Nai Baat:
2025-04-26@03:52:48 GMT

رشوت، کرپشن، جعل سازی

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

رشوت، کرپشن، جعل سازی

یہ حقیقت ہی ہے کہ بہترین ایماندار وہ نہیں جس کو کبھی بے ایمانی کا موقع ہی نہ ملاہو۔یا اس کے سامنے کبھی دونمبری کی چوائس ہی نہ آئی ہو ۔اس کو کبھی گناہ کا موقع ہی نہ ملا ہواور خود کو ولی اللہ کہتا پھرے۔ایمان کی معراج پر خود کو فائز کرتا پھرے۔اس دنیا میں تو اصل ایماندار وہ ہے جس کے سامنے مال و دولت پڑا ہو ۔بے ایمانی کا مال پیش کیا جارہا ہو اور وہ اس سے منہ پھیر لے۔ چھوٹی سی کہانی تھی ا س کا عنوان تھا ’’غار کاپتھر‘‘اس میں تین لوگ ایک غارمیں پناہ لیتے ہیں تو ایک پتھر آکر اس غار کا منہ بند کردیتا ہے وہ تینوں غار کے اندر قید ہوجاتے ہیں۔وہ اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور فیصلہ ہوتاہے کہ سب اپنے اپنے اچھے اعمال کو یاد کرکے اللہ کے حضور پیش کریں گے ۔
پہلے دو دوستوں سے اپنے نیک اعمال کو یاد کیا لیکن غار کا پتھر اسی حالت میں منہ پر موجود رہا۔پھر تیسرے دوست کی باری آئی تو اس نے ماضی کی ایسی نیکی یاد کی جس میں ایک دن وہ اکیلا تھا ۔اس کے سامنے ایک خاتون تھی ۔اس کوگناہ سے روکنا والا کوئی بھی نہیں تھا اس کے پاس چوائس تھی۔موقع تھا لیکن عین موقع پر خوف خدا غالب آگیا اور اس نے وہ گناہ جو وہ کرنے کی سکت اور قدرت رکھتا تھا وہ ترک کردیا۔وہ اپنی اس نیکی کو یا د کرکے اللہ سے مخاطب ہواتو غار کے دہانے سے وہ بھاری بھرکم پتھر خود بخود ہٹا اور راستہ کھل گیا۔

جناب عمران خان صاحب کو جمعہ کے روز سزا ہوئی تو پتہ نہیں کیوں میرے شعور اور لاشعور میں ان کا یہ جملہ گونجنے لگا کہ ’’مجھے تو اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا،مجھے تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ میں تو آپ عوام کے لیے میدان میں آیا ہوں‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ باقی مشہور لوگوں کی طرح عمران خان کو بھی کبھی خود کسی کام دھندے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس کا خرچہ پانی دوست اٹھالیتے تھے۔بلکہ ان کے بارے تو مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی جیت میں بٹوہ بھی نہیں رکھا ۔بلکہ شاید کبھی جیب ہی نہیں لگوائی کہ اس کو ہر وقت کوئی نہ کوئی جیب میسر رہی یہاں تک کہ سیاست میں اے ٹی ایمزقطار اندرقطار موجود رہیں۔ جب ان کو اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا تو پھر وہ امتحان کے وقت ناکام کیوں ہوگئے؟ وہ حکمران بنے تو دوسرے ملکوں کے بادشاہوں سے واسطہ پڑا دستور دنیا کے مطابق مال ودولت اور تحفے تحائف ملنا معمول کی بات تھی لیکن اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا تو پھر توشہ خانہ لینے کی تڑپ،ہوس اورلالچ کیوں اور کہاں سے آگیا؟۔

بات توشہ خانہ پر ہی رکی ہتی تو شاید بچت ہوجاتی کہ ان کا ذاتی لالچ تھا انسان ہونے کے ناطے کمی کوتاہی ہوجاتی ہے لیکن بات اس ریاست تک کھینچ لائے جس کے وہ حکمران تھے۔جس کا امین ان کو بناکر بٹھایا گیا تھا۔وہ پیسا جس کے وہ خود امین تھے وہ پیسا اس ریاست پاکستان کی تجوری میں آنا تھا لیکن انہوںنے دھوکا دہی، ساز باز ،جعل سازی کرکے وہ پیسا اس چور کو واپس کردیا جس نے چوری کیا تھا؟اور ہر بات میں ’’اسلامی ٹچ‘‘ والے وزیراعظم نے بدلے میں سیکڑوں کنال زمین لے کر اس پرٹرسٹ بنادیا؟ کمال ہے بھائی۔سوچتا ہوں۔ جب توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے لیے زمین لے رہے ہوں تو کیا خان صاحب نے سوچا ہوگا کہ وہ عوام کو کہتے ہیں کہ ’’مجھے تو اللہ نے سب کچھ دے رکھا تھا۔میں تو آپ کے لیے مشکلیں کاٹ رہا ہوں؟۔ ملک ریاض سے رشوت میں زمین لینے کا کوئی پی ٹی آئی والا بھی دفاع نہیں کررہا یا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ سیاسی اور پارٹی کابیانیہ اپنی جگہ کہ مجبوری ہے لیکن اصل میں اندر سے سب تھوتھو کررہے ہیں کہ یونیورسٹی ہی بنانی تھی تو سرکاری بنادیتے ۔عوام کو کہتے وہ چندہ دے دیتے اس طرح رشوت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ چوری کے پیسے سے مسجد بنانے کی کیا ضرورت تھی؟عبید بھٹی ہمارے دوست ہیں ۔ صحافی بھی ہیں ۔یوٹیوبر بھی اور جناب عمران خان صاحب کا دفاع بھی ہمہ وقت کرتے ہیں ۔انہوں نے اس فیصلے کے بعد ایک پوسٹ کی آپ بھی پڑھیے۔

’’خان صاحب نے جہاں اتنے سبق سیکھے ہیں ایک مزید سہی، کہ بدنام بندے سے چندہ زکات صدقات لینا بھی خود کو رسوا کرنے اور گناہ جیسا کام ہی ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے لیے زمین کسی پراپرٹی ڈیلر سے لینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ عوام کو کہتے وہ عطیہ کر دیتی، لوگ اربوں کا چندہ دے دیتے۔ آپ خود کہتے رہے ہیں کہ وہ پلاٹس بانٹ کر وفاداریاں خریدنے کا کاروبار کرتا ہے۔

اسی طرح آپکو توشہ خانہ سے تحفے لینے ہی نہیں چاہئیں تھے، کبھی بھی نہیں۔ متعلقہ محکمہ انکو نیلام کرتا چولہے میں ڈالتا جو مرضی کرتا، آپکو نہیں لینے چاہیے تھے خواہ قیمت آدھی بھری، پونی یا پوری، بیچنا تو بہت دور رہ گیا۔ آپ جناب کی ساری زندگی گواہ ہے کہ ’’گہنے گٹوں ‘‘کا آپکو نہ کبھی شوق رہا ہے نہ لالچ، آپ تو گھڑی تک پہننے کا شوق نہیں رکھتے ہیں، ہیرے جڑے گہنے گٹے کف لنک پین تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کس کے شوق کی کارستانی ہے جس کو آپ بھگت رہے ہیں، بھاری قیمت چکا رہے ہیں، لیکن اس میں بھی آپکے لیے بہت بڑا اور ناقابل فراموش سبق ہے۔ ہم تو آپکو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بات نہیں بڑے ہوکر سیکھ جائیں گے کہ آپ نے مزید کیا بڑا ہونا ہے۔

ویسے آپ کوکوئی مشورہ دینا یا تنقید کرنا بھی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اور آپ کے ’’جانثار عشاق‘‘ کا خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ وہ بھی جھنڈ در جھنڈ حملہ آور ہو کر صفیں اکھاڑنے لگتے ہیں، ان کا بھی کوئی قصور نہیں، وہ بھی آپکی کرشماتی شخصیت سے عشق رکھتے ہیں تو دھیان سارا آپکو ہی رکھنا ہے، ساری ذمہ واری آپ پر آتی ہے۔ بطور رہنما، لیڈر اور عوامی ہیرو آپکو ہر طرح کی گندگی کے چھینٹوں سے بچنا ہے، راستے میں بکھرے کانٹوں سے بچ کر چلنا ہے کہ کوئی زخم تو کیا خراش تک نہ آسکے۔جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ فتنے کانٹوں کی طرح بکھرے ہیں اور مومن کی ذمہ داری ان سے بچ کر نکلنا ہے۔حدیث پاک ﷺ کا مفہوم ہے کہ خوشبو والے کے پاس بیٹھو گے تو کم سے کم تر فائدہ مفت کی خوشبو سونگھنے کو ملے گی اور ترکھان کے پاس بیٹھو گے تو اسکی بھٹی سے نکلنے والی چنگاریاں کپڑوں میں سوراخ کر دیں گی یا کالا دھواں پھیپھڑوں کو زہر آلود کرتا رہیگا۔

عام انسان کی خطاوں غلطیوں اور لغزشوں کا نقصان صرف اسکی ذات یا اہلخانہ کو ہوسکتا ہے لیکن حکمران کی خطا غلطی اور لغزش پوری ریاست اور عوام کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔امید واثق ہے کہ عمران خان اپنی اسیری کے دوران اپنی خود احتسابی کر چکے ہوں گے اور آئندہ ایسی غلطیاں اور خطائیں نہیں دہرائیں گے‘‘۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اللہ نے سب کچھ دے توشہ خانہ بھی نہیں ہی نہیں رہے ہیں عوام کو کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر

دعا ایک ایسی روحانی طاقت ہے جو ہر مذہب، ہر دور اور ہر دل کی گہرائیوں میں زندہ ہے۔ چاہے انسان کسی دین سے ہو، کسی خطے سے ہو، جب دل بیقرار ہوتا ہے، زبان سے نکلا ہوا ایک سادہ لفظ ’’اے خدا!‘‘ پورے آسمان کو ہلا دیتا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، احادیثِ نبویہ، رومی کی تعلیمات اور آج کے سائنسدان سب اس امر پر متفق ہیں کہ دعا میں ایک غیر مرئی طاقت ہے جو انسان کی روح، جسم اور کائنات کے ساتھ گہرے تعلقات پیدا کرتی ہے۔
-1 دعا قرآن کی روشنی میں:قرآن کریم دعا کو عبادت کی روح قرار دیتا ہے:’’وقال ربکم ادعونِی استجِب لکم(سورۃ غافر: 60)’’ اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
واِذا سالک عِبادِی عنیِ فاِنیِ قرِیب (سورۃ البقرہ: 186)
’’جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ) میں قریب ہوں۔‘‘
-2 احادیث کی روشنی میں:حضرت محمدﷺ نے فرمایا:’’الدعا ء ھو العِبادۃ‘‘ (ترمذی) دعا ہی عبادت ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا، اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔(ترمذی)
-3 تورات اور بائبل میں دعا:تورات میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعائوں کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، خصوصاً جب وہ بنی اسرائیل کے لیے بارش یا رہنمائی مانگتے ہیں۔بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں:مانگو، تمہیں دیا جائے گا؛ تلاش کرو، تم پا ئوگے؛ دروازہ کھٹکھٹا، تمہارے لیے کھولا جائے گا۔(متی 7:7)
-4 مولانا رومی کا نکتہ نظر:مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا وہ پل ہے جو بندے کو معشوقِ حقیقی سے جوڑتا ہے۔ایک اور مقام پر کہتے ہیں:تم دعا کرو، تم خاموشی میں بھی پکارو گے تو محبوب سنے گا، کیونکہ وہ دلوں کی آواز سنتا ہے، نہ کہ صرف الفاظ۔
-5 سائنسی اور طبی تحقیقات:جدید سائنسی تحقیقات بھی دعا کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں: ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک تحقیق کے مطابق، دعا اور مراقبہ دل کی دھڑکن کو کم کرتے ہیں، دماغی سکون پیدا کرتے ہیں اور قوتِ مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔
ڈاکٹر لاری دوسے ، جو کہ ایک معروف امریکی ڈاکٹر ہیں، نے کہا:میں نے اپنی میڈیکل پریکٹس میں ایسے مریض دیکھے ہیں جو صرف دعا کی طاقت سے بہتر ہو گئے، جب کہ دوا کام نہ کر رہی تھی۔
ڈاکٹر ہربرٹ بینسن کے مطابق‘ دعا جسم میں ریلیکسیشن رسپانس پیدا کرتی ہے، جو ذہنی دبائو، ہائی بلڈ پریشر، اور بے خوابی کا علاج بن سکتی ہے۔
-6 دعا کی روحانی قوت اور موجودہ دنیا: آج جب دنیا مادی ترقی کی دوڑ میں الجھی ہوئی ہے، انسان کا باطن پیاسا ہے۔ دعا وہ چشمہ ہے جو انسان کی روح کو سیراب کرتا ہے۔ یہ دل کی صدا ہے جو آسمانوں تک پہنچتی ہے۔ دعا صرف مانگنے کا نام نہیں، بلکہ ایک تعلق، ایک راستہ، ایک محبت ہے رب کے ساتھ۔
دعا ایک معجزہ ہے جو خاموشی سے ہماری دنیا کو بدل سکتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نہ صرف بیماریوں کا علاج ہے، بلکہ تنہائی، خوف، بے سکونی اور بے مقصد زندگی کا حل بھی ہے۔ اگر انسان اپنے دل سے اللہ کو پکارے، تو وہ سنتا ہے، اور جب وہ سنتا ہے، تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔
دعا ایک تحفہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں اور دعا کا تحفہ دوسروں کو دے کر اس کا اجروثواب بھی حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دعا حضور قلب و ذہن سے روح توانائی سے کی جائے یعنی پوری توجہ اور اللہ پر کامل توکل کے ساتھ کی جائے۔ دعا پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے ۔ اللہ ہمیں قلب و روح گہرائیوں سے دعا کرنے کی سمجھ اور توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے کو یہ عظیم اور مقدس تحفہ بانٹے رہیں۔
اے اللہ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری دعائیں قبول فرما اور ہمیں مستجاب دعا بنا ۔ یا سمیع الدعاء

متعلقہ مضامین

  • ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت
  • سونے کی قیمتوں نے چھین لیا روزگار : کراچی میں زیورات سازی کا بحران شدت اختیار کرگیا
  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار، کمیٹیوں میں عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں، محمد احمد خان
  • تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ