ایرانی سپریم کورٹ کے ججز پر حملہ ،دو جج جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ایرانی سپریم کورٹ کے ججز پر حملہ ،دو جج جاں بحق WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز
تہران:ایران میں سپریم کورٹ کے تین ججز پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، جس کے نتیجے میں دو جج جاں بحق ہوگئے، جبکہ حملہ آور نے خود کو گولی مار کر خوودکشی کرلی۔
ایرانی میڈیا کے مطابق تہران میں ایران کی سپریم کورٹ کے تین ججوں پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
حملے کے نتیجے میں جج محمد مغیث اور حجت الاسلام علی رازنی سمیت دو جج ہلاک ہو گئے، جب کہ تیسرے جج زخمی ہوئے اور ان کا علاج جاری ہے۔خبر رساں ایجنسی کے مطابق حملہ آور نے فائرنگ کے بعد خودکشی کر لی۔
ایران کے جوڈیشری میڈیا سینٹر نے اس واقعے کے حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ آج صبح، سپریم کورٹ میں ایک مسلح درانداز نے حملہ کیا جس میں دو تجربہ کار ججوں کو نشانہ بنایا گیا جو قومی سلامتی، جاسوسی اور دہشت گردی کے خلاف جرائم کے خلاف اپنی لڑائی کے لیے مشہور ہیں۔
بیان کے مطابق برانچ 39 کے سربراہ حجت الاسلام علی رازینی اور سپریم کورٹ کی برانچ 53 کے سربراہ جج محمد مغیصہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔
ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ حملہ آور کا نہ تو سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ تھا اور نہ ہی وہ اس کی کسی برانچ کا دورہ کرنے والا تھا۔
حملے کے بعد، حکام بندوق بردار کو پکڑنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے، لیکن اس نے فوراً خودکشی کر لی۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے
پڑھیں:
صدر کو ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے، سپریم کورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے یہ فیصلہ تحریر کیا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے تحت صدر مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ہائیکورٹ کے جج کو دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکتے ہیں، یہ اختیار اپنی نوعیت میں آزاد ہے تاہم اس پر چند اہم شرائط عائد ہیں۔
بنیادی شرط کے مطابق جج کی رضامندی لازمی ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں۔
فیصلے کے مطابق، ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بھی کسی دوسری ہائیکورٹ کے جج کو مقررہ مدت کے لیے بلا سکتا ہے لیکن یہ اقدام بھی صرف جج کی رضا مندی سے ہی ممکن ہوگا۔
عدالت نے واضح کیا کہ آئین سازوں کے دیے گئے صدر کے اختیارات ختم نہیں کیے جا سکتے اور خالی آسامیوں کی موجودگی ججوں کے تبادلے کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہوتی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ جج کا تبادلہ نئی تقرری کے زمرے میں نہیں آتا، آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت جج کی ٹرانسفر، آرٹیکل 175-اے کے تحت کی جانے والی تقرری سے بالکل الگ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کے خط پر سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے، لہٰذا اس پر تبصرہ یا ریمارکس دینا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس سے زیر التوا کیس متاثر ہوسکتا ہے۔
عدالت نے مشاورت کرنے والے ججز پر لگائے گئے الزامات پر بات کرنے سے بھی گریز کیا اور کہا کہ ایسے الزامات آسانی سے ہر اس جج پر لگ سکتے ہیں جو آرٹیکل 200 کے تحت ٹرانسفر ہو کر آئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار تک محدود رہنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور آئینی بینچ ہم صرف قانونی اور آئینی نکات پر فیصلہ دینا چاہتے ہیں اور ذاتی یا انتظامی الزامات میں الجھنے کے حق میں نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے ٹرانسفر اور سینیارٹی کے معاملات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔