ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ وہ اتوار سے امریکا میں “سرگرمیاں متعطل” کرنے پر مجبور ہوگی جب تک کہ حکومت پابندی سے متعلق فیصلے پر نفاذ سے پہلے مداخلت نہیں کرتی۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں ٹک ٹاک نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اور محکمہ انصاف سروس فراہم کرنے والی کمپنی کو ضروری وضاحت اور یقین دہانی دینے میں ناکام رہے ہیں جو کہ ٹک ٹاک کی دستیابی برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ جب تک حکومت فوری طور پر ویڈیو ایپ کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے قدم نہیں کرتی کہ اسے لگنے والی پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر سزا نہیں دی جائے گی، ٹک ٹاک19 جنوری سے آپریشن معطل کرنے پر مجبور ہوگی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی سپریم کورٹ نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

سپریم کورٹ نے ٹک ٹاک کی امریکی شہری کو فروخت نہ کرنے کی صورت میں پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا اور یہ فیصلہ 9 ججوں نے متفقہ طور پر کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹک ٹاک امریکا کی تقریباً نصف آبادی استعمال کرتی ہے تاہم عدالت نے اس پلیٹ فارم کو تحفظ دینے انکار کردیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کانگریس سے منظور ہونے والا قانون امریکی آئین کی پہلی ترمیم سے متصادم نہیں ہے جو آزادی اظہار کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس میں ٹک ٹاک، بائیٹ ڈینس اور دیگر ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے خلاف مذکورہ ایپلی کیشنز کے صارفین نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 17 کروڑ سے زائد امریکیوں کے لیے ٹک ٹاک اظہار کے لیے ایک جامع اور خاص پلیٹ فارم ہے، جس سے شہریوں کو جڑنے کا موقع ملتا ہے لیکن کانگریس نے ٹک ٹاک سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات ختم کرنے کے لیے اس کی فروخت ضروری قرار دی ہے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان سے اشارہ ملتا ہے کہ صدر جوبائیڈن جاتے جاتے ٹک ٹاک کو اتوار تک جاری ڈیڈلائن سے قبل بچانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کریں گے جبکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کی مخالفت کی ہے اور وہ پیر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

ٹرمپ نے اس پابندی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ متوقع تھا اور ہر کسی کو اس کا احترام کرنا چاہیے اور ٹک ٹاک کے حوالے سے میرا فیصلہ زیادہ دور نہیں ہوگا لیکن مجھے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہوگا۔

ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران ٹک ٹاک سمیت دیگر تنازعات پر بات ہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں کہا کہا کہ کے لیے ٹک ٹاک

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔

(جاری ہے)

جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔

اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے پاک بھارت صورتحال پر گہری نظر رکھنے کا اعلان کر دیا
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ ، پنجاب حکومت کی درخواستیں مسترد
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
  • سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • سندھ میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیاں خریدنے کیخلاف جماعت اسلامی سپریم کورٹ پہنچ گئی
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ