امہ ویلفیئر ٹرسٹ کا کورنگی میں بھی سستا دستر خوان کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
امہ ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان نے کورنگی میں عوام سستا دستر خوان میں کھانا کھا رہے ہیں
کراچی(کامرس رپورٹر) امہ ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان نے سلطان آباد کے بعد کورنگی میں بھی امہ سستا دستر خوان کا آغاز کردیاہے، اب کورنگی کے سفید پوش اورمزدور وملازمت پیشہ افراددعزت نفس مجروح ہوئے بغیر باوقارماحول میں معیاری کھاناحاصل کھاسکتے ہیں، کورنگی شریف آباد میں امہ سستا دستر خوان2 کا باقاعدہ افتتاح مختصرسی دعائیہ تقریب سے کیاگیا،افتتاحی تقریب میں امہ ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان کے سنیئروائس چیئرمین حاجی عبدالرزاق بیلی،جنرل سیکرٹری حاجی بلال بگٹی ، سماجی رہنماحاجی ارشاد بخاری ، امہ سستا دستر خوان کے نگران حاجی حبیب اللہ نیازی ، ڈاکٹر حمزہ بیلی،طارق محمود، مولانا محمدامجد سمیت عمائدین اورکاروباری شخصیات شریک ہوئیں،ممتازعالم دین مفتی محمد مدنی نے دعاکرائی ،اس موقع پرحاجی حبیب اللہ نیازی نے امہ سستا دستر خوان کی افادیت، انفرادیت اور طریقہ کار سے شریک مہمانوں کو آگاہ کیا،افتتاح کے موقع پرباقاعدہ ٹوکن دے کرتمام مہمانوں کوکھانافراہم کیا گیا ، امہ سستا دستر خوان2 کورنگی میں ایک وقت میں 160افراد ایک ساتھ کھا کھاسکتے ہیں اور روزانہ 500سے600افراد مستفید ہوں گے۔ پی آئی ڈی سی پل سے متصل ایم ٹی خان روڈ پر قائم پہلے امہ سستا دستر خوان کا افتتاح فروری2022میں امہ ویلفیئرٹرسٹ پاکستان کے بانی وچیئرمین مولانا محمدادریس نے کیاتھا ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امہ سستا دستر خوان امہ ویلفیئر ٹرسٹ ٹرسٹ پاکستان کورنگی میں
پڑھیں:
خلا کی فتح، زمین کی محرومی
اسلام ٹائمز: ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری
چین کی سرزمین پر جیسے ہی PRSS-02 نامی پاکستانی سیٹلائٹ فضا کی بلند ترین تہہ میں داخل ہوا، پاکستان کیلئے ایک اور ’تاریخی لمحہ‘ رقم ہو چکا تھا۔ یہ کوئی عام مصنوعی سیارہ نہ تھا، بلکہ وہ خواب تھا جو کئی برسوں سے سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبا سسک رہا تھا، کبھی بجٹ کی کٹوتی کی نذر، کبھی نیت کی کمی کا شکار، لیکن اس بار خواب نے محض پرواز نہیں بھری، بلکہ خلا میں جا کر یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان اب صرف زمین پر محدود نہیں رہا۔ یہ سیٹلائٹ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے، زمین کی تصویریں اتارنے یا کسی ایک ادارے کی تحقیق کیلئے نہیں، بلکہ ایک بڑی سوچ کی علامت ہے۔ وہ سوچ جو یہ باور کروا رہی ہے کہ پاکستان مغربی کیمپ کی اجارہ داری سے نکل کر ایک نئے جغرافیائی، سائنسی اور اسٹریٹیجک بلاک میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ بلاک نہ صرف تعاون کی بنیاد پر کھڑا ہے بلکہ مشترکہ ترقی اور خودمختاری کی راہ دکھاتا ہے۔ جب مغربی ادارے پاکستان کو محض قرضوں، شرائط، اور اصلاحات کے خول میں قید کرنے کی کوشش کرتے رہے، چین وہ واحد طاقت بن کر سامنے آیا جس نے نہ صرف تعاون کا وعدہ کیا، بلکہ اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ PRSS-02 اسی اعتماد، اسی دوستی اور اسی سائنسی اشتراک کا مظہر ہے۔ یہ پاکستان کے اُن انجینئرز، سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے سرخیوں کے بغیر، خاموشی سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
مگر خلا کے اس سفر کیساتھ زمین پر ایک اور خاموش خبر بھی اتری اور وہ چین سے حاصل کیے گئے جدید Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹر کی پاکستان میں باضابطہ شمولیت سے متعلق ہے۔ یہ محض عسکری سازوسامان کی خریداری نہیں، بلکہ ایک ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان اب اپنی عسکری خودمختاری کے فیصلے صرف واشنگٹن یا ماسکو میں نہیں، بلکہ اسلام آباد اور بیجنگ میں بھی کر رہا ہے۔ Z-10ME جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اور اس کی شمولیت سے پاکستان کا دفاعی نظام نہ صرف مزید مضبوط ہوا ہے بلکہ سفارتی طور پر بھی پاکستان نے دنیا کو یہ جتلا دیا ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتا۔ برسوں سے ہم امریکی شرائط اور روسی پابندیوں کے بیچ الجھے رہے، مگر اب وہ خلا چین کی شراکت سے پُر ہوتا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی سیاسی طعنہ زنی یا شرائط کے۔ یہ دونوں خبریں، سیٹلائٹ کی پرواز اور ہیلی کاپٹر کی شمولیت، بظاہر سائنس و دفاع کے دائرے تک محدود لگتی ہیں، مگر ان کا اصل اثر معاشی، سفارتی اور قومی اعتماد کے دائرے تک جاتا ہے۔ یہ اس اعتماد کی واپسی ہے جسے دہائیوں سے زنگ لگتا رہا۔ یہ بدلتا ہوا تناظر صرف پاکستان ہی نہیں، پورے خطے میں ایک نئی صف بندی کا پتہ دے رہا ہے۔
ایران جیسے ممالک بھی اسی اعتماد سے چین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایران بھی چین سے جدید فضائی دفاعی نظام اور جنگی طیاروں کی خریداری کیلئے پیشرفتہ مذاکرات میں مصروف ہے۔ اگرچہ یہ پیشرفت براہِ راست پاکستان سے متعلق نہیں، لیکن یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین خطے میں کئی ممالک کیساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کو نئے انداز سے مستحکم کر رہا ہے اور یہ بدلتی ہوئی عالمی صف بندی کا ایک اور اشاریہ ہے۔ اسی دوران، ایک اور قدرے غیرنمایاں لیکن بڑی خبر آئی، امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان سے درآمدات پر صرف 19 فیصد ٹیرف عائد کرے گا، جبکہ بھارت سے 25 فیصد۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بعض خوش فہم افراد نے اس اعلان کو ایک بڑی کامیابی سمجھ کر جشن منایا، گویا واشنگٹن نے IMF کے بدلے ہمارے آم، کپاس اور چاول خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ٹیرف میں رعایت نہیں، بلکہ ہماری غیر مساوی معیشت کی ایک خاموش چارج شیٹ ہے۔ دنیا ہمیں اب بھی تجارتی طور پر کمزور سمجھتی ہے، اسی لیے ہمیں رعایت دی جاتی ہے، مسابقت نہیں۔ اگر ہماری معیشت واقعی طاقتور اور آزاد ہوتی، تو یہ فرق ہی ختم ہو چکا ہوتا۔ جبکہ درحقیقت پاکستان ایک مقروض ملک ہے، اور اب اس کیساتھ امریکہ نے "مائننگ" کے نام پر ایک بڑا معاہدہ کیا ہے، جس پر راقم سمیت کئی لوگ انگشت بدندان ہیں کہ ایک طرف چین کا پُر خلوص تعاون اور دوسری طرف امریکہ سے معاہدہ، یہ خیال عام ہے کہ اگر یہ معاہدہ چین کے ساتھ ہوتا تو زیادہ مؤثر اور باہمی مفاد کا حامل ہوتا۔ اس معاہدے کے اصل مقاصد اور اسرار تو فی الحال عوام کے سامنے نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اب پاکستان سے "خریدنے" نہیں، "کمانے" کی نیت سے آیا ہے۔ ایسے میں تو ٹیرف مکمل طور پر ختم ہونے چاہئیں تھے۔
آپ ایک ملک سے معدنیات نکالنے جا رہے ہیں، جس کی معیشت پہلے ہی قرضوں میں دبی ہوئی ہے، تو وہاں سے درآمدات پر ٹیکس کیوں؟ یہ رعایت نہیں، بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہونی چاہیے تھی۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمارا میڈیا خوش کن سرخیوں میں لپیٹ کر پیش کر رہا ہے، جب کہ زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ تو سوال وہی ہے جو زمین پر رہتا ہے یعنی کیا PRSS-02 اور Z-10ME جیسے سنگِ میل عام پاکستانی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکیں گے؟ یا یہ صرف اسٹیبلشمنٹ، پالیسی سازوں اور میڈیا کے لیے ایک وقتی واہ واہ کا سامان ہیں؟ کیا وہ کسان جو بادلوں کو دیکھ کر فصل کا اندازہ لگاتا ہے، کبھی سیٹلائٹ سے حاصل کردہ موسمیاتی ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ کیا وہ نوجوان جو خواب دیکھتا ہے کہ خلا میں کام کرے گا، کبھی ان اداروں تک پہنچ پائے گا جہاں یہ خواب حقیقت میں ڈھلتے ہیں؟ ہم ایک ایسا ملک بن چکے ہیں جہاں بڑی کامیابیوں پر تالیاں بجتی ہیں، مگر ان کے اثرات زمین پر موجود عوام کی زندگی میں اترتے نظر نہیں آتے۔ ہمارا ٹیکس نظام اب بھی عام شہری کی ہڈیوں میں دراڑ ڈال رہا ہے، تعلیمی ادارے خود کشمکش کا شکار ہیں، اور صحت کا شعبہ اب بھی پلاسٹک کی بوتلوں میں آکسیجن ڈال کر گزارا کر رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خلا میں سیارہ بھیجنا ہماری صلاحیت کا ثبوت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ Z-10ME جیسے آلات سے ہماری عسکری دفاع مضبوط ہوا ہے۔ مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب ان فتوحات کا عکس تعلیم، معیشت، صحت، اور انصاف میں نظر آئے گا۔
ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم ’کامیابیاں‘ گنوانے کے ساتھ اُن ’کمیوں‘ کا بھی احتساب کریں جنہیں برسوں سے نظر انداز کیا گیا۔ اور یہ مان لیں اگر ہم خلا میں پہنچ سکتے ہیں تو زمین پر بھی بہت کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر یہ تب ہوگا، جب ہم نیت کریں گے۔ جب ہم نعرے نہیں، نظام بدلیں گے اور جب ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ "ہاں، یہ سیٹلائٹ عام آدمی کی زندگی میں بھی کچھ بدل چکا ہے۔"