اللہ نے بچایا ورنہ اس دفعہ بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا، شیخ حسینہ کا آڈیو بیان
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
NEW DELHI:
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ برس جولائی میں ان کی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور چھوٹی بہن کے ہمراہ بھارت منتقل ہونے سے متعلق کہا ہے کہ اللہ نے ہمیں بچایا ورنہ اس دفعہ بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مقیم بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم نے بنگالی زبان میں جاری آڈیو بیان میں کہا کہ اللہ کا شکرہے جس نے مجھے قتل ہونے سے بچایا۔
ماضی میں ان پر ہونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اللہ نے جان بچائی ہے شاید ان سے کوئی بڑا کام لیا جائے گا۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ ہم صرف 20 سے 25 منٹ کے فرق سے موت سے بچ گئے، میں 21 اگست، کوٹالی پاڑا بم حملہ اور 5 اگست 2024 کو بچ جانے کو سمجھتی ہوں، اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہے اور اللہ کا کرم ہے ورنہ اس دفعہ میرے پاس بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔
عوامی لیگ کی 77 سالہ سربراہ نے بنگلہ دیش میں اپنے سیاسی مخالفین پر ان کو قتل کرنے کی سازش کا الزام عائد کیا تاکہ ان کی آواز کو خاموش کرادیا جائے۔
کرپشن کیسز میں بنگلہ دیش میں مطلوب سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دنیا سیکھ چکی ہے کہ ان کے مخالفین نے کیسے ان کو قتل کرنے کی سازش کی لیکن وہ محفوظ رہیں اور انہیں یقین ہے کہ اللہ سے ان سے مزید کام لینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں بہت مشکل میں ہوں، میں اپنے ملک، گھر کے بغیر ہوں، سب کچھ راکھ ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد پر ماضی میں بھی حملے ہوئے تھے، جن میں 21 اگست 2004 کو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں پارٹی کی ریلی سے خطاب کر رہی تھی جہاں گرینیڈ حملہ ہوا تھا تاہم وہ بچ گئی تھیں لیکن 24 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
اس سے قبل 2000 میں بھی ان پر حملہ ہوا تھا جب وہ وزیراعظم تھیں اور کوٹالی پاڑا اوپازیلا ضلع گوپال گنج میں ریلی سے خطاب کرنا تھا اور اسٹیج سے 50 فٹ کے فاصلے پر پولیس نے 76 کلو وزنی بم برآمد کرلیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس بنگلہ دیش میں طلبہ کی قیادت میں عوامی تحریک نے ان کی حکومت کے خلاف تاریخی احتجاج کیا تھا اور اس کے نتیجے میں انہیں اپنے 16 سالہ اقتدار چھوڑ کر 5 اگست کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا اور بھارت میں جا کر مقیم ہوئیں جہاں وہ اس وقت بھی موجود ہیں۔
بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے شیخ حسینہ واجد کو آگاہ کیا تھا کہ وہ 45 منٹ تک اپنی سرکاری رہائش گاہ چھوڑ دیں کیونکہ مشتعل مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کی زندگی بھی خطرے میں ہیں۔
شیخ حسینہ ابتدائی طور پر قریب واقع فوجی ایئربیس منتقل ہوئی تھیں اور بعد میں ایئرفورس کے طیارے میں اپنی بہن ریحانہ شیخ کے ہمراہ بھارت چلی گئی تھیں۔
سابق وزیراعظم کی جانب سے سرکاری رہائش گاہ چھوڑنے کے تھوڑی ہی دیر بعد مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش پر دھاوا بول دیا تھا اور شیخ مجیب الرحمان کے میوزیم کو نذر آتش کردیا تھا۔
بنگلہ دیش میں نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کردی گئی ہے، جس کو ملک کی مسلح افواج کی حمایت حاصل ہے اور عبوری حکومت نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں کہ اللہ تھا اور کہا کہ
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
اُس خوش قدم نے بڑھ کے سنبھالی زمین تھی
دل اک عذابِ نوح میں ڈالی زمین تھی
اُس نے بدن پہ ریشمی ہونٹوں سے ہل چلائے
ورنہ یہ گلستان تو خالی زمین تھی
نکلا تھا یومِ ہجر کا سورج اور اُس کے بعد
بس سرخ آسمان تھا، کالی زمین تھی
اپنے وطن سی بات سکردو میں اب کہاں
لیکن یہ ہے کہ دیکھنے والی زمین تھی
دو بھائیوں کو پیار سے سینے لگا لیا
دونوں میں وجہِ جنگ بھی سالی زمین تھی
ہم نے غزل میں آگ بھری، دل جلا دیے
مضموں تھا عشق، آنکھ کی لالی زمین تھی
وہ تو زبیرؔ چوم لیے میں نے ماں کے پاؤں
جنت وگرنہ صرف خیالی زمین تھی
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)
...
غزل
ندیم شام کی ہوا اداس ہو گئی ہے کیا؟
گلی میں بیکسی کے ساتھ پھر وہ سو گئی ہے کیا
بڑے تپاک سے مجھے بھی مل رہے ہو راہ میں
خیال و خواب میں نحیف سوچ کھو گئی ہے کیا؟
کھڑے ہو یوں گلی میں جیسے کوئی جانتا نہیں
کسی کی آنکھ نور سا بدن بھگو گئی ہے کیا؟
میں جانتا ہوں جس کا منتظر ہے دوست اجنبی
نظر کا تیر جسم و جاں میں وہ چھبو گئی ہے کیا؟
مجھے یقین تو نہیں میں پھر بھی پوچھ لیتا ہوں
میں جیسا چاہتا تھا پھر وہ ویسی ہو گئی ہے کیا؟
تمھارے نظم و ضبط کا کوئی وسیلہ ہی نہیں
ندیم ؔـاس نگاہ میں یہ جاں سمو گئی ہے کیا؟
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)
...
غزل
پژمردگی میں ڈوبی بے جان زندگی کا
اشکوں نے لکھ دیا ہے عنوان زندگی کا
اب کیا بچا ہے جس کے کھونے سے ہم ڈریں گے
پہلے ہی کر چکے ہیں نقصان زندگی کا
اے بے خبر! خبر لے اپنے مریضِ غم کی
یہ مانتا ہے تجھ کو لقمان زندگی کا
جب سے دیا ہے اس نے ملنے کا اک اشارہ
بڑھنے لگا ہے تب سے امکان زندگی کا
اس نے گدا گری کی ہر حد عبور کر دی
جانا تھا جس کو ہم نے سلطان زندگی کا
غافل بنا ہوا ہے یہ جانتے ہوئے بھی
لے گا حساب تجھ سے رحمان زندگی کا
ازبر ہیں اس کو سارے مضمون عاشقی کے
بھولا ہوا ہے مقصد انسان زندگی کا
کس کی مجال لوٹے سانسوں کا یہ خزانہ
ہے موت کا فرشتہ نگران زندگی کا
تائبؔ ہنوز ہے وہ خود کی ہی جستجو میں
جو شخص پا چکا ہے عرفان زندگی کا
(رمضان تائب۔ قلعہ دیدار سنگھ)
...
غزل
کب تک سینے میں رکھے گا یہ اَسرار فقیر
دھوپ سہیں اورچھاؤں بانٹیں، سب اشجار فقیر
اُس وجدانی منظر میں ہے کچھ لمحوں کی دیر
جس کی خاطر چھوڑ کے آیا ہے گھربار فقیر
اُس کی آنکھیں کرتی ہیں بس اک چہرے کا ورد
اپنی ہستی سے کرتا ہے جب انکار فقیر
پتّوں سے شبنم ٹپکے اور پانی حمد پڑھے
جھوم رہا ہے قدرت کا سن کر ملہار فقیر
جب سے والضُحٰی کی صورت من میں آن بسی
روز بہ روز ہُوا جاتا ہے خوشبو دار فقیر
میں سوچوں کی گدڑی اوڑھے اپنے حال میں مست
شعر مرے مالا کے منکے اور افکار فقیر
اپنے من کی غار میں آصفؔ جا بسرام کرے
اِس دنیا سے ہو جاتا ہے جب بیزار فقیر
(یاسررضاآصفؔ ۔پاک پتن)
...
غزل
جو بات کرنے چلا تھا وہ بات بھول گیا
عجیب شخص ہے عمرِ حیات بھول گیا
تھکا تھکا سا بدن کام سے گھر آتے ہوئے
نظامِ غم میں سبھی خواہشات بھول گیا
کسی کے ترکِ تعلق کو دیکھ کر یکدم
دلِ تباہ ترے حادثات بھول گیا
شکستہ جسم کو اس کارگاہِ دنیا میں
ہوئی تھی کیسے یہاں مجھ سے مات بھول گیا
ہمارا عہدِ محبت تو یاد تھا اس کو
حریف وعدۂ وصلت کی رات بھول گیا
ستم تو یہ ہے مجھے یاد ہی نہیں آیا
لگائی کس نے یہاں مجھ پہ گھات بھول گیا
خدا کی اتنی بڑی کائنات میں وہ عمودؔ
تکلفات میں اپنی ہی ذات بھول گیا
(عمود ابرار احمد ۔کراچی)
...
غزل
اپنے دل و دماغ سے اس کو نکال کر
بیٹھے ہیں جان اپنی اذیت میں ڈال کر
وہ بھی خزانہ لٹ گیا ہے اس کی یاد میں
آنکھوں میں جس کو رکھا تھا میں نے سنبھال کر
رب کے علاوہ کام میں آتا نہیں کوئی
دیکھا ہے میں نے خود کو مصیبت میں ڈال کر
تجھ سے حسین کوئی نہیں ہے جہان میں
کل کائنات دیکھی ہے میں نے کھنگال کر
تیرے بغیر میرا نکلنے لگا ہے دم
اے یار میرے تھوڑا تو میرا خیال کر
مجبور تھا سو بیچ دیا اس ہنر سے آج
میں نے ہوا کو ایک غبارے میں ڈال کر
(محمد عامرسہیل پٹیل۔ موہالہ تعلقہ آکوٹ ، مہاراشٹر ،بھارت)
...
غزل
کسی کو دیکھ نہ پائے تھے پاس ہوتے ہوئے
ترے رجوع کی چاہت یا آس ہوتے ہوئے
اسی سہارے تھے زندہ اسے تو پالنا تھا
امید پل نہیں سکتی تھی یاس ہوتے ہوئے
ہزار رنگ ہیں میرے میں کوئی گرگٹ ہوں
میں خوش دکھائی دیا ہوں اداس ہوتے ہوئے
ہماری پیاس کا کیا ہے خدا بجھا دے گا
کسی کی پیاس بجھائیں گے پیاس ہوتے ہوئے
وہ آپ اپنی تباہی کا خواب دیکھ چکا
نہ دیکھ پاؤں گا جاناں کا ناس ہوتے ہوئے
مقام اس کا اسی میں ہے دب کے رہنا ہے
دبی رہے گی ہمیشہ اساس ہوتے ہوئے
وہ زہر تھے تو مجھے پھر مٹھاس کیسے لگے
وہ زہر لگتے ہیں کیسے مٹھاس ہوتے ہوئے
اترنا چاہا تو کانٹوں کا روپ دھار لیا
مرے لباس نے کیسے کپاس ہوتے ہوئے
حواس کھونا ضروری ہے عشق میں احسنؔ
کسی سے عشق نہ ہوگا حواس ہوتے ہوئے
(احسن خلیل احسن ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
...
غزل
آپ سے دل لگا لیا میں نے
گویا سب کچھ ہی پا لیا میں نے
صلح کرلی ہے بچوں کی خاطر
گھر اجڑتا، بسا لیا میں نے
کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں
دیکھ اُس کو منا لیا میں نے
میری ہمت کو داد تو دو یار
یہ بھی رشتہ، نبھا لیا میں نے
شاید اُس کو یقین آ جائے
خون اپنا، بہا لیا میں نے
سمجھا جانے لگا گِرا ہوا میں
خود کو اتنا جھکا لیا میں نے
سرپرستوں کی زندگی ہو بس
خواہشوں کو دبا لیا میں نے
جانے والا ٹھہر نہیں رہا دوست
ہر طرح آزما لیا میں نے
یہ نہیں دکھ، مری نہیں ہوئی وہ
دکھ ہے، خود کو تھکا لیا میں نے
(عمر فدا۔ؔ بہاولنگر)
...
غزل
اس آنکھ سے اب اتنی شناسائی تو ہے نا
محفل میں مجھے دیکھ کے شرمائی تو ہے نا
میں کاٹ نہیں سکتا ہوں تنہائی تو کیا ہے
مدت سے مجھے کاٹتی تنہائی تو ہے نا
بے خوف نکل سکتا ہوں میں دشت کی جانب
اپنا بھی علاقہ کوئی آبائی تو ہے نا
پچیس برس رہنا مرا زندہ سلامت
دنیائے جگر خور کی پسپائی تو ہے نا
ان غم زدہ لوگوں کو کسی طور ہنسانا
اک طرح کا یہ کارِ مسیحائی تو ہے نا
حیرت سے سہی اس نے مجھے دیکھ لیا ہے
اک لمحے کو دیوانگی کام آئی تو ہے نا
(عبید آکاش۔ گلگت)
...
غزل
چھینا جھپٹی نہ کر دل دیا ہے تجھے
اپنی مرضی نہ کر دل دیا ہے تجھے
میرے آگے کسی اور کو مت پکار
اے منادی نہ کر دل دیا ہے تجھے
پاس تو بیٹھ جا بات کر یا نہ کر
اتنی جلدی نہ کر دل دیا ہے تجھے
شان و شوکت پہ رتبے پہ مت کر غرور
شاہ زادی نہ کر دل دیا ہے تجھے
کچھ تو نرمی بھی اپنے روئے میں لا
اتنی سختی نہ کر دل دیا تجھے
گل کی تکلیف تھوڑی ہے کٹ جائے گی
آنکھ بھردی؟ نہ کر دل دیا ہے تجھے
(فاروق سلطان گل۔ گلگت)
...
غزل
دم توڑتی ہیں حسرتیں پل پل مرے دل میں
ہر لمحہ مچی رہتی ہے ہلچل مرے دل میں
اس کا کوئی حل ہے تو بتاؤ مجھے للہ
کرتا ہے کوئی شور مسلسل مرے دل میں
بے تاب و تواں ہوں تو کوئی وجہ بھی ہوگی
آباد ہے جذبات کا مقتل مرے دل میں
آزاد ہوں آزاد ہی رکھتا ہوں سبھی کو
رہتا ہے مگر کوئی مقفل مرے دل میں
کوشش تو بہت کی اسے ویران کروں پر
آباد رہا ہجر کا جنگل مرے دل میں
مخلوق کا ٹھکرایا ہوا شخص ہوں گر چہ
کھلتا ہے مگر اک گل مخمل مرے دل میں
کہتے ہیں کسے روشنی میں تجھ کو بتاؤں؟
خورشید جہاں تاب کبھی ڈھل مرے دل میں
(لئیق انصاری۔ ٹنڈو آدم)
...
غزل
سنو کہ بیٹھ کے دونوں کہیں پہ بات کریں
پر اس سے پہلے مراسم سے احتیاط کریں
تمہارے بعد یہ واجب ہوا ہے ہم پہ کہ ہم
خراب اپنا نظامِ سکونیات کریں
نظامِ دہر بھلا کر تمنا ہے دونوں
سکوں سے بیٹھ کے باتیں تمام رات کریں
علی نے جیت کے اعلاں کیا تھا آبِ فرات
یہ جچتا ہم پہ نہیں بندشِ فرات کریں
کوئی بھی نفع نہیں ہوگا مجھ پہ غیبت کا
اگر ہے مسئلہ کوئی تو منہ پہ بات کریں
سو کارِ عشق میں تقسیم کا جواز نہیں
لڑائی بھی کریں تو بس ہمارے ساتھ کریں
حسب نسب میں نہیں ہے حماز ؔیہ شامل
محبتوں میں کوئی کام واہیات کریں
(رانا حمزہ حماز۔ حافظ آباد)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی