یہ کہانی وفا، قربانی اور امید کی ہے، مگر آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار المیے دفن ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا حصہ بن گئے، مگر کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو وقت کے دھارے میں بہنے کے باوجود اپنی تکمیل کے لیے زندہ رہتی ہیں۔ پاکستان کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے، جس کا ایک اہم باب آج بھی مکمل ہونے کا منتظر ہے۔ یہ باب بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کا ہے، وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور سب کچھ قربان کر دیا، مگر بدقسمتی سے آج بھی وہ انصاف کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ان کی داستان سلیم منصور خالد کی کتاب ’’البدر‘‘ میں محفوظ ہے۔ آج جب البدر اور الشمس کی قربانیوں کے بارے میں خواجہ آصف جیسے ان پڑھ لوگ بات کرتے ہیں تو دل پریشان ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے سہارا ملتا ہے کہ جو بندہ ہمارے برصغیر کے ہیرو کو ڈاکو سمجھتا ہیں تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
یہ کہانی صرف ظلم اور محرومی کی نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کی وفا اور قربانی کی گواہی بھی دیتی ہے جنہوں نے 1971 میں پاکستان کے وقار کی حفاظت کی۔ وہ لوگ جو مکتی باہنی اور بھارتی جارحیت کے سامنے سینہ سپر رہے اور اپنے عزم سے یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان سے محبت کرنے والے حقیقی محب وطن ہیں۔ لیکن آج وہی لوگ بنگلا دیش کے مختلف کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی قربانیاں بے وقعت تھیں؟
پاکستان کی فوج اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ان محصور پاکستانیوں کو واپس لائے اور انہیں اس وطن کی آغوش میں لے، جس کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ 1971 کے المیے کے بعد، یہ لوگ بنگلا دیش میں بے یار و مددگار رہ گئے اور آج تک پاکستان کی ریاست کی جانب سے عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ پاکستان کے آئین اور قومی ضمیر کا تقاضا ہے کہ ان محصور پاکستانیوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ یہ نہ صرف ان کی قربانیوں کا اعتراف ہوگا بلکہ ہمارے قومی وجود کے لیے بھی ضروری ہے۔ سعودی عرب میں، کمیونٹی کے پلیٹ فارمز کے ذریعے ہم نے ان محصور پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ احتشام نظامی کی قیادت میں انجینئر احسان الحق، مسرت خلیل، اور حامد خان جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے ان کی حالت زار کو اُجاگر کیا۔ سعودی عرب میں کئی تقریبات اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں پاکستان کی سالمیت اور ان محصور پاکستانیوں کی واپسی پر زور دیا گیا۔
پاکستان کے معروف صحافی الطاف حسن قریشی صاحب کی خدمات اس حوالے سے ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی کتاب ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک خزانہ ہے۔ جدہ میں ان سے ملاقات کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ ان کی رہنمائی ہمیشہ اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ایک صحافی کا اصل کام حقائق کو اُجاگر کرنا اور قوم کی رہنمائی کرنا ہے۔ پاکستان کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو ان کے گھروں میں واپس نہیں لایا جاتا۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے جو ریاست، حکومت، اور عوام سب کو مل کر ادا کرنا ہوگا۔’’یہ کہانی ادھوری ہے، مگر ہمیں یقین ہے کہ ایک دن یہ مکمل ہوگی‘‘۔ اور الطاف حسن قریشی کی کتاب جلد میں منظر عام پر آتے دیکھ رہا ہوں جس کا عنوان ہوگا ’’میں نے آئین کا مذاق اُڑتے دیکھا‘‘، اگر ہم نے انصاف کیا ہوتا تو 1970 کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہوتا تو شاید پاکستان بچ جاتا میں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگ صرف مجیب الرحمن کو غدار کہتے ہیں لیکن یحییٰ خان اور بھٹو کو کسی صورت مورد الزام نہیں ٹھیراتے حالانکہ یہ ٹرائیکا اگر نہ ہوتی تو پاکستان کبھی بھی نہ ٹوٹتا شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
چوبیس برس کی فرد عمل
ہر گھر زخمی ہر گھر مقتل ہے
ارض وطن تیرے غم کی قسم
تیرے دشمن ہم تیرے قاتل ہم
جناب الطاف حسن قریشی کے وہ نہار فرزند انجینئر کامران کے نام اس درخواست کے ساتھ کہ قریشی صاحب کی نئے آنے والی کتاب کا جو میں نے عنوان تجویز کیا ہے وہ کتاب مکمل کرائیں اور یہ آج کا دن بھی ایک چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف سے بیٹ چھین لیا تھا 71 میں کی گئی غلطیاں جن کی سزا ہمیں مشرقی پاکستان میں ملی اللہ نہ کرے کہ یہ جو جرم عدلیہ اسٹیبلشمنٹ اور فارم 47 پہ جیتنے والے لوگ کر رہے ہیں اللہ نہ کرے اسی طرح کی سزا ہمیں ملے ابھی بھی وقت ہے کہ بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لایا جائے اور چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لا کر غلطیوں کی تلافی کی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ان محصور پاکستانیوں محصور پاکستانیوں کو بنگلا دیش میں پاکستان کی ا ج بھی کے لیے
پڑھیں:
شاہ محمود قریشی کی پارٹی کے سابق رہنمائوں سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے جمعہ کو لاہور میں پارٹی کے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
ذرائع نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی پرانی قیادت ریلیز عمران خان تحریک چلانے کے لیے تیار ہیں، تحریک میں فواد چوہدری، عمران اسماعیل ،علی زیدی ، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنما موجود ہوںگے۔
ذرائع نے کہا کہ سابق قیادت نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اہم فیصلے کیے، پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے اسٹبلشمنٹ سے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کا فیصلہ کیا گیا، عمران خان سے ملاقات بھی کی جائے گی، پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت شاہ محمود قریشی کی رہائی کے لیے بھی سرگرم ہے۔
ذرائع نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے شاہ محمود قریشی کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی کو تمام تر معاملات کو حل اور درست کرنے کے کردار ادا کرنے پر گفتگو ہوئی۔
سابقہ قیادت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کو باہر نہیں نکال سکتی، سابقہ قیادت نے سابق سینیٹر اعجاز چوہدری، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملاقات کی، ملاقات کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔