انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کی حکومت نے وادی سندھ کا رسم الخط ڈی کوڈ کرنے والوں کے لیے 10 لاکھ ڈالرز کا اعلان کیا ہے۔

تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے یہ اعلان وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت کے صد سالہ جشن کے موقع پر کیا۔

وادی سندھ کی تہذیب 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہوئی۔ گزشتہ صدی کے شروع میں ہڑپہ اور موہنجوداڑو میں اس تہذیب کے آثار دریافت ہوئے تو آثار قدیمہ کے ماہرین کو کھدائی کے دوران دوسری اشیا کے ساتھ ساتھ لکھائی کے کئی نمونے بھی ملے۔ ان تحریروں کے حروف جانوروں کے نقشوں اور علامتوں پر مشتمل ہیں اور اس رسم الخط کو ’انڈس اسکرپٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

تاہم اس معدوم شدہ رسم الخط کو ایک سو سال کی کوششوں کے بعد بھی اب تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔

تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کا خیال ہے کہ ان کی ریاست کی آبادی دراصل اسی وادی سندھ کے باشندے تھے جنہیں بعد میں وسطی ایشیا سے آریائی حملہ آوروں نے جنوبی ہندوستان کے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔

یہ بھی پڑھیے:وادی سندھ کی تہذیب کے نشانات کہاں کہاں پائے گئے ہیں؟

دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی اپنی تاریخ آریائی حملہ آوروں سے جوڑتی ہے۔

تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ تامل زبان کو بھی وادی سندھ کی زبان کی جدید شکل قرار دیتے ہیں۔ اس رائے سے کئی دوسرے محققین بھی اتفاق کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وادی سندھ کی زبان جنوبی ہندوستان کی موجودہ دراوڑی گروہ سے تعلق رکھنے والی زبانوں کے زیادہ قریب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وادی سندھ کی زبان کے بارے میں مزید معلومات درکار ہیں۔

تاہم ماہرین کو مختلف وجوہات کی بنا پر آج تک ان نامعلوم تحریروں کا مطلب سمجھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ان کا کوئی باربط اور باقاعدہ معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ایک وجہ ان اسکرپٹس کی کم تعداد کا ہے۔ آج تک اس رسم الخط کے صرف 4 ہزار نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ ان تحریروں کے اختصار کا بھی ہے۔ یہ تحریریں زیادہ تر 4 یا 5 علامتوں پر مبنی ہوتی ہیں اور کسی مہر، دیوار یا پتھر کی تختی پر درج ملی ہیں۔

ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ اب تک ماہرین کو وادی سندھ کی باقیات سے ایسی تحریر نہیں ملی ہے جو ’انڈس اسکرپٹ‘ کے ساتھ ساتھ کسی دوسری زبان پر بھی مشتمل ہو یا  اس رسم الخط کے کسی نمونے کا دوسری زبان میں ترجمہ ہوا ہو۔ ایسی صورتحال میں اس دوسری زبان کے ذریعے ’انڈس اسکرپٹ‘ کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ملتی لیکن ایسی کوئی تحریر ابھی تک نہیں ملی ہے۔

تاہم وادی سندھ کے آثار کے ابھی تک ایک چھوٹے سے ہی حصہ کی کھدائی ہوئی ہے۔ آئندہ وقتوں میں مزید کھدائی سے ایسا نمونہ ملنے کا امکان موجود ہے کیوں کہ اس وقت اس تہذیب کی میسوپوٹیمیا (موجودہ ایراق)، چین اور فارس کی دوسری تہذیبوں سے تجارتی مراسم موجود تھے۔ وادی سندھ کے ظروف اور اوزار عمان سے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایسی کسی تحریر کا ہونا بعید از قیاس نہیں جس میں دوسری معلوم زبان بھی شامل ہو۔

ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے کہ اس خطے میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کون سی زبان ایسی ہے جو وادی سندھ کی معدوم زبان سے نکلی ہو۔ ایسی کسی زبان کا پتہ چلے تو اس کی مدد سے وادی سندھ کی تحریروں کا مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ یونان، روم اور مصر کی تختیوں کو پڑھنا ممکن اس لیے ہوا کیوں کہ ان علاقوں کی قدیم اور جدید زبانوں میں تعلق کا ماہرین کو علم تھا۔

ان وجوہات کی بنا پر وادی سندھ کی یہ تحریریں آج بھی ماہرین کے لیے پہیلی بنی ہوئی ہیں اور انہیں سمجھنے کے لیے تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کو ایک ملین ڈالرز کے انعام کا اعلان کرنا پڑا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

dravidian history indus script indus valley civilization tamil nadu آریائی اسکرپٹ تاریخ تامل ناڈو دراوڑی رسم الخط زبانیں وادی سندھ کی تہذیب وزیراعلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آریائی اسکرپٹ تاریخ رسم الخط وادی سندھ کی تہذیب وزیراعلی وادی سندھ کی تہذیب ماہرین کو رسم الخط ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

خاموش سمندر کی گواہی: دوسری جنگِ عظیم کا گمشدہ جاپانی جنگی جہاز کتنے سال بعد دریافت کرلیاگیا

ٹوکیو(انٹرنیشنل ڈیسک) جب تاریخ سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو جائے تو اسے دوبارہ دریافت کرنا صرف ایک سائنسی کارنامہ نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی شعور اور ورثے کی بازیابی بھی ہوتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم، جو انسانی تاریخ کے سب سے ہولناک اور فیصلہ کن ادوار میں سے ایک تھی، اپنے پیچھے ایسی بے شمار کہانیاں، قربانیاں اور راز چھوڑ گئی جو وقت کے سمندر میں کھو گئیں۔ انہی رازوں میں ایک جاپانی جنگی جہاز ”Teruzuki“ بھی تھا، جو 1942 میں بحرالکاہل کی وسعتوں میں غرق ہو گیا۔

بلاشبہ یہ دریافت نہ صرف بحری تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے، بلکہ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم ماضی سے کتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگر ہم سننے کا حوصلہ اور دیکھنے کی جستجو رکھتے ہوں۔

دوسری جنگِ عظیم میں غرق ہونے والا یہ جاپانی جنگی بحری جہاز ’ٹیروزوکی‘ بالآخر 83 سال بعد دریافت کر لیا گیا ہے۔ یہ دریافت ایک اہم بین الاقوامی تحقیقی مہم کے دوران عمل میں آئی، جس کا مقصد بحرالکاہل میں غرق ہونے والے تاریخی جنگی جہازوں کا سراغ لگانا تھا۔

تاریخی پس منظر
’ٹیروزوکی‘ ایک اکیزوکی ڈسٹرائر تھا جسے 1942 میں جاپانی بحریہ نے کمیشن کیا۔ اس کا مطلب ہے ’چمکتا ہوا چاند‘۔ یہ جہاز دوسری جنگِ عظیم کے دوران گواڈال کنال مہم میں استعمال ہوا اور ریئر ایڈمرل رائزو تاناکا کا فلیگ شپ بھی رہا۔

تباہی کا دن
12 دسمبر 1942 کو امریکی نیوی کے دو ٹارپیڈو حملوں کے نتیجے میں ٹیروزوکی غرق ہو گیا، جس کے نتیجے میں 9 فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ اس کا ملبہ سمندر کی تہہ میں چلا گیا اور اس کے بعد اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے بغیر انسان کے زیرِ کنٹرول ڈرکس نامی جہاز نے ملبے کی ابتدائی نشاندہی کی۔ تاہم اُس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ یہ ملبہ کس ملک کا ہے۔

بعد ازاں، 12 جولائی 2025 کو ناٹیلس نامی تحقیقاتی بحری جہاز سے دو جدید ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز ’ہرکولس‘ اور ’ایٹلانٹا‘ کو سمندر کی تہہ میں بھیجا گیا، جنہوں نے 2,600 فٹ کی گہرائی میں موجود ملبے کی ہائی ڈیفینیشن تصاویر حاصل کیں۔

کُورے میری ٹائم میوزیم، ہیروشیما کے ڈائریکٹر کازوشیگے توداکا کے مطابق، ’یہ جہاز خاص طور پر اینٹی ایئرکرافٹ جنگ کے لیے بنایا گیا تھا، اور اس کی توپوں کی پوزیشن اس کی شناخت کی تصدیق کرتی ہے۔‘

جاپان کی فوج نے اس وقت اپنی جنگی مشینری کی معلومات کو خفیہ رکھا تھا، اسی لیے ٹیروزوکی کی کوئی اصل تصویریں دستیاب نہیں تھیں۔ تاہم، ماہرین نے اس کی ’شناخت‘ تاریخی حوالہ جات اور ڈیزائن کی مدد سے کر لی۔

کیوٹو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ سمندری آثار قدیمہ ہیروشی اشیئی نے کہا، ’83 سال بعد اس جہاز کو دیکھنا ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس دریافت سے بحری ورثے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔‘

ٹیروزوکی کی دریافت نہ صرف تاریخی طور پر اہم ہے بلکہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ، ’تاریخ کو محفوظ رکھنا انسانیت کے شعور کی علامت ہے۔‘

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • مفتی مدثر احمد قادری کا وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • پاکستانی فارما برآمدات 457 ملین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں
  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • اسرائیلی فوج کے لیے اسلام اور عربی زبان کی تعلیم لازمی کیوں قرار دی گئی؟
  • امریکا میں کتنے فیصد ملازمین کو خوراک کے حصول، بچوں کی نگہداشت میں مشکل کا سامنا؟
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • گندھارا تہذیب کا دوسرا بڑا عجائب گھر سوات میں
  • کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا
  • خاموش سمندر کی گواہی: دوسری جنگِ عظیم کا گمشدہ جاپانی جنگی جہاز کتنے سال بعد دریافت کرلیاگیا
  • شاہراہِ تھک بابوسر تاحال بند، وادی تھور میں مزید 2 افراد کے سیلاب میں بہنے کی اطلاع