جنگ بندی معاہدہ حق کی باطل اور خون کی تلوار پر فتح ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
جنگ بندی کو فلسطینی مزاحمت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے سپاہ پاسدارن نے کہا ہے کہ غزہ کی حمایت کے لئے خطے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے دیگر بازووں لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصار اللہ اور عراقی مزاحمت کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور صیہونیت کی جانب سے معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی کے خلاف انہیں نئی جنگوں اور جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں تیاری کیساتھ خبردار کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی رجیم کی جانب سے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی شرائط پر جنگ بندی کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اپنے بیان میں صیہونی رجیم کے لئے ذلت آمیز شکست قرار دیتے ہوئے فلسطین کے لئے فتح مبین اور عظیم کامیابی قرار دیا ہے۔ فلسطین پر قابض صیہونی رجیم کو ایک شکست خوردہ عفریت قرار دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب خوشی سے نہال اور کامیابی سے سرشار اہلیان غزہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ بیان میں اہل فلسطین کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقاومت نے فلسطین کو حق کی باطل پر اور خون کی تلوار پر فتح کی علامت اور روشن مظہر بنا دیا ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا، لِیَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكَ وَیَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا وَ یَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِیزًا۔
خدائے بزرگ و تعالیٰ کا شکر ہے کہ طوفان الاقصیٰ جیسا ہمیشہ کے لئے قابل فخر اور تاریخی آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوا اور مظلوم، نہتے فلسطینی بچوں اور عورتوں اور عوام کیخلاف قرون وسطیٰ کے وحیشیوں جیسی صیہونی بربریت اختتام پذیر ہوئی۔ یہ صیہونی جنہوں نے امریکہ، یورپی اور علاقائی اتحادیوں کی ہر طرح کی حمایت اور میڈیا کے ذریعے مکمل سرپرستی کے ذریعے اپنے یرغمالیوں کو جنگ کے ذریعے آزاد کراوانے، حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور شمالی فلسطین میں آباد کاروں کی واپسی جیسے مقاصد کے حصول کے لئے اعلان کیا تھا، ان کی اس درندگی کی وجہ سے 463 دن کے دوران 50,000 سے زیادہ مظلوم اور نہتے لوگوں کی شہادتیں ہوئیں، لاکھوں لوگ زخمی اور 80 فیصد سے زیادہ شہری اور رہائشی انفراسٹرکچر تباہ کیا گیا لیکن آج اسی صیہونی دشمن نے غزہ کے بہادر عوام کے بے مثال صبر و استقامت اور مزاحمت کے فولادی عزم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس ذلت آمیز اختتام کیساتھ اس دور کا خون آشام قصائی اور اس کی کابیبہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار صیہونی معاشرے کی طرف بے پناہ تنقید کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔
حماس کے عظیم جنگی ہیروز نصرت الہیٰ پر یقین، غزہ کے مظلوم اور طاقتور لوگوں کی افسانوی مزاحمت و استقامت اور پوری دنیا سے عوامی حمایت کی لہر سے مذاکرات اور معاہدے کی صورت میں کامیابی حاصل کر فخر و غرور کے ساتھ ابھرے اور اپنی فتح سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ آج فلسطینی عوام کی مزاحمت باطل پر حق کی فتح اور تلوار پر خون کی فتح ہے۔ آج، یہ تل ابیب اور غاصب حکومت فوجی شکست، داخلی اور معاشرتی ٹوٹ پھوٹ، اسرائیل آنیوالے یہودیوں کی واپس اپنے ملکوں کو ہجرت، معاشی دیوالیہ پن اور سیاسی تنہائی کا سامنا کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کے ارادے اور ناقابل شکست عزم کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ بلاشبہ یہ جنگ بندی معاہدہ بھی فلسطینی مزاحمت کے لئے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طرح ہی فتح مبین اور عظیم کامیابی ہے، جو صیہونیوں کے لیے ایک ہمہ جہتی اور ناقابل تلافی شکست ہے، تاریخ میں یہ حقیقت درج رہیگی کہ کئی مہینوں کے جرائم صیہونی حکومت کے لئے کسی کسی قسم کی کامیابی کا سبب نہ سکےاور یہ کہ مزاحمت زندہ، پھلتی پھولتی اور ثابت قدم رہے گی اور مسجد اقصیٰ اور مقدس شریف کی آزادی کے لیے خدا کے سچے وعدوں پر پورے اعتماد اور گہرے یقین کے ساتھ آگے بڑھے گی۔
حالیہ معرکہ میں مزاحمت اور قدس کی آزادی کے راستے کے عظیم شہدا بالخصوص اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصر اللہ، یحییٰ سنوار، اور سید صالح العارودی کے نام رہتی دنیا تک عزت و احترام کیساتھ یاد رکھے جائیں گے، ہم اس عظیم اور یادگار واقعہ کو فلسطینی مزاحمت کے نام کرتے ہیں، خاص طور پر مظلوم اور مقتدر لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور ان کی ناقابل بیان خوشی، جوش و جوش کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عزت و افتخار کیساتھ اس جشن میں ان کیساتھ شریک ہیں۔ غزہ کی حمایت کے لئے خطے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے دیگر بازووں لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصار اللہ اور عراقی مزاحمت کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور صیہونیت کی جانب سے معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی کے خلاف انہیں نئی جنگوں اور جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں تیاری کیساتھ خبردار کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کی "نماز نصر" مستقبل قریب میں دنیا کے میڈیا کے صفحہ اول کی خبر بنے گی۔
سپاه پاسداران انقلاب اسلامی
26 دی1403
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت مزاحمت کے کرتے ہیں کے لیے کے لئے
پڑھیں:
غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟
اسلام ٹائمز: انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کیساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا، لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گذشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔ نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے اثرات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونے والے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں، جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کرکے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کے لئے پیش کرتا ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے، جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔
آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے۔؟ بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمہ دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے، اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے، وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں، جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے۔ یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔
حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمہ دار ہے ہی، لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورد و نوش اسرائیل کے لئے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمہ دار اور شریک جرم ہیں۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔
انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت دار ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ممالک میں ایسے خیانت کار حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے۔بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کا دہشت گرد وزیراعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔ دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی "انروا" کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہوچکی ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہوسکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً انروا کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔ دوسری جانب انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔