یہ حقیقت ہی ہے کہ بہترین ایماندار وہ نہیں جس کو کبھی بے ایمانی کا موقع ہی نہ ملاہو۔یا اس کے سامنے کبھی دونمبری کی چوائس ہی نہ آئی ہو ۔اس کو کبھی گناہ کا موقع ہی نہ ملا ہواور خود کو ولی اللہ کہتا پھرے۔ایمان کی معراج پر خود کو فائز کرتا پھرے۔اس دنیا میں تو اصل ایماندار وہ ہے جس کے سامنے مال و دولت پڑا ہو ۔بے ایمانی کا مال پیش کیا جارہا ہو اور وہ اس سے منہ پھیر لے۔ چھوٹی سی کہانی تھی ا س کا عنوان تھا ’’غار کاپتھر‘‘اس میں تین لوگ ایک غارمیں پناہ لیتے ہیں تو ایک پتھر آکر اس غار کا منہ بند کردیتا ہے وہ تینوں غار کے اندر قید ہوجاتے ہیں۔وہ اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور فیصلہ ہوتاہے کہ سب اپنے اپنے اچھے اعمال کو یاد کرکے اللہ کے حضور پیش کریں گے ۔
پہلے دو دوستوں سے اپنے نیک اعمال کو یاد کیا لیکن غار کا پتھر اسی حالت میں منہ پر موجود رہا۔پھر تیسرے دوست کی باری آئی تو اس نے ماضی کی ایسی نیکی یاد کی جس میں ایک دن وہ اکیلا تھا ۔اس کے سامنے ایک خاتون تھی ۔اس کوگناہ سے روکنا والا کوئی بھی نہیں تھا اس کے پاس چوائس تھی۔موقع تھا لیکن عین موقع پر خوف خدا غالب آگیا اور اس نے وہ گناہ جو وہ کرنے کی سکت اور قدرت رکھتا تھا وہ ترک کردیا۔وہ اپنی اس نیکی کو یا د کرکے اللہ سے مخاطب ہواتو غار کے دہانے سے وہ بھاری بھرکم پتھر خود بخود ہٹا اور راستہ کھل گیا۔
جناب عمران خان صاحب کو جمعہ کے روز سزا ہوئی تو پتہ نہیں کیوں میرے شعور اور لاشعور میں ان کا یہ جملہ گونجنے لگا کہ ’’مجھے تو اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا،مجھے تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ میں تو آپ عوام کے لیے میدان میں آیا ہوں‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ باقی مشہور لوگوں کی طرح عمران خان کو بھی کبھی خود کسی کام دھندے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس کا خرچہ پانی دوست اٹھالیتے تھے۔بلکہ ان کے بارے تو مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی جیت میں بٹوہ بھی نہیں رکھا ۔بلکہ شاید کبھی جیب ہی نہیں لگوائی کہ اس کو ہر وقت کوئی نہ کوئی جیب میسر رہی یہاں تک کہ سیاست میں اے ٹی ایمزقطار اندرقطار موجود رہیں۔ جب ان کو اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا تو پھر وہ امتحان کے وقت ناکام کیوں ہوگئے؟ وہ حکمران بنے تو دوسرے ملکوں کے بادشاہوں سے واسطہ پڑا دستور دنیا کے مطابق مال ودولت اور تحفے تحائف ملنا معمول کی بات تھی لیکن اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا تو پھر توشہ خانہ لینے کی تڑپ،ہوس اورلالچ کیوں اور کہاں سے آگیا؟۔
بات توشہ خانہ پر ہی رکی ہتی تو شاید بچت ہوجاتی کہ ان کا ذاتی لالچ تھا انسان ہونے کے ناطے کمی کوتاہی ہوجاتی ہے لیکن بات اس ریاست تک کھینچ لائے جس کے وہ حکمران تھے۔جس کا امین ان کو بناکر بٹھایا گیا تھا۔وہ پیسا جس کے وہ خود امین تھے وہ پیسا اس ریاست پاکستان کی تجوری میں آنا تھا لیکن انہوںنے دھوکا دہی، ساز باز ،جعل سازی کرکے وہ پیسا اس چور کو واپس کردیا جس نے چوری کیا تھا؟اور ہر بات میں ’’اسلامی ٹچ‘‘ والے وزیراعظم نے بدلے میں سیکڑوں کنال زمین لے کر اس پرٹرسٹ بنادیا؟ کمال ہے بھائی۔سوچتا ہوں۔ جب توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے لیے زمین لے رہے ہوں تو کیا خان صاحب نے سوچا ہوگا کہ وہ عوام کو کہتے ہیں کہ ’’مجھے تو اللہ نے سب کچھ دے رکھا تھا۔میں تو آپ کے لیے مشکلیں کاٹ رہا ہوں؟۔ ملک ریاض سے رشوت میں زمین لینے کا کوئی پی ٹی آئی والا بھی دفاع نہیں کررہا یا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ سیاسی اور پارٹی کابیانیہ اپنی جگہ کہ مجبوری ہے لیکن اصل میں اندر سے سب تھوتھو کررہے ہیں کہ یونیورسٹی ہی بنانی تھی تو سرکاری بنادیتے ۔عوام کو کہتے وہ چندہ دے دیتے اس طرح رشوت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ چوری کے پیسے سے مسجد بنانے کی کیا ضرورت تھی؟عبید بھٹی ہمارے دوست ہیں ۔ صحافی بھی ہیں ۔یوٹیوبر بھی اور جناب عمران خان صاحب کا دفاع بھی ہمہ وقت کرتے ہیں ۔انہوں نے اس فیصلے کے بعد ایک پوسٹ کی آپ بھی پڑھیے۔
’’خان صاحب نے جہاں اتنے سبق سیکھے ہیں ایک مزید سہی، کہ بدنام بندے سے چندہ زکات صدقات لینا بھی خود کو رسوا کرنے اور گناہ جیسا کام ہی ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے لیے زمین کسی پراپرٹی ڈیلر سے لینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ عوام کو کہتے وہ عطیہ کر دیتی، لوگ اربوں کا چندہ دے دیتے۔ آپ خود کہتے رہے ہیں کہ وہ پلاٹس بانٹ کر وفاداریاں خریدنے کا کاروبار کرتا ہے۔
اسی طرح آپکو توشہ خانہ سے تحفے لینے ہی نہیں چاہئیں تھے، کبھی بھی نہیں۔ متعلقہ محکمہ انکو نیلام کرتا چولہے میں ڈالتا جو مرضی کرتا، آپکو نہیں لینے چاہیے تھے خواہ قیمت آدھی بھری، پونی یا پوری، بیچنا تو بہت دور رہ گیا۔ آپ جناب کی ساری زندگی گواہ ہے کہ ’’گہنے گٹوں ‘‘کا آپکو نہ کبھی شوق رہا ہے نہ لالچ، آپ تو گھڑی تک پہننے کا شوق نہیں رکھتے ہیں، ہیرے جڑے گہنے گٹے کف لنک پین تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کس کے شوق کی کارستانی ہے جس کو آپ بھگت رہے ہیں، بھاری قیمت چکا رہے ہیں، لیکن اس میں بھی آپکے لیے بہت بڑا اور ناقابل فراموش سبق ہے۔ ہم تو آپکو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بات نہیں بڑے ہوکر سیکھ جائیں گے کہ آپ نے مزید کیا بڑا ہونا ہے۔
ویسے آپ کوکوئی مشورہ دینا یا تنقید کرنا بھی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اور آپ کے ’’جانثار عشاق‘‘ کا خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ وہ بھی جھنڈ در جھنڈ حملہ آور ہو کر صفیں اکھاڑنے لگتے ہیں، ان کا بھی کوئی قصور نہیں، وہ بھی آپکی کرشماتی شخصیت سے عشق رکھتے ہیں تو دھیان سارا آپکو ہی رکھنا ہے، ساری ذمہ واری آپ پر آتی ہے۔ بطور رہنما، لیڈر اور عوامی ہیرو آپکو ہر طرح کی گندگی کے چھینٹوں سے بچنا ہے، راستے میں بکھرے کانٹوں سے بچ کر چلنا ہے کہ کوئی زخم تو کیا خراش تک نہ آسکے۔جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ فتنے کانٹوں کی طرح بکھرے ہیں اور مومن کی ذمہ داری ان سے بچ کر نکلنا ہے۔حدیث پاک ﷺ کا مفہوم ہے کہ خوشبو والے کے پاس بیٹھو گے تو کم سے کم تر فائدہ مفت کی خوشبو سونگھنے کو ملے گی اور ترکھان کے پاس بیٹھو گے تو اسکی بھٹی سے نکلنے والی چنگاریاں کپڑوں میں سوراخ کر دیں گی یا کالا دھواں پھیپھڑوں کو زہر آلود کرتا رہیگا۔
عام انسان کی خطاوں غلطیوں اور لغزشوں کا نقصان صرف اسکی ذات یا اہلخانہ کو ہوسکتا ہے لیکن حکمران کی خطا غلطی اور لغزش پوری ریاست اور عوام کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔امید واثق ہے کہ عمران خان اپنی اسیری کے دوران اپنی خود احتسابی کر چکے ہوں گے اور آئندہ ایسی غلطیاں اور خطائیں نہیں دہرائیں گے‘‘۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اللہ نے سب کچھ دے توشہ خانہ بھی نہیں ہی نہیں رہے ہیں عوام کو کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔
طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔
ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔
25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔
میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔
طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔
سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔
23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔
طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔
نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔
یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔
چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔
انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔
نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔
نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔
روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
Post Views: 3