Express News:
2025-06-10@20:31:23 GMT

ہر پاکستانی 3 لاکھ 2 ہزار روپے کا مقروض ہو گیا، وزارت خزانہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

اسلام آباد:

ہرپاکستانی کا قرض 2 ہندسوں کی رفتار سے بڑھ کر گزشتہ مالی سال کے اختتام تک قریباً 302,000 روپے تک پہنچ گیا۔

نئی مالیاتی پالیسی کے مطابق حکومت بجٹ خسارہ پارلیمنٹ کے  ایکٹ میں طے شدہ حد تک محدود نہیں کر سکی۔

گزشتہ مالی سال میں وفاقی بجٹ کا خسارہ قانونی حد سے دوگنا یا 4 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا۔وفاقی بجٹ کا خسارہ ملکی پیداوار کے 3.

5فیصد تک محدود رکھنے کے قانونی تقاضے کے برعکس 7.3فیصد یا  7.7 کھرب روپے ہو گیا۔

یہ بجٹ کے ہدف سے قدرے زیادہ تھا۔ وزارت خزانہ سے جاری پالیسی بیان کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام تک فی کس قرضوں کے بوجھ میں 30,690 روپے یا 11.3 فیصد اضافہ ہوا۔

قانون حکومت کو پابند کرتا ہے  وہ مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد بندی ایکٹ کی کسی بھی خلاف ورزی کی وجوہات کے ساتھ جنوری کے آخر تک قومی اسمبلی کے سامنے پالیسی بیان جمع کرائے۔  

اس کیلئے  تیار کردہ مالیاتی پالیسی بیان کے مطابق، فی کس قرضہ مالی سال 2023 ء میں 271,264 روپے سے بڑھ کر 2024 ء کے دوران 301,954 روپے ہو گیا۔وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ  نے 7 جنوری تک دستیاب معلومات کی بنیاد پر  بیان کردہ تجزیہ اور اعداد و شمار کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔

حکومت نے وفاقی بجٹ کا خسارہ قانونی حد تک محدود کر کے درست مالیاتی انتظام کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی۔رپورٹ کے مطابق سرکاری قرضے میں گزشتہ عرصے میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔

قرض پر زیادہ سود کی ادائیگیوں اور شرح مبادلہ میں کمی کے اثر کی وجہ سے یہ 62.9 کھرب روپے سے بڑھ کر 72.3 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔

معیشت کے حجم کے لحاظ سے عوامی قرض جون 2023 ء میں 74.8 فیصد سے کم ہو کر جون 2024 ء میں 67.2 فیصد رہ گیا۔  مارک اپ ادائیگیوں میں اضافے کی وجہ سے حکومتی اخراجات بجٹ تخمینے سے 11.7 فیصد زیادہ بڑھ گئے لیکن نان مارک اپ اخراجات بجٹ کی حدود کے اندر رہے۔

افراط زر میں کمی آئی اور بنیادی مالیاتی توازن میں سرپلس، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ نہ ہونے کے برابر اور مستحکم شرح مبادلہ تھا۔ بہترین پالیسی، مالیاتی استحکام اور ٹارگٹڈ سبسڈیز نے معیشت  بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا  لیکن موجودہ اخراجات بجٹ کے تخمینے کے 105.5 فیصد تک پہنچ گئے جو بلند شرح سود کی وجہ سے مارک اپ کی ادائیگیوں میں اضافہ کے باعث ہوا۔

مالی سال 2024 ء کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا 1.14 کھرب روپے تاہم پی ایس ڈی پی  میں 218 ارب روپے کی کٹوتی کی وجہ سے اصل اخراجات 1.03 کھرب روپے تک کم ہو گئے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا محصولات میں معمولی کمی دیکھی گئی جس کے باعث بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کے 7.1 فیصدمیں اضافے کے باعث 7.3 فیصد رہا۔مالیاتی خسارے میں اضافے کا باعث بننے والے عوامل مالیاتی انتظام سے باہر تھے، جس میں اعلیٰ شرح سود اور شرح مبادلہ میں کمی شامل تھی۔

بجٹ کا تخمینہ 9.415 کھرب روپے ہے۔ صوبوں کو منتقلی کے بعد خالص محصولات وفاقی حکومت کے پاس رہیں جو بجٹ تخمینوں کا 97.5 فیصد تھی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی وجہ سے کا خسارہ مالی سال کے مطابق بجٹ کا

پڑھیں:

تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ، دفاعی اخراجات کیلئے2550 ارب روپے مختص، سولر پینل پر ٹیکس عائد

بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ 26-2025 پیش کردیا، دفاعی بجٹ کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے تمام ٹیکس سلیبس میں نمایاں کمی کی گئی ہے جبکہ اجلاس میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید شور شرابہ کیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 5 بجے طلب کیا گیا تھا، تاہم وہ تقریباً آدھے گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔

وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان پہنچے۔ بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر، یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا، جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا، اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، دفاعی اخراجات کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، یہ رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ سے 20.2 فیصد زائد ہے، جو جی ڈی پی کا 1.97 فیصد بنتا ہے، تاہم یہ گزشتہ سال کے 1.71 فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں، یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے، خوشحالی دائم یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جناب اسپیکر ! ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی بہتری کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مائیکرو اکنامک اسٹیبلائزیشن پروگرام کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح گلوبل فنانشل ادارے، ریٹنگ ایجنسیز اور ملکی و غیر ملکی سروے معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہے ہیں۔ اسی طرح پی ڈبلیو سی کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد 49 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اسی اعتماد کی بازگشت اورسیز چیمبرز کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں بزنس کانفڈینس انڈیکس میں تاریخی بہتری آئی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گیلپ کےمطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں، فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر فنڈنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔

ایف بی آر ریفارمز
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی، پاکستان کی ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ 10 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی، ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے، یہ صورت حال ناقابل قبول تھی، اس خلا کو پُر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا، اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر اصلاحاتی پلان کا آغاز کیا گیا، یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد 3 ستونوں پر ہے، (عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی)۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جب کہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے مہارت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو انعامات محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی، یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن، خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے، یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے، دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے، جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التوا کا شکار رہتے ہیں، موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال ایف بی آر نے کامیاب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے 78.4 ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں، اس کے علاوہ عدالتوں میں اے ڈی آر سے متعلق ایک مقدمے کو مذاکراتی تصفیہ کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔

انرجی ریفارمز
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے پاور سیکٹر کے شعبے کی اہمیت مسلمہ ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملکی صنعت کے لیے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ مستحق اور پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر بھی نظرثانی کی ہے جس کے نتیجے میں 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہوگی، اس طریقہ کار پر عمل کرکے ہم ماحول کے لیے نقصان دہ 3 ہزار میگاواٹ گنجائش سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی 3 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا تقریباً آدھا عمل مکمل کر لیا ہے اور ان کی نجکاری کے تمام ضروری لوازمات پورے کر لیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے این ٹی ڈی سی کو موثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے 3 نئی کمپنیوں میں تقسیم کردیا ہے، یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ اِن اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پروفیشنل بورڈز کے سپرد ہے، ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے، پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے، انشااللہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جب کہ بجلی کے شعبے میں مسابقتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کیے گئے ہیں اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے اور 9 ہزار میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار کے ایسے تمام پلانٹس کو بند کر دیا ہے جو جنریشن کمپنیوں کی شکل میں سرکاری ملکیت میں تھے، ان پلانٹس کے فالتو آلات کی فروخت کا عمل شروع ہو گیا ہے تا کہ ان اداروں کے باعث ملکی خزانہ پر 7 ارب روپے سالانہ سے زائد کے بوجھ کا خاتمہ ہو سکے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں ہدف پر مبنی اصلاحات کیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ، اور اسٹریٹیجک تنوع کے بل بوتے پر نمایاں ترقی ہوئی ہے جب کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے شعبے میں مسابقتی بولیوں میں خاص طور پر ترک پیٹرولیم سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی خاصی دلچسپی رہی، جو طویل عرصے کے بعد آن شور سیکٹر میں قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آف شور ایکسپلوریشن بڈ 2024 کا آغاز ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد عمل میں آیا، جس سے آف شور سیکٹر میں ای اینڈ پی سرگرمی بحال ہوئی جب کہ تیل اور گیس کی کی متعدد دریافتوں سے درآمدات کے متبادل میں مدد ملی اور انرجی سیکیورٹی میں بہتری آئی، ای اینڈ پی کمپنیوں نے مستقبل میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے سے رواں فیلڈز پر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔ پیٹرولیم پالیسی 2012 ٹائٹ گیس پالیسی میں ترامیم، مناسب قیمتوں سمیت متعدد پالیسی اصلاحات سے مسابقت میں بہتری آئی، ریفائننگ اور ڈاؤن اسٹریم سیکٹر میں پاکستان ریفائنگ پالیسی 2023 کے ذریعے تحرک دیکھنے میں آیا ہے، ایندھن کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی جانب اقدامات کا مقصد مسابقت اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں، حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی اور اس منصوبے کی متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلوز حاصل ہوں گے جب کہ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے سے کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری ماحولیاتی حفاظتی اقدامات اور معاونت کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے جب کہ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریکوڈک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل وحمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔

ٹیرف ریفارمز
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پُر عزم ہے، وزارت تجارت نے مسابقتی، متنوع اور برآمدات پر مبنی ملکی معیشت کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، حکومت معاشی ترقی، کاروبار کو سپورٹ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے واضح ویژن کے ذریعے ایک جامع ٹیرف ریفارمز پیکچ متعارف کروا رہی ہے، جس کا مقصد موجودہ ٹیرف کو مناسب بنانا ہے تاکہ برآمدات کو بڑھا کر معاشی ترقی کو تیز کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ان ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا تاکہ کاروبار کسی خلل کے بغیر اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکیں اور ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے جب کہ معیشت کے تقریباً تمام شعبے ان اصلاحات سے مستفید ہوں گے جن میں فارماسیوٹیکل، آئی ٹی اور ٹیلی کام، ٹیکسٹائل، انجینئر نگ وغیرہ شامل ہیں۔ ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف، خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے، ہمیں یقین ہے کہ ان اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

قرض کے انتظام میں بہتری
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے سے ہماری معیشت کے تناسب سے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے، آج سے دو سال قبل ہمارے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 74 فیصد تھا جو کہ اب 70 فیصد سے بھی نیچے آ گیا ہے جسے ہم آگے چل کر مزید کم کریں گے، اس ضمن میں ہمیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔

پاکستان کے پہلے ’ڈیبٹ بائے بیک پروگرام‘ کے تحت ایک ہزار ارب کے قرض ’بائے بیک‘ کیے گئے۔ ایک فعال ری فنانسنگ پروگرام کے تحت مارک اپ میں ریکارڈ 850 ارب روپے سے زائد کی بچت کی گئی۔ قرضوں کے میچورٹی کا اوسط وقت میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے ہمارا ری فنانسنگ رسک کم ہوا اور مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوا۔

پہلے پانڈا بونڈ کے اجرا کی تیاری مکمل
قرض کی مصنوعات کو متنوع کیا جارہا ہے تاکہ انویسٹر بیس بڑھایا جاسکے، اس سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سکوک بانڈ کا اجرا کر دیا گیا ہے جب کہ مزید پراڈکٹس کو لانچ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ عالمی طریقہ کار کے مطابق ڈی ایم او کی تنظیم نو کی جارہی ہے، پہلے پانڈا بونڈ کے اجرا کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی اور گہری چینی کیپٹل مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔

سرکاری ملکیتی اداروں میں اصلاحات
وزیر خزانہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس او ایز حکومتی خزانے پر 800 ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ بوجھ ڈالتی ہیں، سبسڈیز، گرانٹس اور ایکویٹی کی مد میں دی گئی حکومتی امداد کو شامل کیا جائے تو یہ تخمینہ ایک ٹریلین روپے سالانہ سے تجاوز کر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایس او ای ریفارمز مالیاتی نظم و ضبط کے لیے انتہائی اہم ہیں، حکومت نے ایس او ایز کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھ اکہ ایس او ای ریفارمز کا ایک اہم ستون ان کی مختلف اقسام میں تقسیم ہے جس کے ذریعے اُن کی مستقبل کی سمت یعنی نجکاری کی تنظیم نو یا پی پی پی ماڈل کا تعین کیا جاتا ہے، کابینہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے درجہ بندی کو مکمل کر لیا گیا ہے۔

نجکاری
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے، مالی بوجھ کو کم کرنے، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، یہ حکمت عملی غیر ضروری سرکاری اداروں کی شفاف اور مؤثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل جیسی اہم ٹرانزیکشن مکمل کریں، اور ڈسکوز اور جینکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے لیے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نجکاری کو صرف ایک مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ منڈیوں کو وسعت اور گہرائی دینے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ منتظم پبلک لسٹنگ اور آفرز کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اثاثوں کو اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں شفافیت بڑھے، سرمایہ کاروں کی شرکت ممکن ہو اور عوام کی معیشت میں شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔

رائٹ سائزنگ
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کی ادارہ جاتی تشکیل کو وزیراعظم کی ویژن کے مطابق درست منتظم اور جدید بنانے کے اقدام کا آغاز کیا ہے، یہ اہم اور بنیادی اصلاحات اس اصول پر مبنی ہے کہ حکومت عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکس دہندگان پر کم سے کم بوجھ ڈالے، حکومتی اسٹرکچر میں جدید خیالات کے لیے ساز گار ماحول دستیاب ہو اور حکومت کاروباری معاملات میں حصہ نہ لے بلکہ یہ معاملات نجی شعبے کے حوالے کرنے چاہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک کابینہ نے 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جو اب عملدر آمد کے مرحلے میں ہیں، 6 ڈویژنز کو ضم کر کے 3 بنا دی گئی ہیں، 45 کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹائز ضم یا بند کیا جارہا ہے جب کہ تقریباً 40 ہزار خالی آسامیوں کوختم کر دیا گیا ہے، اگلی 10 وزارتوں کے لیے رائٹ سائزنگ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جب کہ مزید 8 وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔

پینشن ریفارمز
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پینشن، ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے، پچھلی کچھ دہائیوں میں پینشن اسکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا، پنشن اسکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں۔ جیسے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی، پینشن اضافہ سے منسلک، شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ شامل ہے۔ 

موسمیاتی تبدیلی
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سد باب حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بیش بہا وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے حکومت نے گذشتہ 16 ماہ میں کلائمیٹ فنانس پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایف سی، اپنے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو اگلے 10 سال میں 40 ارب ڈالر کے وسائل مہیا کریں گے جب کہ ماحولیاتی تبدیل سے نمٹنا اس فریم ورک کی اہم ترجیح ہے۔ اسی طرح، ایک سال کی انتھک محنت کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی پائیداری سہولت فراہم کی ہے، حکومت پاکستان نے پہلے گرین سکوک کا بھی اجرا کیا ہے، جس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ منصوبوں کے لیے مقامی مارکیٹ سے وسائل کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت ایک جامع اور مؤثر سماجی تحفظ کے نظام کے ذریعے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے، مالی سال 25-2024 کے دوران، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کم آمدنی والے خاندانوں کو معاشی مشکلات سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا، 592 ارب روپے کے مختص فنڈز میں سے ایک کثیر رقم کے ذریعے 99 لاکھ مستحق خاندانوں کو غیر مشروط نقد امداد فراہم کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ایک کروڑ 16 لاکھ بچوں کو تعلیمی وظائف کی صورت میں مالی معاونت فراہم کی گئی، نشوونما پروگرام کے تحت 15 لاکھ حاملہ مائیں اور ان کے 16 لاکھ بچوں کو نقد امداد اور غذائیت پر مبنی خصوصی خوراک فراہم کی گئی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی
ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک انتہائی اہم حصہ بن چکا ہے، ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے، گلوبل سائبر سیکورٹی انڈیکس 2024، یو این-ای گورنمنٹ انڈیکس اور آئی سی ٹی ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے آئی ٹی شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی آئی سی ٹی برآمدات میں متاثر کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا، سال کے 10 مہینوں میں یہ ایکسپورٹس 3.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو پچھلے سال کی نسبت 21.2 فیصد زیادہ ہیں، یہ نمایاں اضافہ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں ہوا۔ اگلے مالی سال بھی اس شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھا جائے گا جب کہ اگلے 5 سالوں میں آئی سی ٹی ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز ہماری معیشت کی خوشحالی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے ایس ایم ایز کے فروغ پر خصوصی توجہ دی ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ تمام سرکاری اداروں کی مربوط کوششوں سے اس شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ای ڈی اے نے 27-2024 کے لیے 3 سالہ کاروباری منصوبہ تیار کیا ہے جس کے اہم اجزاء میں ایس ایم ای فنانسنگ میں اضافہ برآمدات کا فروغ، صنعتوں کے مابین روابط، خواتین کی کاروباری شراکت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تحفظ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ایک بڑی کامیابی ایس ایم ای رسک کور ریج اسکیم ہے جس کے تحت مئی 2025 تک 95 ہزار سے زیادہ ایس ایم ایز کو 311 ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی گئی، اس کے نتیجے میں کل ایس ایم ای فنانسنگ 471 ارب روپے سے بڑھ کر 641 ارب روپے ہو گیا ہے جب کہ مستفید ہونے والے کاروباروں کی تعداد ایک لاکھ 74 ہزار سے بڑھ کر 2لاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی ہے، حکومت کا عزم ہے کہ انشا اللہ 2028 تک ایس ایم ای فنانس کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جائے اور مستفید کاروباروں کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار تک پہنچائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان سماجی و اقتصادی ترقی کی اسکیموں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں جن کا عوام کی فلاح و بہبود پر گہرا اثر مرتب ہوگا، معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے کو گھروں کی خرید یا تعمیر کے لیے ستے قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔ اس اسکیم سے کئی شعبوں میں معاشی سرگرمیاں آگے بڑھیں گی اور ہنر مندوں کے لیے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان جلد ہی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کیا جائے گا۔

اوورسیز پاکستانی
محمد اورنگزیب نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا ایک اہم اثاثہ ہیں، بیرون ملک مقیم بہن بھائیوں نے موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہیں، جب کہ پچھلے 2 سالوں میں ترسیلات زر کے حجم میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ہم اپنے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کے تہ دل سے شکر گزار ہیں، اس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی ہے، ہماری حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کو مزید سہولیات دے گی تا کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہیں۔

55ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں، جیسا کہ خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، مقدمات کی رجسٹریشن اور شواہد اکھٹا کرنے کے لیے آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے گا اور جھوٹے مقدمات سے بچاؤ کے لیے متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے وفاقی حکومت سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں کوٹہ متعین کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے زیادہ ترسیلات بھیجنے والے 15 افراد کو ہر سال 14 اگست کو سول ایوارڈز دیے جائیں گے۔

ذراعت وزیر خزاننہ کا کہنا تھا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زراعت کا ملکی معیشت میں 24 فیصد ہے۔ جس سے ملکی معیشت کے لیے زراعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا، اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم نے ایک نیشنل کمیٹی تشکیل دی ہے جو زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے گی۔ مزید برآں، زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم پچھلے مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ایک ہزار 785 ارب روپے سے بڑھ کر اس مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں دو ہزار 66 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے خصوصاً چھوٹے کسانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے کئی نئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک نیا پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت بینک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے، یہ رقم ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کسانوں کے ای-والٹس میں ٹرانسفر کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے بیج کے شعبے کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل سیڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام شامل ہے تاکہ معیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے بیج کے نظام کو ڈیجیٹل بنیادوں پر منظم کرنے کا عمل شروع کیا ہے، جس میں کمپنی رجسٹریشن، تجدید، بیج کی تصدیق، نگرانی اور نفاذ شامل ہیں، نجی شعبے کی تحقیق اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے بھی مربوط کوششیں کی گئی ہیں، جو پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل صنعت کا ستون ہے، اگرچہ حالیہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی، تاہم 2023 میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی اور 2024 میں حکومتی کوششوں کے باوجود موسمی مسائل کے باعث پیداوار متاثر ہوئی جب کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کپاس کی کاشت کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کونسل کے تحت توانائی، معدنیات، زرعی کاروبار، آئی ٹی، فین ٹیک، انفراسٹرکچر، افرادی قوت کی ترقی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں 100 سے زائد اسٹریٹجک گرین فیلڈ اور براؤن فیلڈ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں مالی سال 25-2024 میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا، نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ اور نجی شعبے کے فروغ میں بھی سرمایہ کاری کونسل نے اہم کردار ادا کیا۔ 60 بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط میں بہتری اور غیر ضروری ضابطہ جاتی رکاوٹوں کے خاتمے کے باعث کونسل نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا، نقل وحمل اور لاجسٹک کا نظام بہتر بنایا اور مالی سال 26-2025 کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتی ترقی کے ایجنڈے کی مضبوط بنیاد رکھی۔

اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 26-2025 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جب کہ پرائمری سر پلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہوگا، اسی طرح ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14 ہزار 131 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 8 ہزار 206 ارب روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے ہو گا جبکہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے ہے، جس میں سے 8 ہزار 207 ارب روپے مارک اپ کی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے، وفاقی حکومت کے جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جبکہ ملکی دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے اسی طرح سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 971 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 988 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی )، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شده اضلاع وغیرہ کے لیے ہیں۔ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نمایاں اقدامات کا دائرہ کار وسیع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کفالت پروگرام کو ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا، اور تعلیمی وظائف پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ تقریباً ایک کروڑ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
 
اگلے مالی سال میں بی آئی ایس پی کے لیے 716 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کے پچھلے سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ جاریہ اخراجات سے آ سے آزاد جموں وکشمیر کے لیے 140 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے، خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے لیے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

وفاقی ترقیاتی پروگرام
وزیرخزانہ نے کہا کہ موجودہ مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی ) نے مالی سال 2025-26 کے لیے 4224 ارب روپے کے قومی ترقیاتی اخراجات کی منظوری دی ہے، جس میں ایک ہزار ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) اور 2869 ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگراموں کے علاوہ سرکاری ملکیتی اداروں ( ایس او ایز ) کی اپنے وسائل سے تین 355 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی 26-2025 کا محور بنیادی انفرا اسٹرکچر کے منصوبے ہیں، جن پر 60 فیصد سے زائد وسائل صرف کیے جا رہے ہیں تاکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے۔ جبکہ صوبائی ترقیاتی پروگراموں کی ترجیح سماجی شعبے ہیں جن کے لیے 60 فیصد سے زائد رقوم مختص کی گئی ہیں،اس کے علاوہ جاری اور نئے اقدامات کو قومی منصوبوں جیسے کہ ’اُڑان پاکستان اور ’ ایز 5 ’ پر مبنی نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ٹرانسپورٹ
وزیرخزانہ نے کہا کہ فیڈرل پی ایس ڈی پی 26-2025 کے تحت ٹرانسپورٹ انفراا سٹرکچر معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک کلیدی محرک کے طور پر ایس ای ایس فریم ورک کے تحت نمایاں شعبوں میں سے ایک ہے، تاکہ اُڑان پاکستان اور ایس ڈی جی ایس کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی 26-2025 کے مجموعی ایک ہزار ارب روپے میں سے 328 ارب روپے کی سب سے بڑی رقم ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کی ہے، جس میں خصوصی توجہ سڑکوں کے شعبے پر مرکوز کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر کراچی سے چمن جانے والی بلوچستان کی 813 کلومیٹر طویل این-25 شاہراہ جو کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، کوئٹہ اور چمن سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جاتی ہے، کی دو دور رویہ تعمیر کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ شمال جنوب موٹروے نیٹ ورک کی تکمیل اور رابطہ کی غرض سے چھ رویہ سکھر۔حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تھر کول ریل کنیکٹیوٹی پروجیکٹ کی بروقت تکمیل کے لیے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ میری ٹائم سیکٹر میں، گڈانی شپ بریکنگ کی سہولیات کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کو بھی اہمیت دی گئی ہے اور اس کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گوادر پورٹ انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی سے امداد کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لیے مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے بھی امداد جاری رکھی گئی ہے اور صوبائی منصوبوں کے لیے نمایاں فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔

آبی منصوبے
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاک-بھارت جنگ کے بعد بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی دھمکی دی ہے، بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پانی پاکستان کی بقا کا ضامن ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس حوالے سے بھارت کے ناپاک عزائم کا بھر پور توڑ کیا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت محدود وسائل کے باوجود پانی کے ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی، جلد ہی اس حوالے سے ایک تفصیلی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، فوڈ سیکیورٹی، پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے طغیانی ریلیوں کی روک تھام، سیلاب کی روک تھام کے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقرر کیے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 10 ملین ایکڑ فٹ کا اضافہ، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی، پانی کے کفایتی استعمال میں 30 فیصد اضافہ، اور سندھ طاس آبپاشی نظام سے پانی کے اجرا کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ شامل ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 59 آبی منصوبوں میں سے 34 منصوبے مکمل کیے گئے جن کی مجموعی لاگت 295 ارب روپے رہی، موجودہ مالی سال میں آبی وسائل ڈویژن کے لیے کل 133 ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں 34 ارب جاری آبی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کے لیے 102 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے 95 ارب روپے 15 اہم منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب سے تحفظ، انڈس بیسن پر ٹیلی میٹری سسٹم اور پانی کے تحفظ سے متعلق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے، کراچی بلک واٹر سپلائی ( کے فور) منصوبے کے لیے 3.2 ارب روپے، کلری باغار فیڈر کینال کی لائننگ کے لیے 10 ارب روپے، اور انڈس بین سسٹم پر ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 4.4 ارب روپے رکھے گئے، اسی طرح پٹ فیڈر کینال کے لیے 1.8 ارب روپے اور کچھی کینال فلڈ ڈیمیجز پروجیکٹ کے لیے 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آواران، پنجگور، گروک، اور گیشکور ڈیمز کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

شعبہ توانائی
انہوں نے کہا کہ حکومت اس امر کے لیے پر عزم ہے کہ تمام شہریوں کو سستی اور قابلِ اعتماد انرجی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے مالی سال 26-2025 کے ترقیاتی پروگرام میں انرجی سیکٹر کی 47 ترقیاتی اسکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس مختص رقم کا ایک بڑا حصہ بڑے پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی ترسیل کے لیے مختص ہے، جیسے تربیلا میں پانچواں توسیع منصوبہ، جس کے لیے 84 کروڑ روپے، داسو پن بجلی منصوبہ کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند پن بجلی منصوبے کے لیے 2ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری-مورو- رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائداعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ اسٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز پر ’ ایسٹ پرفرمارمینس مینجمنٹ سسٹم ’ کی تنصیب کے لیے 1.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ آئیسکو میں ایڈوانس میٹرنگ انفرااسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔

واپڈا کی جانب سے شروع کیے گئے صاف، قابل تجدید اور پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے لیے 67.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کلیدی اقدامات میں 2,160 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (مرحلہ -1) شامل ہے جس کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تربیلا پانچویں توسیعی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 3.4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مہمند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی توانائی کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ان علاقوں میں پن بجلی کی پانچ اسکیموں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ان اسکیموں میں ضلع نیلم آزاد جموں و کشمیر میں 48 میگاواٹ جاگران II اور 40 میگاواٹ ڈواریان ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ اسی طرح ضلع گلگت میں 26 میگاواٹ شکر تھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اسکردو، 16 میگاواٹ نلتر III اور 20 میگاواٹ ہنزل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں، گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈز بنانے کے فیز 1 کے لیے 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کا مقصد چار اضلاع گلگت، ہنزہ نگر، اسکردو اور استور میں بجلی کی طلب کو پورا کرنا ہے۔

زرعی شعبہ
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت پاکستان زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے مستعدی کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں گرین پاکستان انیشی ایٹو، شامل ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر اہم اقدامات میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، پیداوار کے فرق کو پورا کرنے، فصلوں میں تنوع لانے اور کسانوں کی منڈیوں تک رسائی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صلاحیت سازی، جینیاتی بہتری اور فصلوں کی کٹائی کے بعد کے مراحل پر بھی زور دیا جارہا ہے۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ چین میں ایک ہزار زرعی گریجویٹس کی صلاحیت سازی کے لیے وزیر اعظم کے اقدام کے تحت مختلف صوبوں اور خطوں سے نوجوان پاکستانی زرعی گریجویٹس کو ایک مکمل فنڈڈ تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجا جا رہا ہے، اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں 300 زرعی گریجویٹس کا بیچ جا چکا ہے اور مزید 300 زرعی گریجویٹس اسی مہینے کے آخر تک چین پہنچ جائیں گے جہاں انہیں ماڈرن اسکلز اور عالمی ماحول ملے گا اور ان کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ تربیتی پروگراموں کے علاوہ مالی سال 2025-26 میں کپاس اور لائیو اسٹاک کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ، دس جاری اسکیموں کو جاری رکھنے اور پانچ نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے 4 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کا شعبہ
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہی شعبہ تربیت یافتہ فراہم کرتا ہے جو عمومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے علاوہ ملکی صنعت کی برآمدات میں اضافہ کے لیے بھی اہم ہے، اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں، ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔

ان وسائل سے جاری اسکیموں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی، وزیر اعظم کی اسکیم کے تحت جسمانی مسائل سے دو چار نوجوانوں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپس اور آڈیو ویژول ایڈز فراہم کی جائیں گی۔ وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا مقصد علم پر منحصر معاشی نمو کو فروغ دیتے ہوئے مسابقت، اختراع، ور انسانی وسائل کی ترقی کو بڑھانا ہے، یہ تمام مقاصد اڑان پاکستان اور نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان کے ای۔ پاکستان کمپونینٹ میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے مالی سال 26-2025 میں 31 جاری اسکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، PV ماڈیولز کے لیے پاک۔کوریا ٹیسٹنگ فسیلٹی کے قیام، سیمی کنڈکٹر چپ ڈیزائن فیسیلیٹشن سینٹر، فسیلیٹی کی اپ گریڈیشن اور پرنٹڈ سرکٹ بورڈ، میڈیکل کینابس گرین کے لیے بایو ٹیکنالوجی ڈیرائیوڈ بایو پروڈکٹس ہاؤسز کے قیام جیسی اہم جاری اسکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔

شعبہ تعلیم
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ تعلیم قومی ترقی می ترقی کا سنگ بنیاد ہے اور حکومت نے آئین کے آرٹیکل A-25 اور اڑان پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے، ملک کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں 26 ملین اسکول سے باہر بچے، اور رسائی، مساوات، گورننس اور تعلیمی معیار جیسے مسائل شامل ہیں، ان چیلنجوں سے نمٹنا انتہائی اہم ہے اور اس سال کے حکومتی اقدامات اس خلا کو پُر کرنے کی ایک جامع حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر پسماندہ علاقوں کے ہونہار طلبا کے لیے دانش اسکولوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، گیارہ نئے دانش اسکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں سے تین آزاد جموں و کشمیر میں، تین گلگت بلتستان میں، چار بلوچستان میں، اور ایک اسلام آباد میں وفاقی پی ایس ڈی پی 26-2025 کے تحت قائم کرنے کے لیے کل 9.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پسماندہ علاقوں میں جدید تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اعلیٰ درجے کے سیاسی عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے کم وسائل رکھنے والے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے دانش یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو دانش اسکول منصوبے کا تسلسل ہے، یہ یونیورسٹی دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو بین الاقوامی معیار کی بلا معاوضہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرے گی، خصوصاً ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، انجینئرنگ، تعلیم، صحت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے میں جدید انفرااسٹرکچر، تربیت یافتہ فیکلٹی، تحقیقی سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی شامل ہے، آئندہ مالی سال میں یونیورسٹی کی ماسٹر پلاننگ، تعلیمی و رہائشی بلاکس کی تعمیر، اور بنیادی عملے کی بھرتی کی جائے گی، یہ اقدام نہ صرف تعلیمی ترقی بلکہ علاقائی خوشحالی، روزگار کے مواقع، اور سماجی برابری کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں ارلی چائلڈ ہُڈ ایجوکیشن کے مراکز، کمپیوٹر لیبز اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایکسی لینس کا قیام شامل ہے، ان کا مقصد تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانا، بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کرنا، اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھانا ہے، ان کاوشوں کے لیے وفاقی پی ایس ڈی پی میں مجموعی طور پر 18.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ موجودہ اسکولوں کی تعمیر اور تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ( صوبائی حکومت نصف لاگت برداشت کرے گی) اس پروگرام کے تحت 1800 اسکول یونٹس کا احاطہ کیا گیا ہے، یہ اقدام صوبوں میں تعلیمی انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو اور مضبوطی کے لیے وفاقی حکومت کی مسلسل حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔

یوتھ اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس پروگرام کے تحت 161,500 نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کی جائے گی، جن میں 56,000 کو آئی ٹی، 64,000 کو انڈسٹریل ٹریڈز اور 49,000 کو روایتی ٹریڈز میں تربیت دی جائے گی،ان میں سے 2,500 نوجوانوں کا تعلق فاٹا کے نئے ضم شدہ اضلاع سے ہوگا۔ مزید برآں شہری سندھ کے علاقوں میں آٹھ نئے آئی ٹی ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آئی ٹی گریجویٹس کی ملازمتوں کے حصول کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔

شعبہ صحت
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 26-2025 کے لیے، وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں، ان منصوبوں کے تکمیل سے بیماریوں پر قابو پانے، صحت کی دیکھ بھال کو جدید بنانے، اور تمام شہریوں کے لیے معیاری علاج معالجے تک یکساں رسائی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

ان منصوبوں میں نمایاں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر، اسلام آباد کے لیے 4 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، اس رقم کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں ایک فلیگ شپ بنیادی صحت کی دیکھ بھال اور تدریسی سہولت کا قیام ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم پروگرام کے تحت ہیپا ٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے ملک گیر اسکریننت اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی، اسی طرح غیر متعدی امراض کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے کے لیے شوگر کی روک تھام اور کنٹرول کے پروگرام کو 80 کروڑ فراہم کیے جائیں گے تاکہ صحت عامہ کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

حکومت نے اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے 1.7 ارب روپے اور ضروری آلات کی خریداری کے لیے 90 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، اس کے علاوہ پمز اسلام آباد میں ایک جدید ترین ’اسٹروک انٹروینشن سینٹر‘ کے قیام اور انتہائی نگہداشت اور امراض قلب کے علاج سہولیات کی توسیع کے لیے 90 کروڑ مختص کیے جائیں گے تاکہ ہنگامی صورتحال میں ردعمل کی صلاحیت اور دل اور فالج کے مریضوں کے بچاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ اسٹریٹجک سرمایہ کاری ایک لچکدار، جامع اور پائیدار صحت کے نظام کی تشکیل کے لیے حکومت کے عزم کی توثیق کرتی ہے جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی عکاس ہے۔

آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور ضم شدہ علاقہ جات
پی ایس ڈی پی کے لیے وسائل کی گنجائش کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت کو متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانے اور ترقیاتی خلاء کو دور کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے خم شدہ اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، وفاقی حکومت نے 2025-26 کے پی ایس ڈی پی میں کل 164 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں سے آزاد جموں و کشمیر کے لیے48 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 48 ارب روپے اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 68 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگراموں اور مختلف انفرادی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں جو ان علاقوں میں متعلقہ حکومتوں اور وفاقی انتظام کے تحت ایجنسیوں میں زیر عمل ہیں۔

وفاقی حکومت آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے ضم شدہ اضلاع کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگراموںکی تشکیل کے لیے فنڈ فراہم کرتی ہے۔ وفاقی حکومت نے آزاد جموں وکشمیر کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 32 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 22 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع اور سابق دس سالہ فاٹا پلان کے لیے 65 ارب روپے فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے طور پر 5 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے وزیر اعظم کے کے خصوصی پیکیج کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں، یہ فنڈز مالی سال 26-2025 کے دوران متعلقہ حکومتوں کی طرف سے نشاندہی کیے جانے والے ترجیحی اقدامات، منصوبوں پر استعمال کیے جائیں گے۔

گورننس
وزیرخزانہ نے کہا کہ گورننس مختلف شعبوں پر اثر انداز ہونے والا مسئلہ ہے، اس لیے عوامی خدمات کی موثر فراہمی کے مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے شاید سب سے اہم عنصر ہے، 26-2025 میںگورننس سیکٹر کے لیے 11.0 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مخلوط حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے، جدت اور پروسیس ری انجنیئرنگ، اداروں کی استعداد کار میں اضافے، پر فارمنس منیجمنٹ، عوامی خدمات کی فراہمی اور ادارہ جاتی عوامی شعبے کی اصلاحات جیسے زیرتوجہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے جن فوری مسائل کی نشاندہی کی تھی ان میں محصولات کی وصولی میں مسلسل کمزوری شامل تھی، 30 جون 2024 کو ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 8.8 فیصد تھا، موجودہ حکومت کی کوششوں سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، اس مالی سال کے پہلے نومہینوں میں ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ جون 2025 کے آخر تک یہ مزید بڑھ کر 10.4 فیصد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی نان ٹیکس محصولات بھی گزشتہ سال کے 0.8 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 1.2 فیصد ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر، وفاقی محصولات اب جی ڈی پی کا 11.6 فیصد ہیں اور اگر ہم صوبوں کے 0.7 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو شامل کریں تو رواں مالی سال کے اختتام تک قومی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 12.3 فیصد ہو جائے گا۔ ایف بی آر کے ٹیکسوں میں ایک سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 1.6 فیصد تک کا اضافہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بہت کم دیکھا گیا ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف
وزیر اعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جائے، اسی حوالے سے تنخواہ دار لوگوں کے لیے آمدنی کے تمام سلیب میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی تجویز ہے، یہ ریلیف نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنائے گا بلکہ متوسط آمدنی پر عائد ٹیکس کے بوجھ کو کم کرکے، افراط زر اور تنخواہ کے درمیان توازن کو یقینی بنائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے صرف ایک فیصد کر دی گئی ہے، اسی طرح 12 لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30 ہزار سے کم کر کے 6 ہزار کرنے کی تجویز ہے، جو لوگ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں اُن کے لیے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

اسی طرح زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے والوں کے لیے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جارہی ہے، 22 لاکھ روپےسے 32 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے، یہ اقدام ٹیکسوں کو منصفانہ بنانے اور ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ دار افراد پر بوجھ کو کم کرنے کے حکومتی عزم کا آئینہ دار ہے۔

اسی طرح حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت افراد ملک سے باہر منتقل ہو سکتے ہیں، اس لئے ملک سے’ برین ڈرین’ کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سرچارج میں 1 فیصد کمی کی تجویز ہے۔

کارپوریٹ سیکٹر کیلئے لائحہ عمل
وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسوں کی شرح بلند سطح پر پہنچ چکی ہے، اس وقت کارپوریشنوں پر عائد ٹیکس کی شرح پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے، حکومت کے پختہ عزم کے تحت ہدفی ریلیف مہیا کرنے اور ایک متوازن اور معاشی ترقی کے لئے موزوں کارپوریٹ ٹیکس ریجیم متعارف کرانے کے لیے یہ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 کروڑ روپے سے 50 کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشنز کے لئے سپر ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی تجویز کی جارہی ہے، یہ رعایت کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے حکومتی ارادے کی عکاسی کرتی ہے۔

جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی
پاکستان کی معیشت میں تعمیرات کے شعبہ کا بہت اہم حصہ ہے، ہمارے بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار تعمیرات کے شعبے پر منحصر ہے تاہم بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے اس شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گروی رکھنے کی حوصلہ افزائی کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور 2000 مربع فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جا رہا ہے، اس کے علاوہ حکومت ’ مورگیج فنانسنگ کو فروغ دے گی اور اس سلسلے میں ایک جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔

مزید برآں، اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر اسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ گھروں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نےکہا کہ ہمیں امید ہے کہ صوبے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی پر عائد بھاری ٹیکسوں میں کمی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے ہاوسنگ سیکٹر میں تیزی آئے گی اور یہ شعبہ معیشت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔

ٹیکس نظام میں مساوات بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ٹیکس کے نظام میں مساوات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرا رہی ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں کمانے والے لوگ اپنی تنخواہ اور کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں وہاں غیر فعال طریقے سے کمانے والے اور قرض پر منافع حاصل کرنے والے نسبتاً کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لیے مساوات کو یقینی بنانے کے لیےسودی آمدن پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والے اور اس آمدنی پر انحصار کرنے والوں پر اس شرح کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ شرح قومی بچت کی اسکیموں پر عائد نہیں ہو گی۔ اسی طرح آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے جس سے دستاویزی کاروبار کرنے والے پرچون فروش (ریٹیلرز) کو نقصان ہو رہا ہے ای۔ کامرس پلیٹ فارمز اور کورئیر سروس مہیا کرنے والے، ڈیجیٹل طور پر منگوائی جانے والی اشیاء اور خدمات پہنچانے پر ٹیکس کاٹیں گے، اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت محصولات میں اپنا حصہ شامل کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ آن لائن مارکیٹ پلیسز کورئیر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ ہر ماہ اپنا ٹرانزیکشن ڈیٹا اور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی تجویز ہے، اگر چہ حصص پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تا کہ حصص کی مارکیٹ میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ میوچل فنڈز اپنے وسائل کا رُخ حصص کے کاروبار کی طرف موڑیں۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ لوگوں پر اُن کے ذرائع آمدنی کے بجائے صرف آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جائے، اس لیے صوبائی حکومتیں بھی زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس کی شرح پر ٹیکس وصول کر رہی ہیں اسی طرح سے 70 سال سے کم عمر وہ پنشنرز جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں اُن کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تا کہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کی جا سکے، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کم اور درمیانی پنشن وصول کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ کیش لیس اکانومی کو فروغ دینے کے لیے نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے تا کہ غیر دستاویزی نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی جا سکے، جہاں کوئی ٹیکس دہندہ کسی ایک سیل انوائس پر دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم نقد وصول کرے تو اس فروخت پر ہونے والے اخراجات کے 50 فیصد کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس سلسلے میں اگلے مالی سال کے دوران مزید اقدامات لیے جائیں گے۔

انکم ٹیکس سے بے قاعدگیوں کا خاتمہ
وزیرخزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس میں بے قاعدگیوں کا خاتمہ کرنے، خامیوں کو دور کرنے، مساوات کو بہتر بنانے اور ٹیکس قوانین کی پاسداری کو آسان بنانے کے لیے ضروری اصلاحات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارتی جائیدادوں سے ہونے والی کرایہ کی آمدنی اب فیئر مارکیٹ ویلیو کے 4 فیصد کی معیاری شرح کی بنیاد پر تسلیم کی جائے گی، اس طرح سے ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات محدود ہو جائیں گے۔ اپیلوں کا طریقہ کار بھی معقول بنایا جا رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان اپنی اپیلیں کمشنر (اپیلیز ) یا براہ راست ایپلٹ ٹریبینول کو پیش کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا اینالیٹکس کو فروغ دینے اور ٹیکس پالیسی اینڈ اینالسس یعنی پالیسی کی تیاری میں معاونت کے ضمن میں ایف بی آر، قانون میں راز داری کی شقوں کی وجہ سے ریسرچ کرنے والوں کو ڈیٹا مہیا کرنے میں انتہائی سخت پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے، شاید یہ پاکستان میں ٹیکس پالیسی اور اس کے اقتصادی اثرات کے حوالے سے کوئی معیاری تحقیق نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیاری تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ تعلیمی اداروں اور عطیہ دہندہ اداروں کے ساتھ شئیر کیا جائے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس آرڈینینس کے ساتویں شیڈول کو بہتر بنانے کی تجویز ہے، جس کا تعلق تجارتی بینکوں پر عائد ٹیکسوں سے ہے، توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے ٹیکس کا نظام منصفانہ اور مساویانہ ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنے اور موجودہ تجارتی طور طریقوں کو اپنانے کے لیے ٹیکس قوانین میں جہاں کراس چیک کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان میں آن لائن ٹرانزیکشن اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ایسے اقدامات تجویز کرنا چاہتے ہیں جن سے عمل درآمد بہتر بنایا جا سکے، ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جا سکے اور ٹیکس کے نظام میں دیانت داری کو فروغ دیا جا سکے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انکم ٹیکس کے حوالے سے ایک نیا کلاسیفکیشن سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے، جس میں فائلر اور نان فائلر کے فرق کا خاتمہ کیا جا سکے، جو لوگ اپنےگوشوارے اور اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے صرف وہی بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے، جن میں گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری، سیکورٹیز اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری اور بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت جیسی چیزیں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہو گا کہ ایف بی آر کے پورٹل کے ذریعے اپنی مالی حیثیت اور آمدنی، تحائف، قرضے اور وراثت جیسےمالی ذرائع کے دستاویزی ثبوت ظاہر کریں، دیانت دار ٹیکس دہندگان کو مالیاتی لین دین کرنے کا اہل ہونے کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ بھرنے کا آپشن دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ شیڈول بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان بینکاری اور ٹیکس کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے لیے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں جس سے خامیوں کی نشاندہی اور ٹیکس قوانین کی پاسداری بہتر ہو سکے گی، ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور عمل درآمد کو بہتر بنانے کے لیے بیرونی آڈیٹرز کی خدمات کنٹریکٹ پر یا تھریڈ پارٹیز کی وساطت سے حاصل کرے۔

سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
وفاقی وزیر نے کہا کہ سیلز ٹیکس کے نظام میں مساوات لانے اور اس کی دیرینہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولر پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کے لیے تجویز ہے کہ سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے، یہ اقدام پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی صنعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹیل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں، معیاری مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف ترسیل کرنے والے کورئیر اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے اِن ای کامرس پلیٹ فارمز سے سیلز ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں گے۔

انہوں نےکہا کہ پٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لانے کے لیے، یہ تجویز دی جاتی ہے کہ 18 فیصد ٹیکس سے کم شرح والی گاڑیوں پر بھی 18 فیصد عمومی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے، اس اصلاحی اقدام سے تضادات کا خاتمہ ہوگا اور ٹیکس کی ادائیگی کے عمل کو آسان بنایا جا سکے گا۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ گزشتہ 7 برسوں سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے خم شدہ اضلاع کو ٹیکس میں مکمل چھوٹ حاصل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے پیش نظر، ٹیکس کی یہ چھوٹ ملک کے دیگر علاقوں میں کاروبار کرنے والوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے، لہٰذا تجویز دی جاتی ہے کہ ان علاقوں میں آئندہ پانچ سال کے دوران اشیاء پر مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کیا جائے، جس کا آغاز آئندہ مالی سال کے لیے 10 فیصد کی کم شرح سے کیا جائے گا۔

زرعی شعبہ
وزیرخزانہ نے کہا کہ زرعی شعبہ نہ صرف ہماری قومی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہماری اقتصادی ترقی کے لیے محرک قوت کا کردار بھی ادا کرتا ہے، جب فصلیں اچھی ہوتی ہیں تو ہماری مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، اور جب زرعی پیداوار کم ہو تو معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے، زرعی شعبہ ہمارے قومی غذائی تحفظ کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی یہ کوشش رہی ہے کہ زرعی شعبے کو ہماری معیشت کی نمو کا مرکز بنایا جائے، وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق اس سال کھاد اور کیڑے مار ادویات پر مزید ٹیکس نہیں عائد کیا جا رہا جس کے لیے ہم آئی ایم ایف کے تعاون کے بھی شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیلز ٹیکس میں چوری کو روکنے کے لئے سخت اقدامات متعارف کرارہے ہیں، غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف سخت سزاؤں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے ان میں بینکاکاؤنٹس کا منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان کو ضبط کرنا شامل ہیں۔

ان تمام اقدامات سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ متعلقہ قانونی تقاضے پورے کئے جائیں، جن میں پبلک نوٹس، متعلقہ نگران کمیٹی (جس میں متعلقہ تجارتی چیمبر کا نمائندہ بھی شامل ہوگا ) کے سامنے سماعت کا موقع اور 30 دن کے اندر اپیل کا حق شامل ہوگا۔ ان پُٹ ٹیکس سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے آٹو میٹڈ رسک بیسڈ ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹس متعارف کرائی جائیں گی۔

ڈیجیٹل پریزینس پروسیڈس ٹیکس ایکٹ 2025
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ موجودہ انکم ٹیکس کا نظام سرحد پار بڑھتے ہوئے ای کامرس کے شعبے پر ٹیکس کا اطلاق موثر انداز میں نہیں کر پارہا، خصوصاً ان غیر ملکی تاجروں ( وینڈرز) پرجو ویب سائٹس اورسوفٹ ایپلی کیشنز کے ذریعے آرڈر کی گئی اشیاء اور خدمات فروخت کر رہے ہیں اور کورئیرز کے ذریعے سامان کی ترسیل پر کیش آن ڈلیوری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک کے ساتھ دو طرفہ ٹیکس معاہدوں کے تحت، اگر کسی غیر ملکی کمپنی کا پاکستان میں مستقل کاروباری مقام (Permanent Establishment) نہ ہو، تو اس صورت میں یہاں ان کی آمدنی پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ لہٰذا صرف اُن غیر ملکی وینڈرز پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے ایسے کوئی معاہدے موجود نہیں ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ اس ضمن میں کئی ممالک پہلے ہی ڈیجیٹل سروسز ٹیکس متعارف کروا چکے ہیں تا کہ اُن غیر ملکی تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جا سکے، جو غیر ملک میں رہتے ہوئے مقامی مارکیٹ میں محض اپنی ’ ڈیجیٹل موجودگی’ کی بنیاد پر چیزیں فروخت کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا مؤقف ہے کہ مستقل کاروباری مقام کا پرانا تصور اب ان کے ٹیکس نافذ کرنے کے حق کا تحفظ نہیں کر سکتا، تاہم سرحد پار فروخت کئے گئے سامان پر جو ای کامرس کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے، اب بھی ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کے پیش نظر ٹیکس کے معاملات پر عالمی معاہدے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ٹیکس نافذ کرنے کے حقوق ملکوں کے مابین منصفانہ طور پر دیے جا سکیں، اور مستقل کاروباری مقام کے تصور کو نئی جہتوں کے ساتھ اپنایا جا سکے۔

ایسے کسی عالمی معاہدے تک پہنچنے سے قبل کے عبوری دور میں غیر ملکی تاجروں کی جانب سے پاکستان میں فروخت ہونے والی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس نہ دینے کا حل نکالنے کے لیے ایک نیا قانون تجویز کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس بل کے تحت ’ ڈیجیٹل پریزینس’ سے حاصل شده آمدنی پر ٹیکس کا قانون متعارف کرایا جارہا ہے، جس کے تحت پاکستان کے دائرہ اختیار میں غیر ملکی تاجروں کی جانب سےفروخت کی گئی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت تمام ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے، لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر 5 فیصد ٹیکس وصول کریں۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ میں ترامیم
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی( ایف ای ڈی) کے تحت عمل انفورسمنٹ کے شعبے میں درج ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں کہ یہ تجویز ہے کہ وہ اشیاء جن پر اوریجنل ٹیکس اسٹیمپس یا بار کوڈز موجود نہ ہوں، انہیں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت فوری طور پر بحق سرکار ضبط کیا جائے گا، مزید یہ کہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ایف بی آر کی محدود موجودگی کے پیش نظر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت انفورسمنٹ کے اختیارات مخصوص صوبائی افسران کو با قاعدہ ایس او پیز کے تحت تفویض کیے جا رہے ہیں، تاکہ بالخصوص بغیر ڈیوٹی ادا شدہ تمباکو کی اسمگلنگ پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جا سکے۔

ان اقدامات سے ہمارا مقصد ایسا جدید، منصفانہ اور مؤثر ٹیکس نظام تشکیل دینا ہے جو تر قیاتی اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہو اور ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والوں پر کوئی ناروا بوجھ نہ ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات واضح پیغام دیتے ہیں کہ قانون کی پابندی کرنے والے افراد اور کمپنیوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ٹیکس چوری کرنے والوں کا مؤثر احتساب کیا جائے گا۔

کسٹمز اصلاحات
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ اصلاحات کسٹمز کے شعبے میں بھی متعارف کرائی جارہی ہیں، جس بصیرت اور سوچ کے تحت ٹیکس نظام کو جدید بنایا جا رہا ہے، اسی بصیرت کے تحت بارڈر انفورسمنٹ، تجارت میں آسانی اور ٹیرف پالیسی کو بھی از سر نو ترتیب دیا جا رہا ہے، اب کسٹمز صرف سرحدوں پر نگرانی تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک جدید، ڈیٹا پر مبنی ادارہ بن رہا ہے جو ملکی معیشت کا تحفظ اور صنعت کی معاونت کر رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اشیاء کی قبل از آمد کلیئرنس ( پری ارائیول کلیئرنس) کو فروغ دینے، بندرگاہوں پر کلئیرنس میں لگنے والے وقت اور مقدمات میں کمی لانے کے لئے قانونی ترامیم کی جا رہی ہیں، یہ تمام اقدامات کسٹمز کو ایک شفاف، مؤثر، اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ادارہ بنانے کی وسیع تر بصیرت اور سوچ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف طریقہ کار کی اصلاحات نہیں کر رہے بلکہ اپنے ریاستی معاشی معاہدے کی بنیادوں کی بھی از سر نو تشکیل کر رہے ہیں۔

یہ تبدیلی ایڈہاک ازم سے مستقل نظام، مراعات کے بجائے کارکردگی اور خاموشی کے بجائے احتساب کی طرف منتقلی ہے, ہم ایک ایسا مضبوط، ڈیجیٹل طور پر مربوط اور انفورسمنٹ پر مبنی ٹیکس نظام مرتب کر رہے ہیں جو قانون کی پاسداری کو فروغ دے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری کے راستے بند کرے، اور ہماری اقتصادی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ اصلاحات آسان نہیں، مگر نہایت ضروری ہیں، ہم ایک ایسے ٹیکس نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو منصفانہ، شفاف، اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل اعتماد ہو۔ ہم اپنے اس مقصد میں نہایت واضح اور پر عزم ہیں۔

پیٹرولیم مصنوعات پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد
وزیرخزانہ نے کہا کہ فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگراموں کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے، یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے پٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے، جو مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔

توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں پر سرچارج کی ادائیگی
وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر نا قابل برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 2 ہزار 393 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا، اس گردشی قرضے پر کائبور کے علاوہ 2 فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں اور مالی سال 2025 میں اس کی متوقع لاگت 454 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی ری فنانسنگ سستے اور شریعت کے مطابق بینک ڈیٹ سروسنگ کے ذریعے کی جائے، اس طرح موجودہ قرض کی ادائیگی کے لیے سرچارج کو صرف منافع یا مارک اپ کے لیے نہیں بلکہ اصل قرض کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ایک ترمیم تجویز کی جا رہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ڈی ایس ایس پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کو کیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کے لیے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے حکومت پاکستان نے نئی انرجی وہیکل پالیسی تیار کی ہے، اس پالیسی کا مقصد پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینا ہے تاکہ ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔

اس پالیسی کے تحت گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کے لیے ایک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے جو معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اور درآمد پر انجن کی طاقت کے مطابق مختلف درجوں پر لاگو ہوگی، یہ پالیسی نہ صرف پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ہمارے معدنی تیل کی درآمد پر انحصار کو بھی کم کرے گی۔

ریلیف اقدامات
وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے با وجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کے تمام ملازمین (گریڈ ایک تا 22 کی تنخواہ میں 6 فیصد اضافہ تجویز کیا جارہا ہے، اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ معذور ملازمین کے لیے خصوصی کنوینس الاؤنس کو ماہانہ 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عمل درآمد کرتے ہوئے، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کیا جارہا ہے، اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال خطرات سے دوچار ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کے تحفظ کے لیے قابلِ تحسین خدمات انجام دی ہیں، ان خدمات کے اعتراف میں مسلح افواج کے افسران اور سولجرز / JCOs کے لیے اسپیشل ریلیف الاؤنس دینے کی تجویز ہے، یہ اخراجات مالی سال 26-2025 کے لیے دفاعی بجٹ سے پورے کیے جائیں گے۔

قبل ازیں، قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر ایوان میں پہنچ گئے، پی ٹی آئی اراکین نے ہاتھوں میں احتجاجی پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں، جن پر عمران خان کی رہائی کے نعرے درج ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو ہوئے کہا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہونا چاہیے، بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔ اس موقع پر رانا ثنا اللہ سے صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ تو عوامی لیڈر ہیں عوام آپ سے کیا توقع رکھے؟ جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں وزیر خزانہ کے لیے رہنے دیں، انشاء اللہ بہتر ہوگا، بجٹ تقریر سے پہلے کچھ نہیں بتا سکتا۔

قبل ازیں، وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی تھی، جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔ ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی بجٹ میں نان فائلرز کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی کیش خریداری کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جبکہ ہر قسم کی کیش خریداری پر بھی اضافی ٹیکس کی تجویز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق درج ذیل ٹیرف اصلاحات کو نیشنل ٹیرف پالیسی 30-2025 کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بجٹ، کابینہ کے اخراجات میں دوگنا اضافہ، 68 کروڑ 87 لاکھ روپے کرنے کی تجویز
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف کا فیصلہ، ٹیکس سلیبز میں کمی
  • تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ، دفاعی اخراجات کیلئے2550 ارب روپے مختص، سولر پینل پر ٹیکس عائد
  • بجٹ 26-2025 میں تنخواہ داروں کیلئے ریلیف کا اعلان
  • آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں خزانہ ڈویژن کے 6 جاری منصوبوں کے لئے 85 کروڑ 15 لاکھ 80 ہزار روپے مختص
  • تنخواہوں میں اضافہ کیسے ممکن ہوا، اندر کی کہانی
  • سالانہ ٹیکس فری آمدن کی حد 6 لاکھ سے بڑھنے کاامکان
  • پاکستان کا قرضہ 6.7 فیصد بڑھ کر 760 کھرب روپے سے متجاوز
  • ایک سال کے دوران مزید 7 لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ گئے
  • ایک برس میں 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانی ملازمت کیلیے بیرون ملک منتقل