اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2025ء) پاکستانی بحریہ نے بتایا کہ بنگلہ دیشی مسلح افواج کے ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف ایس ایم قمر الحسن نے اتوار کے روز پاک بحریہ کے سینیئر حکام سے ملاقات کی اور علاقائی میری ٹائم سکیورٹی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستانی نیوی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل حسن نے پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی کے دورے کے دوران پاکستانی بحریہ کے جہازوں اور یونٹس کا دورہ کیا۔

بنگلہ دیش کے سینیئر آرمی جنرل کا پاکستان کا غیر معمولی دورہ

پاکستانی بحریہ کے مطابق بنگلہ دیشی جنرل نے پاکستانی فلیٹ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل عبدالمنیب، کمانڈر کوسٹ، ریئر ایڈمرل فیصل امین اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس کے مینیجنگ ڈائریکٹر ریئر ایڈمرل سلمان الیاس سے ملاقاتیں کیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن پاکستان کے غیر معمولی دورے پر ہیں اور انہوں نے گزشتہ منگل کو راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا تھا اور پاکستانی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔

بنگلہ دیش، پاکستان کے مابین مفاہمت کے بھارت پر ممکنہ اثرات

پاکستانی بحریہ نے میٹنگ کے حوالے سے کیا کہا؟

ڈی جی پی آر نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، "ان مصروفیات کے دوران علاقائی میری ٹائم سکیورٹی اور دو طرفہ دفاعی تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے پیشہ ورانہ امور پر بات چیت کی گئی۔"

بیان میں مزید کہا گیا، "دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں، باہمی دورے اور تربیتی تبادلے جیسے پروگرام سمیت تعاون کے مختلف ممکنہ شعبوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

"

ایک دور تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک قوم تھے، تاہم سن 1971 میں خونریز خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک دوسرے سے سے جدا ہو گئے اور اس طرح، جو حصہ مشرقی پاکستان کے نام سے معرف تھا، وہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک بن کر ابھرا۔

پاکستانی بنگلہ دیشی قربت، جنوبی ایشیائی سیاست میں نیا موڑ

اس کے بعد کے سے بنگلہ دیشی رہنماؤں، خاص طور پر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے، بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کا انتخاب کیا۔

البتہ گزشتہ اگست میں طلبا کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

اس تناظر میں پاک بحریہ نے کہا کہ "لیفٹینٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کے دورے سے دونوں برادر ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، تعاون کو بڑھانے اور پاکستان اور بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی توقع ہے۔

"

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں تعطل کا شکار رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر بار بار پاکستان کی طرف سے امن کی کوششوں کو مسترد کیا۔ لیکن ان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں واضح بہتری آئی ہے۔

دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران قیادت کی سطح پر کئی ملاقاتیں کی ہیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے پرعزم

تجارت کو فروغ دینے کے اقدام

اس سے قبل ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) نے ایک بیان میں کہا کہ وہ 19 اور 20 جنوری کے درمیان دو تجارتی وفود بنگلہ دیش بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ دوطرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کو بڑھایا جا سکے کیونکہ دونوں ممالک کشیدہ تعلقات درست ہونے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ٹی ڈی اے پی نے کہا، "کھجور کے 13 برآمد کنندگان پر مشتمل پہلا وفد 19 جنوری کو ایک ہفتہ کے دورے پر روانہ ہو گا، جبکہ لیموں کی تجارت پر مشتمل دوسرا وفد 20 جنوری کو بزنس ٹو بزنس میٹنگ کے لیے روانہ ہو گا۔"

بھارت: پاکستانی فوج کے 'ہتھیار ڈالنے' والی پینٹنگ پر تنازعہ کیا ہے؟

ادارے نے مزید کہا کہ یہ وفود تجارتی مواقع تلاش کریں گے، کاروباری شراکت داری کو فروغ دیں گے اور بنگلہ دیشی مارکیٹ میں پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو فروغ دیں گے۔

یہ پیشرفت پاکستان اور بنگلہ دیشی تاجروں کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کے چند دن بعد ہوئی ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار بھی فروری کے آغاز میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ڈھاکہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات پاکستانی بحریہ بنگلہ دیش کے دونوں ممالک پاکستان کے بنگلہ دیشی تعلقات کو ممالک کے بحریہ کے کے لیے

پڑھیں:

ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری مذاکرات پر سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور اسی ضمن میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ماسکو کا دورہ کرنے والے عمان کے سربراہ سلطان ہیثم بن طارق السعید کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔

عمان ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں، جس سے ایران کے جوہری پروگرام کو روکا جا سکے۔

اس سلسلے میں پہلے دور کے مذاکرات عمان میں ہوئے تھے، جبکہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اس پر روم میں مکالمت ہوئی تھی اور اب تیسرے دور کی بات چیت ہونے والی ہے۔

(جاری ہے)

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس کا مقصد جوہری ہتھیار تیار کرنا ہے، جبکہ ایران اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ جوہری مذاکرات ’’تعمیری‘‘ رہے، ایران

روس نے اس بارے میں کیا کہا؟

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کے روز ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "اس موضوع پر عمان کی ثالثی کی کوششوں کے تناظر میں بات چیت کی گئی ہے۔"

انٹرفیکس کے مطابق کریملن کے خارجہ پالیسی کے معاون یوری اوشاکوف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں فریقوں نے "ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

"

نئے امریکی ایرانی مذاکرات سے قبل سعودی وزیر دفاع تہران میں

اوشاکوف نے اس حوالے سے کہا، "ہم دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم اپنے ایرانی ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ جہاں ہم مدد کر سکتے ہیں، مدد کریں گے۔"

صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے معاہدہ طے نہیں پاتا ہے، تو ایران پر بمباری کی جائے گی۔

ادھر ایران نے کہا ہے کہ بمباری کی دھمکی کے تحت کوئی بھی معاہدہ نہیں ہو سکتا ہے۔

روس نے جنوری میں ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔

روس نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف کوئی بھی امریکی فوجی کارروائی غیر قانونی ہو گی۔

ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں ماسکو کا بھی اپنا ایک کردار ہے جس نے سن 2015 کے پچھلے تاریخی جوہری معاہدے پر امریکہ کے دستخط بھی کیے تھے۔

البتہ ٹرمپ نے 2018 میں امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران اس معاہدے کو ترک کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے بھی معاہدے کی شرائط پرعمل کرنا بند کر دیا۔

ایران جوہری بم بنانے سے ’بہت دور‘ نہیں، رافائل گروسی

عمان کے سلطان کا دورہ روس

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تبصروں میں، پوٹن کو عمان کے سلطان کو یہ بتاتے ہوئے دکھایا گیا کہ روسی توانائی کمپنیاں عمان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

اس دوران پوٹن نے رواں برس کے اواخر میں عرب لیگ کے ممالک کے گروپ کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے روس مغربی پابندیوں کے بعد سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے لیے ایشیائی، افریقی اور عرب ممالک کا رخ کر رہا ہے۔

روسی صدر نے عمان کے سلطان سے کہا کہ "ہم اس سال روس اور عرب ممالک کے درمیان سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

"

امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران

انہوں نے تاریخ اور مقام کی وضاحت کیے بغیر سلطان ہیثم بن طارق السعید کو سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے مزید کہا،"عرب دنیا میں ہمارے بہت سے دوست اس خیال کی حمایت کرتے ہیں۔"

عمانی سلطان کا یہ دورہ اس وقت ہوا ہے، جب چند روز قبل ہی صدر پوٹن نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی ماسکو میں میزبانی کی تھی۔

ادارت جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف زرداری سے وفاقی وزیر داخلہ کی ملاقات،قومی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • وزیر خزانہ کی فِچ ریٹنگز کی ٹیم سے ملاقات، اصلاحاتی ایجنڈے اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • بیرسٹر گوہر سے امریکی نائب سفیر کی ملاقات، رابطے بحال رکھنے پر اتفاق 
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا سے زمبابوے کے فضائیہ کمانڈر کی ملاقات،سیکیورٹی و دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • مریم نواز سے ایتھوپیا کے سفیر کی ملاقات، تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • زمبابوے کی فضائیہ کے کمانڈر کی زیر قیادت وفد کا ایئر ہیڈکوارٹر کا دورہ
  • ایم ڈبلیو ایم وفد کی خالد خورشید سے ملاقات، اہم علاقائی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • عمان کے سلطان اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، ایرانی جوہری مذاکرات پر تبادلہ خیال