بی آئی ایس پی ادائیگیوں کا نیا ڈیجیٹل نظام ، ڈھائی لاکھ مستفیدین کی تربیت جون 2026 تک مکمل ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اکتوبر2025ء) بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے 2 لاکھ 50 ہزارمستفیدین کو جون 2026 تک ڈیجیٹل مالیاتی مہارتوں کی تربیت دی جائے گی تاکہ نئے بینکوں اور فِن ٹیک پلیٹ فارمزکے ذریعے سماجی تحفظ کی ادائیگیاں زیادہ آسان، شفاف اورقابلِ رسائی بنائی جا سکیں۔ویلتھ پاکستان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ اقدام ملک کے کم آمدنی والے لاکھوں گھرانوں کو محدود بینکوں پر انحصار کم کرنے اور زیادہ مسابقتی اور کھلے نظام کے ذریعے ادائیگی وصول کرنے کے قابل بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
منصوبے کے تحت بی آئی ایس پی کی ادائیگیاں موجودہ محدود ڈھانچے سے ہٹ کر ایسے کھلے اور مسابقتی ادائیگی ماڈل میں منتقل کی جائیں گی جہاں مستفیدین اپنے قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) سے منسلک ڈیجیٹل والٹس یا اکاؤنٹس استعمال کر سکیں گے۔(جاری ہے)
وہ رقم کمرشل بینکوں، برانچ لیس آپریٹرز، اے ٹی ایمز، ایجنٹس اور دیگر مجاز ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے بھی نکال سکیں گے۔
اس اصلاحات کا اہم حصہ یہ ہے کہ وصول کنندگان کو نئے نظام کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے بی آئی ایس پی کے 2 لاکھ 50 ہزار مستفیدین کے لیے مالیاتی خواندگی کا قومی پروگرام تیار کیا ہے تاکہ وہ ڈیجیٹل ٹولز کا محفوظ اور پراعتماد استعمال سیکھ سکیں۔یہ اقدام جنوری 2024 میں مکمل ہونے والے ایک پائلٹ منصوبے کی بنیاد پرآگے بڑھایا جا رہا ہے جس میں 4,000 خواتین مستفیدین کو اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اورجرمن ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ (GIZ) کے تعاون سے تربیت دی گئی تھی۔ ان تربیتی نشستوں میں مالی منصوبہ بندی، گھریلو فیصلوں میں شمولیت، موبائل فون کے ذریعے محفوظ لین دین اور سرکاری ڈیجیٹل سروسزتک رسائی کے موضوعات شامل تھے۔ توسیع شدہ پروگرام میں ان ہی تربیتی ماڈیولز کو بڑے پیمانے پرنافذ کیا جائے گا۔ مواد اردو اورعلاقائی زبانوں میں تیار کیا گیا ہے تاکہ خواتین اور دیہی گھرانے، جو بی آئی ایس پی کے 90 لاکھ سے زائد مستفیدین میں اکثریت رکھتے ہیں، آسانی سے استفادہ کر سکیں۔ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے ’’ویلتھ پاکستان‘‘ کو بتایا کہ “مالیاتی خواندگی ڈیجیٹل ادائیگیوں کو محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر مستفیدین والٹس کا محفوظ استعمال سیکھ جائیں اور اخراجات کی منصوبہ بندی کرنا جانیں تو یہ تبدیلی دور رس نتائج دے گی۔اہلکار کے مطابق اس نظام سے خاص طور پر دور دراز اضلاع میں رہنے والی خواتین کو فائدہ ہوگا جو اس وقت نقد امداد حاصل کرنے کے لیے مرد گھرانوں یا غیر رسمی چینلز پرانحصار کرتی ہیں۔ شناختی کارڈ سے جڑے ڈیجیٹل والٹس کے ذریعے وہ براہِ راست اپنی رقم تک رسائی حاصل کرسکیں گی، چھوٹی بچت کر سکیں گی اور بتدریج دیگر مالیاتی سہولیات تک پہنچ سکیں گی۔فیلڈ میں کمیونٹی سیشنز اور موبائل ٹیمیں ان علاقوں تک بھی جائیں گی جہاں بینک کی باقاعدہ شاخیں موجود نہیں ہیں، تاکہ کوئی بھی مستفید پیچھے نہ رہ جائے۔اہلکار نے مزید کہا کہ “تربیت ڈیجیٹل شمولیت کی بنیاد ہے۔ ایک بار جب لوگ والٹس کے محفوظ استعمال پرعبورحاصل کرلیں گے تو وہ دیگر باقاعدہ مالیاتی خدمات تک بھی رسائی حاصل کر سکیں گے، جس کا اثر بی آئی ایس پی سے کہیں آگے تک جائے گا۔حکومتی حکام کے مطابق نیا انٹروپریبل ادائیگی ماڈل اور اس سے وابستہ خواندگی پروگرام جون 2026 تک مکمل طور پر نافذ ہو جائیں گے۔ اگلا مرحلہ تربیتی سیشنز کو تمام صوبوں تک وسعت دینے، نقد رقم نکالنے کے مزید پوائنٹس قائم کرنے اور ڈیجیٹل سیکیورٹی کو مضبوط بنانے پر مشتمل ہوگا۔حکومت کا کہنا ہے کہ بی آئی ایس پی کی ادائیگیاں کھلے نظام میں منتقل ہونے سے بینکوں اور فِن ٹیک کمپنیوں کے درمیان مسابقت بڑھے گی، لین دین کے اخراجات کم ہوں گے اور پورے پاکستان میں محفوظ و مؤثر کیش آؤٹ کا ڈھانچہ قائم ہوگا۔ اس اقدام سے ملک کی ڈیجیٹل مالیاتی گورننس مضبوط ہوگی اور زیادہ لوگ غیر رسمی نقد معیشت سے نکل کر باضابطہ مالی نظام میں شامل ہو سکیں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بی آئی ایس پی کے ذریعے کر سکیں سکیں گے کے لیے
پڑھیں:
سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟
بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے بیانیے میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے جو آگے چل کر اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کا شفافیت کے فروغ اور بجٹ میں 14 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ
ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے اور اتحادی جماعتوں سمیت سب ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی وزیر نور محمد دمڑ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ کا منصب ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے تقسیم کیا گیا ہے۔
علی مدد جتک نے کہا کہ ’میں یقین سے کہتا ہوں کہ پورے 5 سال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی سب اس پر متفق ہیں‘۔
ان کے بقول پیپلز پارٹی اپنی پوری قوت کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پیچھے کھڑی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا ابہام پیدا کرنے کی کوشش محض افواہیں ہیں۔
تاہم صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سالہ اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے اور یہ محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ فیصلہ ہماری پارٹی قیادت نے کیا ہے اور وقت آنے پر ن لگ کا وزیراعلیٰ سامنے آئے گا‘۔
مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ سے سیاسی معاہدوں اور پاور شیئرنگ فارمولوں پر چلتی آئی ہیں۔ سب سے نمایاں مثال سنہ 2013 کی ہے جب ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس فارمولے کے تحت پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جنہوں نے اپنی نصف مدت پوری کی۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری کو منتقل کی گئی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ
اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران بھی یہ سننے میں آیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈھائی ڈھائی سالہ پاور شئیرنگ کا معاملہ پا گیا ہے جس پر اس وقت گورنر بلوچستان اور مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے ڈھائی ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس پر پی پی پی کے سینیئر رہنما میر عبد القدوس بزنجو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔
اگرچہ اس پاور شیئرنگ ماڈل کے نتیجے میں حکومت نے آئینی مدت تو مکمل کی لیکن درمیان میں سیاسی کشیدگی بھی سامنے آئی خصوصاً جب نواب ثناء اللہ زہری کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے دباؤ پر مستعفی ہونا پڑا۔ اس مثال نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے وقتی استحکام تو فراہم کرتے ہیں لیکن طویل المدت سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دے پاتے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے منصب پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت بھی سنہ 2013 والے ’پاور شیئرنگ ماڈل‘ پر چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریری معاہدہ موجود ہے تو مستقبل قریب میں اقتدار کی منتقلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علی مدد جتک کا دعویٰ درست ہے اور پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے تو یہ اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں مرکز صوبہ کشیدگی یا اتحادی اختلافات کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاور شیئرنگ فارمولوں نے سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا بینک آف بلوچستان کے قیام کا اعلان
اس پس منظر میں دیکھیں تو نور محمد دمڑ کا بیان زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کر پاتے ہیں یا ڈھائی سال بعد اقتدار ن لیگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان مخلوط حکومت وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت