UrduPoint:
2025-07-26@09:23:56 GMT

براعظم افریقہ کی بربادی میں یورپی اقوام کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

براعظم افریقہ کی بربادی میں یورپی اقوام کا کردار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2025ء) پُرتگال وہ پہلا یورپی مُلک تھا، جس نے گِنی بساؤ، موزمبیق اور افریقہ کے دوسرے ملکوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی کالونی بنایا۔ پھرافریقہ سے کچھ افراد کو غلام بنا کر پرتگال لایا گیا۔ ان غلاموں کی محنت و مشقت کو دیکھ کر لاطینی امریکہ میں ہسپانیوں نے افریقی غلاموں کو لا کر ان سے سونے چاندی کی کانوں میں کام کروایا۔

اس وقت امریکہ میں جہاں برطانوی شہریوں نے مقامی لوگوں سے زمینیں چھین کر اپنے بڑے بڑے پلانٹیشن بنائے ہوئے تھے اور انہیں کام کے لیے مزدُوروں کی ضرورت تھی۔ تو وہاں بھی افریقہ سے لوگوں کو لا کر کام کروایا گیا۔

کیریبیئن جزائر میں بھی شکر کے کارخانوں کے لیے مزدور چاہیے تھے۔ چنانچہ لیور پول برسٹل اور مانچسٹر کے تاجروں نے افریقی غلاموں کا کاروبار شروع کیا۔

(جاری ہے)

اس کاروبار میں افریقہ کے قبائلی سردار بھی شامل تھے، جو لوگوں کو پکڑ کر یورپی تاجروں کو فروخت کرتے تھے۔ جب افریقی غلاموں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں آئی تو یہاں رنگ کی بنیاد پر نسلی امتیاز پیدا ہوا۔ سفید فام برتر نسل کے ہوئے اور افریقی کمتر۔

جب برطانوی تاجروں نے غلام بنا کر لوگوں کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار شروع کیا تو اس سے انہوں نے بے انتہا دولت کمائی۔

اب برطانیہ کے سرمایہ داروں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ افریقی براعظم جو اب تک اُن کے لیے ایک نامعلوم دنیا تھی اُسے دریافت کیا جائے اور اُس کے فطری ذرائع کو حاصل کر کے دولت میں مزید اضافہ کیا جائے۔

اس موضوع پر کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف H.

Alan Cairns نے اپنی کتاب Prelude to Imperialism میں 1840 سے 1890 کے دوران سینٹرل افریقہ میں ہونے والی برطانوی کارروائیوں کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ افریقہ کو دریافت کرنے کے مراحل کو بیان کیا ہے۔

اولین جماعت تاجروں، شکاریوں اور مہم جوؤں کی تھی، جو افریقہ سے کاٹن، شکر اور ہاتھی کے دانت لاتے تھے۔ یہ کارواں کی شکل میں سفر کرتے تھے۔ افریقی ان کا سامان سروں پر لاد کر سفر کرتے تھے اور موسم کی شدت کو برداشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں یہ سفر تیس میل تک کا ہوتا تھا۔ اگر کوئی غلام سُستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا یا کام سے انکار کرتا تو اُس کو کوڑے مارے جاتے تھے۔

سفید فام لوگوں کا یہ خیال تھا کہ افریقیوں میں نہ جذبات ہوتے ہیں اور نہ ہی احساسات۔ تجارتی سامان کے ساتھ ساتھ یہ افریقی عورتوں سے جِنسی تعلقات بھی رکھتے تھے۔

رچرڈ برٹن جنہوں نے الف لیلی کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔ جب وہ افریقہ کے سفر پر گئے تو بتایا گیا ہے کہ وہ ہر منزل پر افریقی عورتوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔ اس گروپ میں وہ افراد بھی شامل ہوتے تھے جو افریقی سرداروں اور اُن کے خاندان کا بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کر کے اُن سے مراعات لیتے تھے۔

دوسری جماعت مشنریز کی تھی۔ ان میں کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ دونوں شامل تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ افریقہ کے لوگوں کا مذہب تبدیل کرا کر انہیں مسیحی بنایا جائے۔ دونوں جانب سے کئی نوجوان مذہب کی تبلیغ کے لیے افریقہ آئے۔ ان میں کافی تعداد اُن کی تھی جو موسم کی خرابی اور مَلیریا کی وجہ سے جلد مر گئے۔ لیکن مشنریز کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔

اُن کا خیال تھا کہ افریقیوں کا کوئی ایک مضبوط مذہب نہیں ہے اس لیے اُنہیں آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ مشنریز کو فنڈز دینے والی ایجنسیوں کو جو اُمید تھی وہ تو پوری نہیں ہوئی مگر تبلیغ کی وجہ سے کچھ افراد نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ مشنریز کی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن اُنہیں مقامی زبانیں سیکھ کر بائبل کا ترجمہ کرنا ہوتا تھا۔

اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ لونگسٹوں۔ انہوں نے تنہا افریقہ کے دُور دراز علاقوں کا سفر کر کے اُن کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں تھیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اُنہوں نے برطانیہ اور افریقہ کے بارے میں نئی تجاویزات دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں بہت غربت تھی۔ بے روزگار نوجوان آوارہ گردی کرتے تھے، اور بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔

Livingstone کی تجویز یہ تھی کہ سینٹرل افریقہ کے ممالک میں آبادی کم ہے اور زمینیں خالی پڑی ہیں۔ اس لیے اگر برطانیہ کے بے روزگار اور غرباء کو یہاں لا کر آباد کیا جائے اور اُنہیں یہ زمینیں دیں جائیں تو کاشکاری کے ذریعے وہ خوشحال ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی افریقی لوگ بھی ان سے مغربی تہذیب سیکھیں گے اور اپنی جہالت کو ختم کریں گے۔اس کے مقابلے میں دوسری تجویز یہ تھی کہ افریقیوں کو پہلے مہذب بنایا جائے پھر اُن کا مذہب تبدیل کیا جائے۔

لیکن برطانوی حکومت نے Livingstone کی تجویز کو مانتے ہوئے بڑی تعداد میں سفید فام لوگوں کو سینٹرل افریقہ کے مُلکوں میں بھیجا، جہاں اُنہوں نے زمینوں پر قبضہ کر کے افریقیوں کو غلام بنا کر اُن سے کھیتی باڑی کرائی۔ جس کی وجہ سے افریقی معاشرے میں سفید فام برتر ہو گئے، اور افریقی اپنے ہی گھر میں اُن کے غلام بن گئے۔ سفید فام آبادیوں نے نسلی تعصب کو پیدا کیا اور یہی وہ تعصب تھا، جس نے جنوبی افریقہ میں اپرتھائیڈ کی حکومت قائم کی۔

نسلی تعصب کی وجہ سے افریقیوں میں مزاحمت کم ہو گئی۔ اُن کی زرعی پیداوار اور معدنیات کو سفید فام اقوام لوٹ کر لے گئیں، اور بلاآخر اُنیسویں صدی میں تمام افریقی براعظم میں یورپی اقوام نے اپنی کالونیز قائم کر کے طاقت کے ذریعے افریقی براعظم کو برباد کیا۔ دوسری عالمی جنگِ کے بعد افریقی مُلکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھیں اور اپنی جدوجہد اور قتل و غارت گری کے باوجود اُنہوں نے یورپی سامراج سے نجات حاصل کی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افریقہ کے کہ افریقی کی وجہ سے کیا جائے سفید فام کرتے تھے کر کے ا کے لیے

پڑھیں:

قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقا اور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں، پیر مظہر

وزیر اطلاعات آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ استاد علم سکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کی کردار سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، استاد اور شاگرد کے رشتے کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اطلاعات آزاد جموں و کشمیر پیر محمد مظہر سعید شاہ نے کہا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقا اور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں، سیکھنے سکھانے کے عمل کا آغاز پہلی وحی ’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِىْ خَلَقَ‘‘ سے شروع ہو کر مکہ مکرمہ میں دار ارقم اور مدینہ منورہ میں مدرسہ صفہ تک جا پہنچا، جہاں معلم انسانیت ﷺ نے صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے دنیا پر اسلام کے پرچم کو لہرایا۔حضور پاک ﷺ معلم انسانیت ہیں اور آپﷺ نے اپنی زندگی علم سیکھانے میں وقف فرما رکھی تھی۔ ان خیالات کا اظہار سرپرست اعلیٰ جامعۃ الحسنین و وزیر اطلاعات آزاد جموں و کشمیر پیر مظہر سعید شاہ نے جامعۃ الحسنین کے دورہ کے دوران اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے جامعۃ الحسنین کے تمام اساتذہ کرام سے ملاقات کی اور جامعۃ الحسنین کے نگران اعلی مولانا اعجاز محمود اور دیگر اساتذہ کرام سے تفصیلی بریفنگ لی۔

پیر محمد مظہر سعید شاہ نے کہا کہ استاد علم سکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کی کردار سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، استاد اور شاگرد کے رشتے کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام میں استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے اور شاگردوں کو ادب اور احترام سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علم کی اہمیت و فضیلت کو جاننے کیلئے سرکار دو عالم ﷺ کی احادیث مبارکہ بہت سی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام چاہتا ہے کہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان تعلیم کے ذریعے صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجے پر پہنچ جائے۔ وہ کتاب اللہ اور سنت نبوی ﷺکو حقیقی علم قرار دیتے ہوئے اسے انسانیت کی فلاح کا ضامن قرار دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کہتی ہیں کہ قرآن حقیقی علم ہے جب کہ دوسرے علوم معلومات کے درجے میں ہیں اور ان معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرو۔ اللہ ہمیں علوم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضامین

  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • پاکستان چیمپئنز نے جنوبی افریقہ کو 31 رنز سے ہرا دیا
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں: وزیراعظم
  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا چین اور یورپی یونین کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعاون کا خیرمقدم
  • اے بی ڈی ویلیئرز ریٹائرمنٹ کے بعد بھی باز نہیں آئے، 41 گیندوں پر سینچری بنالی
  • گل شیر کے کردار میں خاص اداکاری نہیں کی، حقیقت میں خوف زدہ تھا، کرنل (ر) قاسم شاہ
  • کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقا اور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں، پیر مظہر