انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے جامع حل کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں جن میں سینکڑوں پاکستانیوں کی جانیں جا چکی ہیں ، حکومت نے حال ہی میں مراکش میں ہونے والے واقعہ کی تحقیقات کیلئے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، انسانی سمگلنگ ایک بڑا ایشو بنا ہوا ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں، پنجاب کے
چند مخصوص اضلاع سے اکثر لوگ یورپی ممالک میں ڈنکی کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اپنا روزگار کمانے کیلئے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ادارے بالخصوص ایف آئی اے سیاسی کیسوں میں تو پھرتی دکھاتی ہے اس طرح کے کیسوں میں ابھی تک کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی ، جب کوئی واقعہ ہو جائے تو چند روز کیلئے سرگرمی نظر آتی ہے ، وزیراعظم اور وزارت داخلہ بھی متحرک نظر آتے ہیں ، اس سارے معاملے پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب کوئی قانونی طریقے سے ان ممالک میں جاتا ہے تو اس کو بھی ایسے لوگوںکی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے قوانین موجود ہیں ، 14سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ دوسری جانب وزارت حج نے2025کی حج پالیسی میں ایک تجویز شامل کی ہے ، پرائیویٹ مہنگے حج کرنے والوںکی لسٹ ایف بی آر کو بھجوائی جائیگی اور 30لاکھ یا سے زائدکا مہنگا حج کرنے والوں کو فلائیٹ ڈسکور ایف بی آر اور سکیورٹی اداروں کی کلیئرنس سے مشروط کر دیا گیا ہے ، ایف بی آر کو یہ فہرست اس لئے بھجوائی جارہی ہے کہ تو پتہ چلا یا جا سکے کہ یہ لوگ اتنا مہنگا حج کرتے ہیں تو ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں وہ ٹیکس بھی دیتے ہیں یا نہیں ، یہ بظاہر اچھی تجویز ہے لیکن جو نجی کمپنیاں ہیں ان کے بعض مالکان میں پاکستان کی بہت سی مشہور مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں جو بڑے بڑے تاجروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو مہنگا ترین حج کراتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات اور ان کے بعض بیانات پر سوالات اٹھائے ہیں ، اپنے ایک ٹویٹ میں وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آرمی چیف اور بیرسٹرگوہر کی ملاقات میںکیا باتیں ہوئیں یہ انہیں پتہ ہیں ، ایک طرف بیرسٹر گوہر یہ کہتے ہیں کہ بیک ڈور پراسس بھی چلے گا اور فرنٹ ڈور پراسس بھی ، بیرسٹر گوہر کو ان میں سے ایک پراسس کا انتخاب کرنا پڑے گا ، جب سے پشاور میں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پورکی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ایک ملاقات ہوئی ہے ، سیاسی اور حکومتی حلقوں میں ہلچل مچی ہے ، تحریک انصاف نے اس ملاقات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اور یہ تاثر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہورہی ہے لیکن اسٹیبلمشنٹ نے بھی اس پر سخت ردعمل دیا ،جہاں تک عرفان صدیقی کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف انہیں اس ملاقات کا علم ہے تو یہ درست نہیں ہے ، بہت سے لوگوں کو اس ملاقات کی تفصیلات پتہ ہیں ،اگر عرفان صدیقی کو تمام تر تفصیلات کا پتہ ہے تو انہیں اسے خفیہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ قوم کو بتائیں کہ تحریک انصاف کی سپہ سالار سے کیا گفتگو ہوئی ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے کیا چاہتے تھے ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔