غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر لبنان کے عزیز بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین، جنہوں نے القدس کی آزادی کیلئے سیکڑوں شہداء دیئے اور انکی قیادت، جنکی سرپرستی میں یہ کارنامے انجام پائے، جن میں سید حسن نصراللہ اور انکے ساتھی شامل ہیں۔ ہم اسلامی جماعتوں کے بھائیوں کی مدد کو بھی یاد کرتے ہیں اور لبنان کے عوام کی عظیم مزاحمت اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے فلسطینی عوام کے دفاع میں بڑی ثابت قدمی دکھائی اور انہیں بے شمار مشکلات میں معاونت فراہم کی۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں حماس و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے جنگ بندی معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیراعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق 19 جنوری سے ہوگا، حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔

جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ میں حماس اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ اس تاریخی لمحے میں، جو ہمارے عوام کی جدوجہد اور مسلسل نضال کا نتیجہ ہے، جو دہائیوں سے جاری ہے اور جس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوگا، ہم غزہ کے عظیم عوام کو فخر اور عظمت کے تمام الفاظ پیش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اے اہل غزہ، اے عظمت کے حامل لوگو، اے شہداء، زخمیوں، اسیران اور مفقودین کے اہل خانہ، جنہوں نے وعدہ سچ ثابت کیا، صبر کیا اور وہ تکالیف برداشت کیں، جن کا کسی نے بھی پہلے سامنا نہ کیا اور آپ نے وہ سب کچھ جھیلا، جو کسی اور نے نہ جھیلا۔ آپ نے امانت کو اس کی اصل شکل میں نبھایا اور آپ اس کے اہل تھے۔ آپ نے فداء کی ہر لمحے کو پیش کیا اور قربانی کی ہر بات کو سچ ثابت کیا، صبر کے ہر موقع پر ثابت قدم رہے، جہاد کے میدان میں لڑے اور اللہ کے حکم سے عظیم ترین عزت حاصل کی۔

ان تمام افراد کو سلام جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ آپ کے عزم، جدوجہد، صبر، قربانیوں اور آپ کی بے شمار خدمات کا صلہ ملے گا، ہم اس لمحے میں عظیم شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، علماء، مجاہدین، ڈاکٹرز، صحافی، دفاعی اہلکار، حکومت اور پولیس کے ارکان اور قبائلی افراد شامل ہیں۔ ہم ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں، جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے اور ان کو خاص طور پر سلام پیش کرتے ہیں، جو ان کے بعد عہد پر ثابت قدم رہے اور اس راہ کو جاری رکھا اور اس پرچم کو ان کے بعد اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان عظیم شہداء قائدین کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ کھڑے ہیں، جن کے جسموں کے ٹکڑے اس معرکہ میں بکھر گئے، جیسے شہید اسماعیل ہنیہ ابو العبد، شہید یحییٰ السنوار ابو ابراہیم، شہید صالح العاروری ابو محمد اور غزہ میں تحریک کی سیاسی و فوجی قیادت کے دیگر ارکان۔

ہم تمام مزاحمتی اور مجاہدانہ فصائل کے شہداء کے سامنے بھی احترام سے سر جھکاتے ہیں اور ان سے اور ہمارے عوام سے کہتے ہیں کہ ہمارے قائدین اور شہداء کی تجارت اللہ کے ساتھ ہے، یہ تجارت کبھی ضائع نہیں ہوگی۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا تو فتح پائیں گے یا شہادت کی دولت سے نوازے جائیں گے، ان شاء اللہ۔ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ کی جنگ ہمارے مسئلے اور ہمارے عوام کی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے اور اس جنگ کے اثرات کا تسلسل جاری رہے گا، یہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی نہیں رکے گی۔ 7 اکتوبر کو جو معجزہ اور عسکری و سکیورٹی کامیابی عمل میں آئی تھی، جو کہ حماس کی القسام بریگیڈ کے منتخب دستوں نے انجام دی، وہ ہمارے عوام اور ہماری مزاحمت کے لیے ہمیشہ فخر کا باعث رہے گی، جو نسل در نسل منتقل ہوگی۔ یہ حملہ دشمن کے لیے کاری ضرب ثابت ہوا اور یہ قابض دشمن عنقریب ہمارے وطن، قدس اور ہمارے مقدس مقامات سے رخصت ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔

ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا
انہوں نے کہا کہ قابض افواج اور ان کے حامیوں کی طرف سے کی گئی وحشیانہ نسل کشی، نازی جنگی جرائم اور انسانیت دشمن اقدامات، جو 467 دنوں تک جاری رہے، ہمیشہ ہمارے عوام اور دنیا کی یادوں میں محفوظ رہیں گے۔ یہ جدید دور کی سب سے بھیانک نسل کشی ہوگی، جس میں تکالیف، اذیتیں اور مصائب کے تمام رنگ شامل تھے۔ نسل کشی کی جنگ کے وہ فصول ہمیشہ انسانیت کے ماتھے پر ایک دھبہ بن کر رہیں گے اور دنیا کے خاموش اور کمزور کردار کی علامت ہوں گے۔ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا، چاہے وہ سیاسی اور میڈیا سطح پر اس کے لیے پردہ ڈالنے والے ہوں، یا وہ جنہوں نے ہزاروں ٹن بموں اور بارودی مواد کو غزہ کے معصوم عوام پر گرا دیا۔ ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ یہ تمام مجرم اپنے کیے کی سزا پائیں گے، چاہے اس میں وقت لگے۔

جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ یتیموں، بچوں، بیواؤں، تباہ حال گھروں کے مالکان، شہداء، زخمیوں اور غمزدہ افراد کے نام پر اور ہر اس فرد کی طرف سے جس کا خون بہا، یا جس کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم ان کی طرف سے یہ کہتے ہیں کہ "ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہاں، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے۔" ہمارے درمیان کوئی بھی شخص ان آلام اور قربانیوں کا حق کم کرنے والا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ  قابض افواج نے حملے کے آغاز سے ہی کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی، کچھ کو کھلے عام بیان کیا اور کچھ کو چھپایا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ان کا مقصد مزاحمت کا خاتمہ، حماس کا صفایا اور اسیران کو فوجی طاقت سے بازیاب کرنا تھا اور علاقے کی شکل بدلنا تھا۔ ان کا چھپا ہوا مقصد فلسطینی مسئلہ ختم کرنا، غزہ کو تباہ کرنا، غزہ کے عوام سے انتقام لینا اور ہمارے عوام کی آزادی کی خواہش کو مٹا دینا تھا، ساتھ ہی 7 اکتوبر کی جرات مندانہ کامیابی کے اثرات کو ختم کرنا تھا۔

تاہم، قابض افواج کو ہمارے عوام کے پختہ عزم اور اپنی سرزمین سے محبت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے کسی بھی اعلان شدہ یا پوشیدہ مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ہمارے عوام نے اپنی سرزمین پر ڈٹے رہ کر ثابت کر دیا کہ وہ نہ ہجرت کریں گے، نہ پیچھے ہٹیں گے اور انہوں نے مزاحمت کا مضبوط ترین حصار بن کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے مجاہدین، خاص طور پر القسام بریگیڈ کے بہادر سپاہیوں نے، جنہوں نے اپنی جرات مندانہ کارروائیوں اور بے مثال بہادری سے دنیا کو حیران کن حد تک متاثر کیا، اس جنگ کے آخری لمحے تک محاذ پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اپنے عزم و حوصلے سے دفاع و حملے کے دوران بے مثال کارنامے انجام دیئے، جیسے بارودی سرنگیں نصب کرنا، گولہ بارود فائر کرنا، گھات لگانا، صفر نقطے سے لڑنا اور دشمن پر اتنا اثر ڈالا کہ قابض افواج کے جنگی آلات جل کر تباہ ہوگئے۔

قابض افواج کبھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی
انہوں نے کہا کہ ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور اپنے وطن و عوام کے دفاع میں عظیم مثال قائم کی۔ ہم آج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قابض افواج کبھی بھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی، اللہ کی مدد سے، جو اس نے ہمیں عطا کی ہے۔ قابض افواج نے ہمارے عوام کے خلاف جو تباہی، خونریزی اور قتل عام کیا، وہ صرف ایک بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اسیران کو بھی مزاحمت کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے واپس لیا۔

غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر لبنان کے عزیز بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین، جنہوں نے القدس کی آزادی کے لیے سیکڑوں شہداء دیئے اور ان کی قیادت، جن کی سرپرستی میں یہ کارنامے انجام پائے، جن میں سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھی شامل ہیں۔ ہم اسلامی جماعتوں کے بھائیوں کی مدد کو بھی یاد کرتے ہیں اور لبنان کے عوام کی عظیم مزاحمت اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے فلسطینی عوام کے دفاع میں بڑی ثابت قدمی دکھائی اور انہیں بے شمار مشکلات میں معاونت فراہم کی۔ انہوں نے قابض افواج کی زندگی کو عذاب اور بربادی میں بدل دیا اور اس میں اسلامی اور عربی بھائی چارے کی حقیقی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ  ہم یمن کے بھائیوں، انصاراللہ، کو بھی یاد کرتے ہیں، جو جغرافیائی فاصلے کو عبور کرکے جنگ کے میدان میں نئی حقیقتیں لائے اور قابض دشمن کے قلب پر میزائل اور ڈرون حملے کرکے اسے بحیرہ احمر میں محصور کر دیا۔

ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہماری مزاحمت اور عوام کی مدد کی، جنگ میں حصہ لیا اور "وعدہ صادق" (1) اور (2) آپریشنز میں دشمن کے قلب کو نشانہ بنایا، نیز عراقی مزاحمت نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے فلسطین اور اس کی مزاحمت کی مدد کی اور ان کے میزائل اور ڈرونز ہمارے مقبوضہ علاقوں تک پہنچ گئے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم ان تمام ممالک کے کرداروں کو بھی یاد کرتے ہیں، جو مختلف میدانوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے: جیسے ترکیہ، جنوبی افریقا، الجزائر، روس، چین، ملیشیا، انڈونیشیا، بیلجیئم، اسپین، آئرلینڈ اور دنیا کے تمام باضمیر انسان، ہم اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہماری حمایت قلم، تصویر، مظاہروں، بائیکاٹ کے ہتھیار اور سیاسی، سفارتی اور قانونی جدوجہد کے ذریعے کی۔ ان تمام باضمیر انسانوں کا شکریہ، جو خاموشی کی سازش کو توڑتے ہوئے قابض دشمن کی انسانیت سوز جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔

ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں
انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، یہ تعمیر، دلجوئی اور غزہ کی تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔ یہ یکجہتی اور ہمدردی کا مرحلہ ہے، جس کے ذریعے ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، جو تعمیر کرتی ہے، تخریب نہیں۔ ہم وہ سب کچھ دوبارہ تعمیر کریں گے، جو قابض افواج نے برباد کیا ہے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ اے اہلِ غزہ، جس طرح آپ جنگ میں مردانگی اور جرات کا مظاہرہ کرچکے ہیں، اسی طرح جنگ کے بعد بھی اپنے عظیم کردار کو جاری رکھیں گے۔ ہم ایک دوسرے پر رحم کریں گے اور متحد رہیں گے۔ بے شک، جو دکھ اور تکلیف ہم نے جھیلی ہے، وہ بہت بڑی ہے، لیکن اس قوم کی عظمت اور اس کے اخلاق اس سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے فضل سے اور اپنے بھائیوں، دوستوں اور ہمدردوں کی مدد سے غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل ہیں۔ ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں گے، یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھیں گے، غم زدہ دلوں کے آنسو پونچھیں گے اور ان لبوں پر مسکراہٹیں واپس لائیں گے، جنہیں جنگ نے چھین لیا تھا۔ ہمارے بہادر قیدی بھی آزادی کے ایک روشن صبح کے منتظر ہیں، ان شاء اللہ۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نہ معاف کریں گے انہوں نے کہا کہ کا ذکر کرتے ہیں ہمارے عوام اور کے مجاہدین کو نے کہا کہ ہم کے بھائیوں قابض افواج اور ہمارے کے ساتھی جنہوں نے لبنان کے اللہ کے کو سلام کے ساتھ عوام کے عوام کی کیا اور ہم ایک ہیں کہ گے اور کی مدد اور اس اور ان کے بعد جنگ کے کے لیے

پڑھیں:

چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل

ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسرائیل اتنا طاقتور اور مضبوط ہوجائے گا کہ وہ تمام عرب اسلامی ممالک کی سرزمین پر جہاں چاہے حملہ کردے گا اور کوئی اسے اسی انداز میں جواب بھی نہیں دے پائے گا۔ ایک کے بعد ایک اور واردات اسرائیل کرتا جا رہا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک اسلامی ملک بھی اس قابل نہیں کہ اسے اس کی اس دلیری کا جواب دے سکے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہر بار صرف مذمت کر کے رک جاتے ہیں یا پھر معاملہ پر غور کرنے کے لیے OIC یا عرب سربراہ ممالک کا اجلاس بلا لیتے ہیں اور ایک قرارداد پاس کرا کے اپنے اپنے گھروں کو لو ٹ جاتے ہیں۔

یہ ہم ہر بار دیکھتے رہے ہیں اور آیندہ بھی شاید دیکھتے رہیں گے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے چالیس اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل ایک اتحادی گروپ کیوں بنایا ہوا ہے۔ بناتے وقت تو یہ کہا گیا تھا کہ جب بھی کسی اسلامی ملک پر کوئی غیر اسلامی ملک حملہ کرے گا یہ چالیس ممالک ملکر اس کا مقابلہ کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے وہ اتحاد بھی باقی تمام اتحادوں کی طرح صرف نام کا اتحاد ہے اورعملاً کوئی اسے کسی کام کی اجازت ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اسے اسرائیل اور امریکا کے علاوہ کسی اور ملک کی جارحیت کا جواب دینے کا اختیار ضرور حاصل ہے۔

گزشتہ دو سالوں سے اسرائیل کی جارحیت بہت بڑھتی جارحیت۔ وہ ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک پر حملہ آور ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے اس نے صرف فلسطین کو نشانہ بنایا ہوا تھا مگر اب وہ دیگر اسلامی ممالک کی سرزمین پر بھی حملے کرتا جا رہا ہے۔ قطر سے پہلے اس نے ایران، یمن، لبنان پر بھی حملے کر کے اُن کی جوابی صلاحیت کا پتا لگا لیا اور شاید وہ دن دور نہیں جب وہ سعودی عرب اور پاکستان پر بھی جارحیت کی منصوبہ بندی کر ڈالے۔

ہمیں اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ اگر ایسا ہوا تو ہمارا جواب کیا ہوگا۔ وہی جو آج دیگر اسلامی ممالک کا ہے یا پھر ہماری غیرت جوش مار کر اُسے سبق سکھانے پر مجبور ہوجائیں گی۔ ایسا نہ ہو کہ امریکا بہادر ہمیں صبرکی تلقین کر کے اور اسرائیل کی ہلکی سی مذمت کر کے ہمیں اس جوابی کارروائی سے روک دے اور ہم ازراہ محبت اور ازراہ دوستی اس کی بات مان جائیں۔

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ ایک طرف اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے تو دوسری طرف عرب اور اسلامی ممالک سے دوستی اور محبت کا اظہار کر کے اُنہیں اپنے دام میں پھنسا لیتا ہے۔کچھ دنوں قبل اس نے سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کا دورہ کرکے اپنے ملک کے لیے کئی سودے کر ڈالے اور اُنہیں ہتھیار فراہم کرنے کے عوض اربوں ڈالر کما لیے۔ ہمارے عرب سربراہوں نے اس کے استقبال کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کردیں اور خوشی سے سرشار ہو کر تمام سودوں پر فوراً دستخط بھی کر دیے۔ قطری خلیفہ نے تو جناب ٹرمپ کو ایک بہت ہی بڑے مہنگے دلکش طیارے کا تحفہ بھی دے دیا۔

یہی ٹرمپ آج اس خلیفہ کو اسرائیلی حملے کے بعد جوابی کارروائی نہ کرنے کی تلقین بھی کر رہا ہے اور اندرون خانہ اسرائیل کو شاباشی بھی دے رہا ہے کہ بالکل درست کیا۔ جو ملک تمہارے دشمن افراد کی مہمان نوازی کرے اس ملک پر حملہ کرنا تمہارا استحقاق ہے۔ یہ ہے وہ ڈپلومیسی جس پر آج کا امریکی صدر ٖفخر سے اپنا سینہ چوڑا کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے دنیا اس کی اس حکمت عملی کو پسند بھی کرتی ہے اور داد بھی دیتی ہے۔

پاک بھارت جنگ رکوانے کا بیسیوں اور تیسیوں بار ذکر کر کے سارا کریڈٹ اپنے نام کر کے وہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا اس کی اس بات کو من و عن مان لے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی بہت سی جنگیں ہوئیں اور اُن کا سیز فائر بھی ہوا لیکن کسی اور صدر نے اس کا کریڈٹ اس طرح کبھی بھی اپنے نام نہیں کیا۔ کارگل کی جنگ بھی امریکا کے اور صدر نے رکوائی تھی لیکن ہم نے اسے ایسا کریڈٹ لیتے کبھی بھی نہیں دیکھا۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے اس بات کا احساس تک نہیں دلاتے کہ یہ تمہارا کریڈٹ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے امن کا نوبل انعام دلوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ امن کا نوبل انعام اس شخص کو ضرور ملنا چاہیے جو اسرائیل کی جارحیت کو روک سکے، مگر یہاں تو ایسا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی پر اسے امن کا دشمن قرار دینا چاہیے۔

اسلامی ممالک سے زیادہ تو آج دیگر غیر اسلامی ممالک اسرائیل کی اس جارحانہ کارروائیوں پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت میں وہاں لاکھوں افراد سراپا احتجاج ہیں۔ غزہ کے معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل پر اسرائیل کی سرپرستی کرنے والا امن کا داعی کیسے ہوسکتا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار دینے والا کون شخص ہے۔ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اس ٹرمپ کی اندھی حمایت کرتے جا رہے ہیں، ہم اگر اس پر تنقید نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم اس کی تعریفیں تو نہ کیا کریں۔

وہ شخص آج ہمارے معدنی ذخائر کی وجہ سے ہم سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کو نیچا دکھا رہا ہے۔ دیکھا جائے کہ جوجرم بھارت نے روس سے تیل خرید کرکیا ہے ویسا ہی جرم تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ یعنی امریکا جسے اپنا بہت بڑا دشمن اور حریف ملک سمجھتا ہے ہم اسی ملک چین سے دوستی اور محبت کے رشتے استوارکیے ہوئے ہیں۔ کل مزاج بدلتے ہی وہ ہم سے بھی کہہ سکتا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو یا چین کے۔ جس طرح نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر بش نے پرویز مشرف سے کہا تھا کہ تم ہمارے دوست ہو یا ہمارے مخالفوں کے۔ نتیجتاً ہم نے اپنا سب کچھ اس پر نثارکر دیا تھا اور اپنی سرزمین کو اگلے کئی سالوں کے لیے دہشت گردی کی آماج گاہ بنا لیا تھا۔ جو بربادی اس کے بعد ہوئی تھی ہم آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔

ہمیں آج اس رویہ کو یاد کرتے ہوئے اس قدر غافل نہیں ہوجانا چاہیے کہ امریکا ایک بار پھر ہمارے ساتھ وہی طرز عمل اختیار کر ڈالے۔ اسے ہماری چین کے ساتھ دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ اگر آج اسے نظر اندازکیے ہوئے ہے تو اس کے پیچھے بھی اس کے کچھ خفیہ مقاصد کارفرما ہیں۔ وہ جلد اپنا پینترا بدل کر پھر ہم سے دشمنی مول لے سکتا ہے۔ اسرائیل ہمارے پڑوسی ملک ایران تک پہنچ چکا ہے توکل ہماری سرزمین پر بھی پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا جوابی کارروائی کر پائیں گے۔ ہمیں آج سے اس کی پلاننگ کرلینا ہوگی۔ یاد رہے کہ پھر امریکا بھی ہمارا دشمن ہوسکتا ہے اور وہ ساری دوستیاں اور مہربانیاں جو وہ آج دکھا رہا ہے عداوت اور دشمنی میں بدل سکتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • تاریخ گواہ ہے کہ قربانیوں سے جنم لینے والی تحریکیں کبھی دبائی نہیں جا سکتیں، عزیر احمد غزالی
  • سعودی عرب کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • ہمارے پاس مضبوط افواج، جدید ہتھیار ہیں، حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے: اسحاق ڈار
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر