سیدنا معاویہ بن ابوسفیانؓ
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
سیدنا امیر معاویہؓ بعثت نبویؐ سے تقریباً پانچ برس قبل پیدا ہوئے۔ آپؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورؐ سے جا ملتا ہے۔ امیر معاویہؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپؓ کے لیے نبیؐ کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں، آپؓ کی بہن سیدہ سیدہ ام حبیبہؓ کو حضورؐ کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ کے والد ابوسفیانؓ اور والدہ ہندہؓ بھی شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ امیرمعاویہؓ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
آپ صلح حدیبیہ کے بعد ہی اسلام قبول کرچکے تھے، تاہم اس کا باقاعدہ اعلان فتح مکہ کے موقع پرکیا۔ نبیؐ چونکہ معاویہؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت وقابلیت سے آگاہ تھے، اس لیے انہیں خاص قرب سے نوازا۔ فتح مکہ کے بعد آپؓ حضورؐ کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورؐ کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ’’کتابت وحی‘‘ ہے۔ نبی اکرمؐ نے جلیل القدر صحابہؓ پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو ’’کاتب وحی ‘‘تھے، ان میں معاویہؓ کا چھٹا نمبر تھا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں : نبیؐ نے معاویہؓ کو کا تب وحی بنایا تھا… اور آپؐ اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالۃ الخفاء)
امیرمعاویہؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ آپؐ کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
سیدنا امیر معاویہؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر رہتے، یہاں تک کہ سفر وحضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔ ایک بار حضورؐ کہیں تشریف لے گئے تو امیر معاویہؓ پیچھے پیچھے گئے۔ راستے میں حضورؐ کو وضو کی حاجت ہوئی، پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہؓ پانی لیے کھڑے ہیں۔ آپؐ بڑے متاثر ہوئے۔ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے: معاویہ! تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا۔ نبیؐ آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں۔ علامہ اکبر نجیب آبادیؒ ’’تاریخ اسلام‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ حضورؐ نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی معاویہؓ کے سپرد کر دیا تھا۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجیے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دیجیے۔ (ترمذی)
رسولؐ نے فرمایا: اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا۔ (کنزالعمال)
رسولؐ نے فرمایا: معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔ (تطہیرالجنان)
رسولؐ نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے تو ان پر نور ایمان کی چادر ہوگی۔ (تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)
رسولؐ نے فرمایا: میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبار ہیں۔ (بحوالہ: سیرت امیرمعاویہؓ)
نبی اکرمؐ کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں آپ نے مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے۔ ایک روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب معاویہؓ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں، ان میں امیر معاویہؓ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے، جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، اس جنگ میں آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں سیدنا امیر معاویہؓ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، شام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردیا۔ امیر معاویہؓ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالم گیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے، اسی بنا پر فتح قبرص کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی، جس کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔ بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا، جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا، اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی، اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ عثمان غنیؓ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد امیر معاویہؓ نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
واضح رہے کہ نبی اکرمؐ نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوش خبری فرمائی، ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کرے گا۔ پہلی بشارت سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی۔ اس لشکر کے امیر وقائد خود امیر معاویہؓ تھے۔ آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ، جن میں سیدنا ابو ایوب انصاری، ابوذر غفاری، ابودرداء، عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرامؓ شریک ہوئے۔ اس جنگ کی تفصیل یہ ہے کہ28 ہجری میں آپ پوری شان وشوکت، تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے، ابتدا میں وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی، لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار اور بحری لڑائی کا ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
زبان رسالتؐ سے جنت کی بشارت کا مصداق بننے کے بعد اگر معاویہؓ کچھ نہ کرتے تو بھی ان کے لیے کافی تھا، مگر اسلام کے اس شیر دلیر نے جہاد موقوف کرنا تو درکنار، اس سلسلے کو موقوف کرنا بھی گوارا نہ کیا اور یہاں سے فارغ ہوکر قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔ 35ھ میںآپؓ کی قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔
اسی سال خلیفہ راشد سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کا دل دوز واقعہ پیش آیا۔ جس سے آپ خلیفہ مظلوم کے قریب ترین رشتے دار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، قصاص عثمانؓ کے مطالبے کی وجہ سے جنگ جمل وصفین کے واقعات بھی پیش آئے، جن میں انہی منافقین کا کردار نمایاں تھا، جو قتل عثمانؓ کے ذریعے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں ناکامی کا بدلہ اب مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر لینا چاہتے تھے۔ جس کا ثبوت یہ قول بھی ہے؛ امام اعظم ابو حنیفہؒ فرما تے ہیں: سیدنا معاویہؓ نے سیدنا علیؓ کے ساتھ جنگ میں ابتدا نہیں کی۔ (المنتقی)
بہ ایں ہمہ سیدنا علیؓ نے آپ کو ان تمام عہدوں اور مناصب پر نہ صرف برقرار رکھا، جن پر آپ عہد عثمانی میں فائز تھے، بلکہ یہ فرما کر ہر قسم کے شکوک وشبہات کو بھی دور فرمادیا: ہم بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، ہمارا اور ان کا اختلاف صرف دم عثمانؓ کے مسئلے میں ہے۔ (نہج البلاغہ)
صفین سے واپسی پر جب آپ نے سنا کہ بعض اہل لشکر سیدنا معاویہؓ کے خلاف بے احتیاطی سے کلام کر رہے ہیں تو لوگوں سے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! تم معاویہ کی گورنری اور امارت کو ناپسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں گم کر دیا تو دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح اندرائن کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔ (البدایہ والنہایہ، حافظ ابن کثیر)
سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد محض چھے ماہ خلافت کے منصب پر فائز رہنے کے بعد41ھ میں سیدنا حسنؓ نے برضا و رغبت خلافت آپؓ کو سونپ دی اور حضرات حسنین کریمینؓ نے آپ کو خلیفہ برحق مانتے ہوئے بیعت کرکے منافقین کے تمام عزائم کو یک سرناکام بنادیا۔
خلیفہ بنتے ہی آپؓ نے عارضی طور پر اسلامی فتوحات میں آنے والے تعطل کا خاتمہ کردیا اور اسلامی لشکرکی باگ ڈور سنبھال لی۔
سیدنا امیر معاویہؓ ایک عظیم جرنیل، سپہ سالار اور میدان حرب کے نڈر شہسوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالے سے شاندار دور حکومت ہے، ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔
دورخلافت اور اصلاحات
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا امیر معاویہؓ نے خلفائے راشدین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نئے امور واصلاحات کی داغ بیل ڈال کر ان کو فروغ دیا:
ـ1۔ امیر معاویہؓ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
ـ2۔ سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کی، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
ـ3۔ آبپاشی اور آبنوشی کے لیے پہلی نہر کھدوائی۔
ـ4۔ ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
ـ5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
ـ6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
ـ7۔ پارلیمنٹ کا قیام عمل میںآیا اور انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیے میں مداخلت سے روک دیا۔
ـ8۔ بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے فرمائے۔
ـ9۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
ـ10۔ بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لیے خصوصی پولیس (سی۔آئی ڈی اسٹاف) کی بنیاد ڈالی۔
سیدنا امیرمعاویہؓ سے نبی اکرمؐ کی 163 احادیث مروی ہیں۔ جن میں سے کئی حدیثیں بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں۔ آنحضرتؐ کی اس قدر قربت کے باوجود آپؓ کی روایات کم اس لیے ہیں کہ آپ حدیث نقل کرنے میں حد درجہ محتاط تھے۔
22 رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے امیر معاویہؓ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ سیدنا ضحاک بن قیسؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں مدفون ہوئے۔ اللہ کی ان پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں۔ (آمین)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کو جلیل القدر نے فرمایا نبی اکرم کاتب وحی کے بعد ا کے ساتھ اور ان اور اس کے دور کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔
آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔
سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔
غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔
بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔
بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔
جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔
جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...