Daily Ausaf:
2025-07-25@13:02:09 GMT

جاپان کے بزرگ جان بوجھ کر جیل کیوں جا رہے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

ٹوکیو(نیوز ڈیسک)جاپان میں ایک انوکھا اور تکلیف دہ رجحان سامنے آیا ہے جہاں کئی عمر رسیدہ خواتین جیل جانے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہ باہر کی دنیا میں تنہائی اور غربت سے نمٹنے کے لئے بے بس ہیں۔

توچیگی کی خواتین جیل میں، ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جنہیں جیل میں رہ کر فلاحی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، جیسے مفت صحت کی دیکھ بھال، کھانا، اور بزرگوں کی دیکھ بھال۔

اکثر قیدی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر چھوٹے چھوٹے جرائم کئے تاکہ وہ جیل میں واپس جا سکیں، جہاں انہیں کم از کم بنیادی ضروریات زندگی ملتی ہیں۔ اکیو نامی ایک 81 سالہ قیدی خاتون کا کہنا ہے کہ ’اس جیل میں بہت اچھے لوگ ہیں، شاید یہ زندگی میرے لیے سب سے مستحکم ہے۔‘

جاپان میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے، اور کچھ قیدیوں کا کہنا ہے کہ جیل میں رہ کر انہیں کم از کم سردی یا بھوک کا سامنا نہیں ہوتا۔

جیل کے حکام نے بتایا کہ بعض قیدی بیماری یا مالی مشکلات کی وجہ سے جیل میں رہنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں مفت طبی سہولتیں دستیاب ہیں۔

حکومت نے اس مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کیا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان میں عمر رسیدہ قیدیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے جیل کا ماحول نرسنگ ہوم کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ یہ رجحان جاپان کی بڑھتی ہوئی بوڑھی آبادی (لمبی عمریں ہونے کی وجہہ سے) اور معاشرتی تنہائی کی عکاسی کرتا ہے، جس کا حل ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔

سابق قیدیوں کے لیے معاشرے میں دوبارہ انضمام کی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں، کیونکہ اکثر کے پاس ایسا کوئی نہیں ہوتا جو ان کی دیکھ بھال کرے۔ بھارتی اداکارہ نے اپنی سوتیلی بیٹی کیخلاف مقدمہ درج کرادیا

وزارت بہبود نے 2021 میں اس صورتحال پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ مسئلہ مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی کے اندر مذاکرات کے حوالے سے اختلاف ہیں، مولانا فضل الرحمان

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جیل میں

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کے علاقے دکی میں 4 بہنیں ندی میں نہاتے ہوئے ڈوبنے سے جاں بحق
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • اسلام آباد کی سڑکوں پر رنگ برنگ غبارے بیچنے والے بزرگ کی دلگداز کہانی
  • جاپان میں شوہر اپنی پوری تنخواہ بیوی کو کیوں دیتے ہیں؟ دلچسپ وجوہات جانیں
  • شازیہ منظور نے جان بوجھ کر دھکے دے کر ریمپ واک کے دوران اسٹیج پر گرایا، علیزے شاہ
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں، بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی کاردعمل سامنے آگیا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
  • امریکا اور جاپان کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا، درآمدی محصولات میں کمی