دھوکا مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ نہیں عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے، جے یو آئی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آ باد:
جمیعت علمائے اسلام ( ف ) نے کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ اپوزیشن کو تقسیم کریں، وہ ٹی وی پر بیٹھ کر جھوٹی بڑھکیں مار رہے ہیں۔
ترجمان جے یو آئی ( ف ) اسلم غوری نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کینٹ میں بیٹھ کر خودساختہ روپوشی گزاری،علی امین گنڈا پور ٹی وی پر جھوٹی بڑھکیں ماررہے ہیں۔
اسلم غوری نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ اپوزیشن کو تقسیم کریں، انہوں نے کہا کہ دھوکا مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ نہیں عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور جیسے مہرے اپوزیشن کو تقسیم کرنے کےلیے استعمال ہورہے ہیں، علی امین اسٹیبلشمنٹ سے بند کمرے میں باقاعدہ معافیاں مانگتے ہیں اور باہر آ کر بڑھکیں مارنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ترجمان جے یو آئی نے وزیراعلیٰ کے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈی چوک میں کارکنوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگنے والا کس منہ سے باتیں کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈا پور کے ساتھ
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمٰن کے غیر فعال مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے
مولانا فضل الرحمٰن—فائل فوٹوجمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے متحدہ مجلسِ عمل کے رہنماؤں کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کر لیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچ گئے، علامہ عارف واحدی سمیت دیگر رہنما وفد میں شامل تھے۔
سر براہ جے یو آئی نے کہا کہ لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے علامہ ساجد نقوی سمیت ایم ایم اے کی سابقہ قیادت کو مدعو کیا تھا، یہ رابطے غیر فعال ایم ایم اے کو پھر سیاسی میدان میں اتارنے کی کاوشوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے سربراہ جمعیتِ اہلحدیث حافظ عبد الکریم اور مولانا اویس نورانی سے بھی ٹیلیفونک رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی طرف سے تاحال جماعتِ اسلامی کو مدعو نہیں کیا گیا، متحدہ مجلسِ عمل کی فعالیت، غیر فعالیت کے اسباب سمیت دیگر امور زیرِ غور آئیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں مجموعی سیاسی صورتِ حال سمیت غزہ اور خطےکی صورتِ حال بھی زیرِ غور آئے گی۔