UrduPoint:
2025-09-18@13:22:26 GMT

براعظم افریقہ کی بربادی میں یورپی اقوام کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

براعظم افریقہ کی بربادی میں یورپی اقوام کا کردار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2025ء) پُرتگال وہ پہلا یورپی مُلک تھا، جس نے گِنی بساؤ، موزمبیق اور افریقہ کے دوسرے ملکوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی کالونی بنایا۔ پھرافریقہ سے کچھ افراد کو غلام بنا کر پرتگال لایا گیا۔ ان غلاموں کی محنت و مشقت کو دیکھ کر لاطینی امریکہ میں ہسپانیوں نے افریقی غلاموں کو لا کر ان سے سونے چاندی کی کانوں میں کام کروایا۔

اس وقت امریکہ میں جہاں برطانوی شہریوں نے مقامی لوگوں سے زمینیں چھین کر اپنے بڑے بڑے پلانٹیشن بنائے ہوئے تھے اور انہیں کام کے لیے مزدُوروں کی ضرورت تھی۔ تو وہاں بھی افریقہ سے لوگوں کو لا کر کام کروایا گیا۔

کیریبیئن جزائر میں بھی شکر کے کارخانوں کے لیے مزدور چاہیے تھے۔ چنانچہ لیور پول برسٹل اور مانچسٹر کے تاجروں نے افریقی غلاموں کا کاروبار شروع کیا۔

(جاری ہے)

اس کاروبار میں افریقہ کے قبائلی سردار بھی شامل تھے، جو لوگوں کو پکڑ کر یورپی تاجروں کو فروخت کرتے تھے۔ جب افریقی غلاموں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں آئی تو یہاں رنگ کی بنیاد پر نسلی امتیاز پیدا ہوا۔ سفید فام برتر نسل کے ہوئے اور افریقی کمتر۔

جب برطانوی تاجروں نے غلام بنا کر لوگوں کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار شروع کیا تو اس سے انہوں نے بے انتہا دولت کمائی۔

اب برطانیہ کے سرمایہ داروں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ افریقی براعظم جو اب تک اُن کے لیے ایک نامعلوم دنیا تھی اُسے دریافت کیا جائے اور اُس کے فطری ذرائع کو حاصل کر کے دولت میں مزید اضافہ کیا جائے۔

اس موضوع پر کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف H.

Alan Cairns نے اپنی کتاب Prelude to Imperialism میں 1840 سے 1890 کے دوران سینٹرل افریقہ میں ہونے والی برطانوی کارروائیوں کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ افریقہ کو دریافت کرنے کے مراحل کو بیان کیا ہے۔

اولین جماعت تاجروں، شکاریوں اور مہم جوؤں کی تھی، جو افریقہ سے کاٹن، شکر اور ہاتھی کے دانت لاتے تھے۔ یہ کارواں کی شکل میں سفر کرتے تھے۔ افریقی ان کا سامان سروں پر لاد کر سفر کرتے تھے اور موسم کی شدت کو برداشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں یہ سفر تیس میل تک کا ہوتا تھا۔ اگر کوئی غلام سُستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا یا کام سے انکار کرتا تو اُس کو کوڑے مارے جاتے تھے۔

سفید فام لوگوں کا یہ خیال تھا کہ افریقیوں میں نہ جذبات ہوتے ہیں اور نہ ہی احساسات۔ تجارتی سامان کے ساتھ ساتھ یہ افریقی عورتوں سے جِنسی تعلقات بھی رکھتے تھے۔

رچرڈ برٹن جنہوں نے الف لیلی کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔ جب وہ افریقہ کے سفر پر گئے تو بتایا گیا ہے کہ وہ ہر منزل پر افریقی عورتوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔ اس گروپ میں وہ افراد بھی شامل ہوتے تھے جو افریقی سرداروں اور اُن کے خاندان کا بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کر کے اُن سے مراعات لیتے تھے۔

دوسری جماعت مشنریز کی تھی۔ ان میں کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ دونوں شامل تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ افریقہ کے لوگوں کا مذہب تبدیل کرا کر انہیں مسیحی بنایا جائے۔ دونوں جانب سے کئی نوجوان مذہب کی تبلیغ کے لیے افریقہ آئے۔ ان میں کافی تعداد اُن کی تھی جو موسم کی خرابی اور مَلیریا کی وجہ سے جلد مر گئے۔ لیکن مشنریز کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔

اُن کا خیال تھا کہ افریقیوں کا کوئی ایک مضبوط مذہب نہیں ہے اس لیے اُنہیں آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ مشنریز کو فنڈز دینے والی ایجنسیوں کو جو اُمید تھی وہ تو پوری نہیں ہوئی مگر تبلیغ کی وجہ سے کچھ افراد نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ مشنریز کی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن اُنہیں مقامی زبانیں سیکھ کر بائبل کا ترجمہ کرنا ہوتا تھا۔

اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ لونگسٹوں۔ انہوں نے تنہا افریقہ کے دُور دراز علاقوں کا سفر کر کے اُن کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں تھیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اُنہوں نے برطانیہ اور افریقہ کے بارے میں نئی تجاویزات دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں بہت غربت تھی۔ بے روزگار نوجوان آوارہ گردی کرتے تھے، اور بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔

Livingstone کی تجویز یہ تھی کہ سینٹرل افریقہ کے ممالک میں آبادی کم ہے اور زمینیں خالی پڑی ہیں۔ اس لیے اگر برطانیہ کے بے روزگار اور غرباء کو یہاں لا کر آباد کیا جائے اور اُنہیں یہ زمینیں دیں جائیں تو کاشکاری کے ذریعے وہ خوشحال ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی افریقی لوگ بھی ان سے مغربی تہذیب سیکھیں گے اور اپنی جہالت کو ختم کریں گے۔اس کے مقابلے میں دوسری تجویز یہ تھی کہ افریقیوں کو پہلے مہذب بنایا جائے پھر اُن کا مذہب تبدیل کیا جائے۔

لیکن برطانوی حکومت نے Livingstone کی تجویز کو مانتے ہوئے بڑی تعداد میں سفید فام لوگوں کو سینٹرل افریقہ کے مُلکوں میں بھیجا، جہاں اُنہوں نے زمینوں پر قبضہ کر کے افریقیوں کو غلام بنا کر اُن سے کھیتی باڑی کرائی۔ جس کی وجہ سے افریقی معاشرے میں سفید فام برتر ہو گئے، اور افریقی اپنے ہی گھر میں اُن کے غلام بن گئے۔ سفید فام آبادیوں نے نسلی تعصب کو پیدا کیا اور یہی وہ تعصب تھا، جس نے جنوبی افریقہ میں اپرتھائیڈ کی حکومت قائم کی۔

نسلی تعصب کی وجہ سے افریقیوں میں مزاحمت کم ہو گئی۔ اُن کی زرعی پیداوار اور معدنیات کو سفید فام اقوام لوٹ کر لے گئیں، اور بلاآخر اُنیسویں صدی میں تمام افریقی براعظم میں یورپی اقوام نے اپنی کالونیز قائم کر کے طاقت کے ذریعے افریقی براعظم کو برباد کیا۔ دوسری عالمی جنگِ کے بعد افریقی مُلکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھیں اور اپنی جدوجہد اور قتل و غارت گری کے باوجود اُنہوں نے یورپی سامراج سے نجات حاصل کی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افریقہ کے کہ افریقی کی وجہ سے کیا جائے سفید فام کرتے تھے کر کے ا کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-01-19
جنیوا(مانیٹرنگ ڈیسک+صباح نیوز)اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک نے قطر پر حملہ کرنے پر اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ کردیا۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے انسانی حقوق کونسل میں اس حملے پر ہونے والی ہنگامی بحث کے دوران کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی ایک چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی۔انہوں نے اس حملے کو علاقائی امن اور استحکام پر حملہ قرار دیتے ہوئے غیر قانونی اموات پر احتساب کا مطالبہ کیا۔قطر اور درجنوں ممالک کے نمائندوں نے تین گھنٹے طویل بحث میں فولکر ترک کے مؤقف کی تائید کی۔قطری وزیر برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی بن ناصر المیسنَد نے اسرائیل کے غدارانہ حملے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ عالمی برادری عملی اقدامات کرے تاکہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور انہیں استثنا نہ ملے۔انہوں نے کہا کہ یہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں کو روکنے کی ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔پاکستانی سفیر بلال احمد نے خبردار کیا کہ یہ بلاجواز اور اشتعال انگیز حملہ صورتحال میں خطرناک بگاڑ پیدا کرے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کا اجلاس پاکستان اور کویت کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جو رواں سال کے آغاز ہی میں انسانی حقوق کونسل سے علیحدہ ہوگئے تھے لیکن جنیوا میں اسرائیلی سفیر ڈینیئل میرون نے اس اجلاس کو سائیڈ لائن سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ’یہ انسانی حقوق کونسل کی جاری زیادتیوں کا ایک اور شرمناک باب ہے۔انہوں نے کونسل پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے اور زمینی حقائق اور حماس کی بربریت کو نظر انداز کر رہی ہے۔یورپی یونین کی سفیر ڈائیکے پوٹزل نے یورپ کے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اصولی مؤقف‘ پر زور دیا اور ساتھ ہی قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعادہ کیا اور اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو ثالثی کے چینلز اور علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چین کے سفیر چن ڑو نے کہا کہ ان کا ملک 9 ستمبر کے حملے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی دانستہ کوشش‘ تھی۔سب سے سخت تنقید جنوبی افریقا کی جانب سے سامنے آئی، جس نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔جنوبی افریقا کے سفیر مکزولسی نکوسی نے کہا کہ یہ حملہ ’ ثالثی کے عمل کی بنیاد پر وار‘ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ ختم نہیں کرنا چاہتا۔انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری عملی اقدامات کے ذریعے یہ واضح کرے کہ اسرائیل کو احتساب سے کسی خاص استثنا کا فائدہ حاصل نہیں ہے۔اجلاس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے،غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت ہولناک ہے، غزہ میں جاری صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی اعتبار سے کسی طور قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے قطر کی جانب سے ثالثی کی کوششیں انتہائی اہم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں غزہ اور مغربی کنارے کی سنگین صورتحال سے متعلق عالمی فوجداری عدالت کوآگاہ کروںگا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
  • پابندیوں لگانے کی صورت میں یورپ کو سخت جواب دینگے، تل ابیب
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • ویمنز ون ڈے: سدرہ امین کی سنچری رائیگاں، جنوبی افریقہ 8 وکٹ سے فتحیاب
  • ’’یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ رویش کمار نے ارنب گوسوامی کا پردہ چاک کر دیا
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد