الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاو کو ظاہر کیا، سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 20 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس )سپریم کورٹ نے عادل بازئی کیس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاو کو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات محمد شہباز شریف (جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور اب وزیر اعظم پاکستان ہیں)کے خلاف لگائے گئے ہیں، الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول عدالت، ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کیس میں دیے گئے فیصلے کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کے ایک آزاد رکن رہے، یہ بھی واضح کیا کہ اس نے 16 فروری 2024 کے حلف نامے کو کبھی جمع نہیں کرایا، جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ عادل بازئی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی، عادل بازئی نے حلف نامہ جعلی اور من گھڑت ہونے کے بارے میں ایک سول مقدمہ اور فوج داری شکایت درج کرائی، سول مقدمے میں مذکورہ حلف نامہ 2 نومبر 2024 کو سینئر سول جج-1، کوئٹہ نے معطل کر دیا اور فوجداری شکایت میں، ایس ایچ او کی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ حلف نامے کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا گیا۔
اضافی نوٹ میں جسٹس عائشہ نے لکھا کہ چونکہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا اس لیے جب انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ تو دیکھا اور نہ ہی 16 فروری 2024 کے حلف نامے کے حوالے سے اس کے موقف پر غور کیا سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے قبول کرلیا اور اور اس بنیاد پر کارروائی کی، اس عمل نے اپیل کنندہ کے انصاف اور شفاف سماعت کے حق کی خلاف ورزی کی اور ان لوگوں کے حقِ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی جنہوں نے اپیل کنندہ کو ووٹ دیا، یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکا ظاہر کیا۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ جو الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض اور آئین کے دیے گئے معیارات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور غیرجانبداری سے کام کرے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا ہے کہ انتخابات جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کیعمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے بصورت دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کا غیرجانب دار محافظ رہنا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکا سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا، عوامی ووٹ کی بالادستی اس تصور کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک جمہوری نظام میں اختیار اور قانونی حیثیت عوام کی رضامندی سے حاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: میں کہا گیا کے حلف نامے اپیل کنندہ سپریم کورٹ کرتے ہیں ظاہر کیا عوام کی ہیں کہ میں کہ

پڑھیں:

کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔

موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔

سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔

تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

ویب ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں، سہیل لغاری رجسٹرار تعینات 
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • بلوچستان حکومت کی الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنیکی درخواست
  • بلوچستان حکومت نے کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات روکنے کی درخواست کردی: الیکشن کمیشن ذرائع
  • پنجاب بلدیاتی انتخابات: الیکشن کمیشن نے حد بندیوں کیلئے اڑھائی ماہ کی مہلت دے دی
  • پنجاب بلدیاتی انتخابات، الیکشن کمیشن نے حد بندیوں کیلئے ڈھائی ماہ کی مہلت دیدی
  • الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت سے بلدیاتی انتخابات کیلئےضروری ڈیٹا اور نقشے مانگ لیے
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کیلئے صوبائی حکومت کو مزید وقت مل گیا
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، چیف الیکشن کمشنر