پچھلے چند ماہ سے اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ بمباری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس کی بمباری سے نہ اسکول محفوظ ہیں نہ اسپتال، یہ بمباری صریحاً نسل کشی رہی ہے۔ غزہ کے ارد گرد اور دنیا بھر میں 57 مسلم ممالک موجود ہیں مگر کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کے لیے آواز بلند کر سکیں۔
مسلم دنیا تو اللہ کے امتحان سے گزر رہی ہے اور ہر ملک اپنی سلامتی کی فکر فضول میں لگا ہوا ہے مگر امریکا بہادر نے جو دنیا کی ایک سپرپاور اور انسانی اخلاقیات کی نام نہاد الم بردار ہے نہایت ملائم الفاظ میں فریقین سے جنگ بندی کی درخواست کی اور دونوں ممالک کے نمایندوں کو بات چیت پر آمادہ کیا مگر اسرائیل ہنوز اہل فلسطین پر نسل کش حملے کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل کی اس وحشیانہ جنگجوئی پر شاباش دیتے ہوئے آسکر ایوارڈ کے لیے 2 بار نامزد ہونے والے اور 3 بار ایمی ایوارڈ کے فاتح جیمز ووڈ نے اپنی ٹویٹس میں لکھا تھا ’’شاباش، ان سب کو مار ڈالو، شاباش نیتن یاہو! کسی کی نہ سنو، غزہ پر حملے جاری رکھو۔
اور وہی امریکا جو دنیا کا چوکیدار بنا بیٹھا تھااور خود کو بہت طاقتور سمجھتا ہے۔ ایک بار حماس کے حملے میں جانی و مالی نقصان کی خبر پا کر بول اٹھا ’’اگر فلسطینیوں نے سرگرمیاں جاری رکھیں تو فلسطین کو جہنم بنا دیا جائے گا۔
مسلم امہ کی بے حسی اور دنیا کے چوکیدار امریکا اور امن کے رکھوالوں کی دست درازیوں پر قدرت نے اپنا کام دکھایا اور امریکی صوبے کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ لگ گئی اور 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہواؤں کے جھکڑ نے آگ کے شعلوں کو مہمیز دی اور پھر فلسطین کے بجائے امریکی ریاست کیلی فورنیا جہنم کا نقشہ پیش کرنے لگی۔
آگ اتنی شدید اور تیز تھی کہ اس نے لاس اینجلس کو خاک کا ڈھیر بنا دیا ‘ وہ شہر جہاں ہر طرف روشنیا ں ہی روشنیاں تھیں اور زندگی کے تمام لطف حاصل تھے وہاں آگ لگنے کے بعد اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے ایٹمی حملے کے ذریعے شہر کو تباہ و برباد کر دیا ہو۔ اس آگ نے 36 ہزار ایکڑ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ابھی تک آگ پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے، اس لیے تباہ کاری کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 11 اور زخمیوں کی 20 ہے جب کہ 10 ہزار ولاز خاکستر ہو گئے۔ لاس اینجلس امریکی اداکاروں کی رہائش کے لیے مشہور ہے اور ان کے مکانات ہر طرف سے جنگلات سے گھرے اور بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں کے مکانات امریکا کے مہنگے ترین مکانات سمجھے جاتے ہیں۔
ایک امریکی صدر کے صاحبزادے کا مکان بھی جل کر خاکستر ہو گیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ امریکی اداکار جیمز ووڈ جس نے نیتن یاہو کو بے یار و مددگار فلسطینیوں پر حملہ کرنے پر داد دی تھی، اس کا عالی شان ’’محل‘‘ بھی آگ کے شعلوں کی نذر ہو کر خاک کا ڈھیر بن گیا۔ جیمز ووڈ نے روتے ہوئے اخبار نویسوں کے سامنے کہا ’’یہ کیسی مصیبت ہے کہ کل جس گھر کے سوئمنگ پول میں، میں نہایا تھا آج وہ خاک کا ڈھیر ہے۔
یہ کسی انسان کی کارروائی نہیں، قدرت کا انتقام ہے۔ مسلم امہ تو اپنی بے حسی کے حصار میں جواب دہی میں پھنسی ہوئی تھی، فلسطینیوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا، قدرت نے اپنی چال چلی اور ہر جائیداد، ہر مکان اس طرح خاکستر ہو گئے کہ مکان کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ امریکی محکمہ موسمیات کے مطابق اس علاقے میں اگلے ہفتے تک بارش کا بھی امکان نہیں کہ اس خوفناک آگ کو بجھا سکے۔ گویا عذاب ، آگ اور ہوا کی تیزی اور آسمانی پانی کی نایابی کی شکل میں آیا ہے۔ انسانی کوششوں سے تو امریکا جیسی بڑی طاقت کو زیر کرنے کی ہمت کسی ملک میں نہیں تھی نہ ہے مگر ’’آفت تو آئے گی نصیب دشمناں کب تک۔
اب لاس اینجلس کی دوبارہ آبادکاری کے لیے مہینوں چاہیے ہوں گے اور کھربوں روپے کی ضرورت پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اس آتش زدگی کو اب تک کی سب سے زیادہ نقصان دہ آتش زدگی قرار دیا گیا ہے جس میں 10 ہزار سے زائد مکانات جل کر راکھ ہو گئے۔
150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، تو اندازہ لگا لیجیے کہ اسے دوبارہ تعمیر کرنے میں کتنا صرف ہوگا اور کتنی مدت درکار ہوگی۔امریکا نے غزہ کو جہنم بنا دینے کی دھمکی دی تھی، خود اس کا شاندار اور فیشن ایبل علاقہ جہنم کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ذرا سوچیے فلسطینی بے یار و مددگار عورتوں، معصوم بچوں اور بوڑھوں کے سر پر آگ برسانے والے آج خود آگ کا شکار ہو گئے، ’’فاعتبرو یا اولی الابصار۔‘‘
ترجمہ۔ پس اے آنکھوں والو عبرت حاصل کرو۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
امریکی میڈیا کے مطابق عام حالات میں ٹیکساس کے شہر جوزفین کے باہر 400 ایکڑ زمین پر رہائشی منصوبہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی لیکن حالیہ مہینوں میں گورنر گریگ ایبٹ نے اس مجوزہ منصوبے کو روکنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ گورنر کی جانب سے گھروں کی تعمیر کو روکنے کی وجہ ایک ہزار گھروں پر مشتمل اس منصوبے کو ایک مسجد کے گرد بنایا جانا ہے۔
ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے دفاع کے لیے اسلامی سینٹر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں، گورنر کا ردِ عمل دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ نائن الیون ہو۔
مزید پڑھیں: نائیجر: شدت پسندوں کا مسجد پر حملہ، بازار و گھر نذر آتش، درجنوں افراد ہلاک
حالیہ برسوں میں امریکا میں مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بعض اوقات مقامی حکام کی جانب سے امتیازی سلوک بھی شامل رہا ہے۔ یہ رکاوٹیں اکثر زوننگ قوانین، تکنیکی مسائل یا مقامی آبادی کی مخالفت کی آڑ میں سامنے آئیں، لیکن متعدد معاملات میں عدالتوں نے ان اقدامات کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔
مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں، چند نمایاں واقعات
1: نیوجرسی: برنارڈز ٹاؤن شپ
برنارڈز ٹاؤن شپ نے 2015 میں اسلامی سوسائٹی آف باسکنگ رج کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد تنظیم اور امریکی محکمہ انصاف نے ٹاؤن شپ پر مذہبی امتیاز کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹاؤن شپ نے دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ نتیجتاً، ٹاؤن شپ نے 3.25 ملین ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا اور مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔
2: ورجینیا: کلپیپر کاؤنٹی
کلپیپر کاؤنٹی نے 2016 میں اسلامی سینٹر آف کلپیپر کو مسجد کی تعمیر کے لیے ضروری سیوریج پرمٹ دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس سے قبل 20 برس میں 25 میں سے 24 ایسے پرمٹس منظور کیے جا چکے تھے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے کاؤنٹی کے فیصلے کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں مستحقین کے لیے جامع مسجد کا فری راشن اسٹور
3:مشی گن: اسٹرلنگ ہائٹس
اسٹرلنگ ہائٹس میں 2015 میں ایک مسجد کی تعمیر کی درخواست کو مقامی پلاننگ کمیشن نے مسترد کر دیا۔ سرکاری طور پر ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل کو وجہ بتایا گیا، لیکن عوامی اجلاسوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز بیانات سامنے آئے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔
4: مسسیپی: ہورن لیک
2021 میں ہورن لیک شہر نے ابراہیم ہاؤس آف گاڈ مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کیا، حالانکہ زمین عبادت گاہوں کے لیے مختص تھی اور درخواست تمام تقاضے پورے کرتی تھی۔ ایک مقامی عہدیدار نے کہا، اگر آپ انہیں تعمیر کی اجازت دیں گے، تو اور لوگ آئیں گے۔ امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔
5: ٹیکساس: پلانو میں EPIC سٹی منصوبہ
ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: چترال کے ریاستی دور کی شاہی مسجد جس کے 100 سال مکمل ہوگئے ہیں
قانونی چارہ جوئی اور مذہبی آزادی کا تحفظان واقعات کے بعد، عدالتوں نے اکثر انکار کے فیصلوں کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے بھی کئی معاملات میں مداخلت کی اور مقامی حکام کے خلاف مقدمات دائر کیے۔ ان فیصلوں نے یہ واضح کیا کہ مذہبی آزادی امریکی آئین کا بنیادی حق ہے، اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے روکنا غیر قانونی ہے۔
اگرچہ امریکا میں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ موجود ہے لیکن مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم، عدالتوں اور وفاقی اداروں کی مداخلت سے ان رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی میڈیا ٹیکساس ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی مسجد مسلمان نیوجرسی