جاپان کے بزرگ جان بوجھ کر جیل کیوں جا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ٹوکیو(نیوز ڈیسک)جاپان میں ایک انوکھا اور تکلیف دہ رجحان سامنے آیا ہے جہاں کئی عمر رسیدہ خواتین جیل جانے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہ باہر کی دنیا میں تنہائی اور غربت سے نمٹنے کے لئے بے بس ہیں۔
توچیگی کی خواتین جیل میں، ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جنہیں جیل میں رہ کر فلاحی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، جیسے مفت صحت کی دیکھ بھال، کھانا، اور بزرگوں کی دیکھ بھال۔
اکثر قیدی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر چھوٹے چھوٹے جرائم کئے تاکہ وہ جیل میں واپس جا سکیں، جہاں انہیں کم از کم بنیادی ضروریات زندگی ملتی ہیں۔ اکیو نامی ایک 81 سالہ قیدی خاتون کا کہنا ہے کہ ’اس جیل میں بہت اچھے لوگ ہیں، شاید یہ زندگی میرے لیے سب سے مستحکم ہے۔‘
جاپان میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے، اور کچھ قیدیوں کا کہنا ہے کہ جیل میں رہ کر انہیں کم از کم سردی یا بھوک کا سامنا نہیں ہوتا۔
جیل کے حکام نے بتایا کہ بعض قیدی بیماری یا مالی مشکلات کی وجہ سے جیل میں رہنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں مفت طبی سہولتیں دستیاب ہیں۔
حکومت نے اس مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کیا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان میں عمر رسیدہ قیدیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے جیل کا ماحول نرسنگ ہوم کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ یہ رجحان جاپان کی بڑھتی ہوئی بوڑھی آبادی (لمبی عمریں ہونے کی وجہہ سے) اور معاشرتی تنہائی کی عکاسی کرتا ہے، جس کا حل ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔
سابق قیدیوں کے لیے معاشرے میں دوبارہ انضمام کی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں، کیونکہ اکثر کے پاس ایسا کوئی نہیں ہوتا جو ان کی دیکھ بھال کرے۔ بھارتی اداکارہ نے اپنی سوتیلی بیٹی کیخلاف مقدمہ درج کرادیا
وزارت بہبود نے 2021 میں اس صورتحال پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ مسئلہ مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی کے اندر مذاکرات کے حوالے سے اختلاف ہیں، مولانا فضل الرحمان
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جیل میں
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔