۔اب تک آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں سے حکومت کو ان معاہدوں کے قابل اطلاق رہنے تک کل 1.
اس موقع پر وزیراعظم نے آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدے بڑی کامیابی ہے جن سے نہ صرف قومی خزانے کو بچت ہو گی بلکہ گردشی قرضہ ختم ہو گا اور بجلی کی قیمت بھی کم ہوگی۔
انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کامیاب نظر ثانی شدہ معاہدوں پر وزیر پاور، مشیر پاور، سیکرٹری پاور ، اور اس حوالے سے قائم کی گئی ٹارسک فورس کے ممبران کی کارکردگی کو سراہا-
وفاقی کابینہ نے حکومت کی رائٹ سائیزنگ کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارش پر وزارت انسداد منشیات کی وزارت داخلہ ڈویژن میں انضمام کی منظوری دے دی- جس کے بعد انسداد منشیات ڈویژن وزارت داخلہ کے ایک ونگ کے طور پر کام کرے گا جبکہ اینٹی نارکوٹکس فورس وزارت داخلہ کا ایک ملحقہ محکم ہوگا۔
اس انظمام سے انتظامی معاملات، تنخواہوں، دفتری دیکھ بھال کے امور اور دیگر آپریشنل خرچوں کی مد میں قومی خزانے 183.250 ملین روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔
وفاقی کابینہ نے وفاقی حکومت کی رائٹ سائیزنگ کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارش پر ہوا بازی ڈویژن کی ڈیفینس ڈویژن میں انضمام کی منظوری دے دی۔ جس سے انتظامی معاملات، تنخواہوں، دفتری دیکھ بھال کے امور اور دیگر آپریشنل خرچوں کی مد میں قومی خزانے 145 ملین روپے سالانہ کی بچت ہوگی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ 2013 تک سول ایوی ایشن کے امور وزارت دفاع کے ماتحت تھے اس لئے حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہوا بازی ڈویژن کو وزارت دفاع میں دوبارہ ضم کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ایئر اسپیس مینجمنٹ میں بہتری آئے گی۔
وفاقی کابینہ نے کابینہ ڈویژن کی سفارش پر پبلک پروکیورمنٹ رولز ، 2004 میں ایک نئے سیکشن 45-اے کے اندراج کی منظوری دے دی- اس سیکشن کے تحت ایک پروکیورنگ ایجنسی پروکیورمنٹ کا تمام عمل یا اس عمل کا کچھ حصہ کسی دوسری پروکیورنگ ایجنسی کے حوالے کر سکے گی۔
وفاقی کابینہ نے وزارت انسانی حقوق کی سفارش پر نیشنل کمیشن فار مائیناریٹیز ایکٹ 2024 کو پارلیمنٹ بھیجنے کی منظوری دے دی وفاقی کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارش پر ڈاکٹر محمد بشیر کی بطور ممبر ٹیکنیکل انوائرمنٹ ٹریبیونل، اسلام آباد کنٹریکٹ کی بنیاد پر مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کی منظوری دے دی-
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نظر ثانی شدہ معاہدوں آئی پی پیز کے ساتھ وفاقی کابینہ نے کی منظوری دے دی ساتھ نظر ثانی کی سفارش پر آئی پی پی روپے کی
پڑھیں:
حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
اسلام آباد:پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔
پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔
توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔