لندن میں غزہ کے اسپتالوں کی تعمیر کے لیے غزہ کولامتعارف
اسرائیل کی طرف سے اسپتالوں کو نشانہ بنائے جانے کے سبب غزہ کی پٹی میں صحت کا شعبہ مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔اس سلسلے میں 43 سالہ فلسطینی اسامہ قشوع نے لندن میںکولا غزہ کے نام سے مشروب متعارف کرایا اور امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ کوکا کولا کے اس متبادل سے ملنے والے منافع کو غزہ پٹی کے شمال میں واقع الکرامہ اسپتال کی تعمیر نو پر خرچ کریں گے۔ الکرامہ اسپتال کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فلسطینی نے بتایا کہ یہ نسبتا چھوٹا اسپتال ہے جس کو چلانا آسان ہے اور اس پر زیادہ لاگت نہیں آئے گی۔
اسرائیلی فوج نے شہید بچوں سمیت 3 افراد کی لاشیں واپس کردیں
اسرائیلی حکام نے شمالی مغربی کنارے میں طوباس کے جنوب میں واقع قصبے طمون کے شہدا کے جسد خاکی ان کے ورثا کے حوالے کردیے۔ ان تینوں کو قابض فوج نے ڈرون کے ذریعے میزائل فائر کرکے شہید کردیا تھا اور اس کے بعد ان کی لاشیں قبضے میں لے لی تھیں۔ فلسطینی ہلال احمر نے ایک مختصربیان میں کہا کہ طوباس میں اس کے عملے نے شمالی وادی اردن میں تیاسر چوکی سے 3شہدا کی لاشیں وصول کیں۔ شہدا میں 8 اور 10 سال کے دوبچوں اور ایک 23 سالہ نوجوان کی لاش ہے۔ ہلال احمر نے بتایا کہ شہدا کو طوباس کے ترک اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔قابض فوج نے 8سالہ رضا علی بشارات اور حمزہ عمار بشارات کے علاوہ 23 سالہ آدم خیرالدین بشارات کو طوباس کے جنوب میں واقع قصبے طمون میں ڈرون سے نشانہ بنا کر شہید کردیا تھا۔ طوباس اور شمالی وادی اردن کے گورنر احمد الاسعد نے بچوں سمیت تین افراد کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کو جنگی جرم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان بچوں کو بے گناہ قتل کیا گیا۔ یہ ایک سنگین جرم ہے۔مجرم صہیونی فوج نے اس کے بعد ان کی لاشیں بھی چھین لی تھیں۔
ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد غزہ پر قبضہ کریں گے‘صہیونی رہنما
نام نہاد اسرائیلی ریاست کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے دھمکی دی ہے کہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرلے گا۔ سموٹریچ نے کہا کہ 21 جنوری کو غزہ میں فوجی دباؤ مضبوط ہو گا۔ امداد کے داخلے یا کسی کے غزہ سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا بلکہ علاقوں پرہمارا قبضہ ہو گا۔ ہمیں شہری ذمے داری نبھاتے ہوئے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ انتہا پسند اسرائیلی وزیر نے مزید کہا کہ حماس پر فوجی دباؤ بڑھایا جائے گا، اور ہم طویل عرصے تک غزہ میں موجود رہیں گے۔ سموٹریچ نے گزشتہ برس نومبر میں بھی غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اس کی نصف آبادی کو 2سال کے اندر بے گھر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔سموٹریچ نے اس وقت کہا تھا کہ اسرائیل کو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ ایک موقع ملا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے ہجرت کی حوصلہ افزائی کرے۔
شمالی غزہ میں گھات لگا کر کیے گئے حملے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک
اسرائیلی میڈیا نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ لڑائی میں 4 فوجی ہلاک اور 7 زخمی ہوگئے۔ صہیونی فوجیوں کو شمالی غزہ کی پٹی میں بیت حانون کے علاقے میں مارا گیا اور فلسطینی مجاہدین نے پیادہ فوج اور ٹینکوں کو بارودی آلات سے اڑا دیا۔ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ فوجیوں کو مقبوضہ بیت المقدس کے شعارز زیڈک میڈیکل سینٹر منتقل کیا گیا ۔ ادھر اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے کہا ہے کہ اس نے شمالی غزہ کی پٹی میں قابض فوج کو نشانہ بنانے کے لیے ایک حملے کا منصوبہ بنایا تھا،جس میں مرکاوا ٹینک کو یٰسین 105 گولے سے نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ ایک مکان میں قابض فوج کو 105 اینٹی پرسنل شیل سے نشانہ بنایا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی لاشیں قابض فوج فوج نے
پڑھیں:
فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (چھٹا اور آخری حصہ)
اب سے دو روز قبل ( چوبیس اکتوبر ) ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے عالمی دن کے موقع پر پولینڈ میں آشوٹز کنسنٹریشن کیمپ میں ہزاروں لوگوں نے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان مظاہرین میں اکثریت اسی برس قبل ہالوکاسٹ میں بچ جانے والے یہودیوں کی نئی پود کی تھی۔بیشتر کے ہاتھوں میں اسرائیلی پرچم تھے۔مگر ان نوجوانوں کے ہمراہ یہ بے حس بے خبری بھی چل رہی تھی کہ ان کے جو پرکھے نازیوں کے نسل کش کیمپوں سے زندہ بچ کے فلسطین پہنچے انھوں نے وہاں کی مقامی آبادی کو اپنی زمین سے اکھاڑنے اور وجود مٹانے کے لیے لگ بھگ وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو نازیوں نے ان کے ساتھ برتے تھے۔
جس طرح آج کی اسرائیلی پود نے غزہ کے کنسنٹریشن کیمپ پر پیاس ، بھوک اور موت برسائی ہے۔بالکل اسی طرح انیس سو بیالیس تینتالیس میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے یہودی محلوں کا محاصرہ کر کے نازیوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
مگر ہیروشیما ناگاساکی کی جوہری تباہی سے جاپانیوں نے جس طرح امن کا سبق سیکھا اور خود کو ایک توسیع پسند جنگجو قوم سے انسانیت کی پرچارک قوم میں بدلا۔اس کے عین برعکس ہٹلر کے ہالوکاسٹ کیمپوں میں بچ جانے والوں اور ان کی اگلی نسلوں نے نسل کشی کے تجربے سے انسانیت سے بلاامتیاز محبت کا سبق سیکھنے کے بجائے ہٹلری ہتھکنڈوں کو مزید جدید اور بھیانک بنا کر موجودہ مرحلے تک پہنچا دیا۔
ہٹلر میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ اس نے نسل کش کیمپوں میں لاکھوں انسانوں کے قتل کو مشتہر کرنے کے بجائے جرمنوں کی اکثریت اور باقی دنیا سے اس خونی ڈرامے کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔مگر اس کے صیہونی وارث اپنی ایک ایک نسل کش حرکت کو فخریہ انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے جشن کی شکل دے رہے ہیں۔ہٹلر کے مظالم پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے ممالک آج کے ہٹلری ہتھکنڈوں کو اسرائیلیوں کا حق ِ دفاع قرار دے رہے ہیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل ریاستی حقِ دفاع کے نام پر ’’ دھشت گردی ‘‘ کا قلع قمع کر رہا ہے مگر آٹھ دہائی قبل وارسا کے یہودی نازی قبضے کے خلاف جو مزاحمت کر رہے تھے وہ جبر کے خلاف دلیرانہ بغاوت کے نام پر ہر سال منائی جاتی ہے۔
وارسا کی نازی مخالف مسلح یہودی بغاوت انیس اپریل تا سولہ مئی انیس سو تینتالیس (انتیس دن) جاری رہی۔ اس مختصر سی بغاوت کی قیادت دو مقامی صیہونی گروہوں نے کی۔ان کے پاس چند اسمگلڈ رائفلیں ، دو چار درجن چھینے گئے گرینیڈ ، آتش گیر مادے سے بھری چند سو بوتلیں (مالوٹوف کاک ٹیل ) ڈنڈے اور سریے تھے۔
وارسا گھیٹو کہلائی جانے والی یہ آبادی مشرقی یورپ کی سب سے گنجان یہودی بستی تھی۔آٹھ سو تیس ایکڑ رقبے میں چار لاکھ انسان ٹھنسے ہوئے تھے۔یعنی فی کمرہ ساڑھے سات نفوس۔جولائی تا ستمبر انیس سو بیالیس نازی انتظامیہ نے روزانہ اس بستی سے سات ہزار یہودیوں کو صبح اور شام کی دو ٹرینوں میں بھر کے اسی کیلومیٹر دور قائم تریبلانکا نسل کش کیمپ کو روانہ کیا۔ان تین ماہ میں لگ بھگ پونے تین لاکھ مکینوں کو جبری طور پر موت کے سفر پر بھیجا گیا۔
ابتدا میں ان باشندوں کو یہ کہہ کر ٹرین میں سوار کروایا جاتا کہ انھیں ایک نئی جگہ بہتر زندگی گذارنے کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ زادِ راہ کے طور پر ہر کنبے کو خوراک کا تھیلا بھی دیا جاتا۔مگر بستی بدری کا سلسلہ شروع ہونے کے چند ہفتے بعد ہی یہاں کے مکینوں کو اندازہ ہو گیا کہ انھیں دوبارہ آبادکاری کے بہانے موت کے کیمپوں میں بھیجا جا رہا ہے۔اس شبہے کی ٹھوس بنیاد یہ تھی کہ روانہ ہونے والوں کا پیچھے رہ جانے والوں سے کبھی بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔
چنانچہ وارسا گھیٹو کے رہائشیوں نے ٹرینوں میں سوار ہونے سے انکار کرنا شروع کر دیا۔مگر اس بستی کے مکینوں پر ہی مشتمل مقامی پولیس کو نازیوں نے یہ کام سونپا کہ روزانہ اتنے باشندے جمع کر کے روانہ کرنے میں مدد دے۔ ورنہ انھیں بھی ٹرین میں بٹھا دیا جائے گا۔
جنوری انیس سو تینتالیس تک جب یہ گھیٹو آدھے سے زیادہ خالی کروا لیا گیا تو مکینوں نے نازی اہلکاروں اور ان کی ایجنٹ مقامی پولیس کے خلاف ہفتے بھر کی بھرپور مزاحمت کی اور چند دنوں تک ان کی منتقلی کا کام معطل ہو گیا۔اس دوران مقامی یہودیوں نے خود کو بچانے کے لیے اپنے تئیں حفاظتی باڑھیں بنانے اور حملے کی صورت میں چھپنے کا انتظام شروع کر دیا۔ ان کے پولینڈ کی زیرِ زمین قومی مزاحمتی تحریکوں سے روابط استوار ہوئے اور چھوٹا موٹا اسلحہ بھی اسمگل ہو کر اندر آنے لگا۔
انیس اپریل انیس سو تینتالیس کو وارسا گھیٹو میں بغاوتِ عام شروع ہو گئی۔مکینوں نے اپنی ہی برادری کے چند غدار پولیس اہلکاروں اور مخبروں کو ٹھکانے لگا دیا۔ان کی مدد کو بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پر سوار نازی دستے آئے تو انھیں بھی آتشگیر مادے سے بھری بوتلیں پھینک کے اندر آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔مگر مقابلہ برابری کا نہیں تھا۔
نازیوں نے بستی پر بمباری کی۔گھروں کو ترتیب وار نذرِ آتش کرنا شروع کیا۔انڈر گراونڈڈ سیوریج پائپوں میں پناہ لینے والے انسانوں کو باہر نکالنے کے لیے دھوئیں کے بم اور دستی بم بے دریغ پھینکے گئے۔اس کے باوجود بغاوت پر قابو پانے میں انتیس دن لگ گئے۔
ان انتیس دنوں میں بستی کے تیرہ ہزار مکین مارے گئے۔ایک سو دس جرمن فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔وارسا گھیٹو کی بغاوت نازی مقبوضہ یورپ میں پہلی بڑی شہری مزاحمت تھی۔اس سے حوصلہ پا کر اگلے برس وارسا کا پورا شہر نازیوں کے خلاف کئی ہفتے ڈٹا رہا۔
یہودی بستی کو بلڈوزروں سے زمیں بوس کرنے کے بعد وہاں زندہ بچ جانے والے لگ بھگ پچاس ہزار جوانوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو تریبلانکا اور آشوٹز منتقل کر کے گیس چیمبرز میں بھیج دیا گیا۔
اگر آپ وارسا گھیٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دیکھیں تو لگتا ہے گویا آج کے غزہ کی تصاویر ہیں۔نازی تو تاریخ کے ہاتھوں ختم ہو گئے مگر ان کی بھٹکی ہوئی ارواح نے آسانی سے قالب بدل لیا اور وہ آج تک آشوٹز ، وارسا اور تریبلانکا سے بہت دور فلسطین میں رقصاں ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)