ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ظلم و تشدد پر اظہار تشوش
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں جھوٹے اور من گھڑت مجرمانہ مقدمات، نقل و حرکت پر پابندی اور حملے شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے دور میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں بڑھتے ہوئے ظلم و تشدد، امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں بھارتی حکومت نے اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد پہلی بار منعقد ہونیوالے انتخابات میں امن اور سلامتی کی بحالی کے بھارتی حکومت کے دعووئوں کو کشمیریوں نے مسترد کر دیا اور بنیادی آزادیوں پر مسلسل پابندیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ جموں خطے میں مئی اور جولائی 2024ء کے درمیان تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں 15بھارتی فوجی ہلاک اور 9 شہری جاں بحق ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں جھوٹے اور من گھڑت مجرمانہ مقدمات، نقل و حرکت پر پابندی اور حملے شامل ہیں۔
کشمیری صحافی آصف سلطان کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ انہیں پانچ سال کی غیر قانونی نظربندی کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ مودی حکومت کے نقاد صحافیوں اور ویب سائٹس بشمول ہندوتوا واچ کو بلاک کر دیا گیا۔ پانچ صحافیوں کو ویزے جاری نہیں کئے گئے جبکہ تین غیر ملکی صحافیوں کے ورک پرمٹ کی تجدید نہیں کی گئی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں گرفتاریاں اور پولیس کی طرف سے پوچھ گچھ شامل ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز کو نومبر 2021ء سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت نظربند کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان اقدامات نے علاقے میں حکومتی جوابدہی اور میڈیا کی آزادی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کی گئی ہے جو مودی کے دور میں بد سے بدتر ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور نچلی ذات کے ہندوئوں پر مظالم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں اور املاک بلڈوزر سے مسمار کی جا رہی ہیں۔ریاست اتر پردیش میں 15سالہ دلت لڑکے کو پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا جبکہ ایک دلت نرس کو ایک ڈاکٹر کی طرف سے ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے کے دوران دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی معطلی میں بھارت سرفہرست رہا۔ بھارتی حکومت نے فار ن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کے تحت سینٹر فار پالیسی ریسرچ اور ورلڈ ویژن انڈیا جیس این جی اوز کو نشانہ بنایا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رپورٹ میں میں بھارت گیا ہے کہ کیا گیا
پڑھیں:
آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت، شدت اختیار کرتی عدم مساوات اور انسانی تکالیف پر خطرناک بے اعتنائی دنیا کو لاحق اخلاقی بحران کی علامت ہیں۔ رکن ممالک کو بدترین حالات میں بھی بین الاقوامی قانون قائم رکھنا اور انسانی حقوق کا دفاع کرنا ہو گا۔
حقوق کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پراگ (چیک ریپبلک) میں منعقدہ عالمی اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عالمگیر اعتماد، وقار اور انصاف کی بحالی کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔
(جاری ہے)
Tweet URLانہوں نے دنیا بھر میں جاری متعدد بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ کوئی بھی فعل اس واقعے کے بعد غزہ میں جاری موت اور تباہی کا جواز نہیں ہو سکتا جس کی گزشتہ چند دہائیوں میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی برادری میں بہت سے ممالک کی جانب سے غزہ کے مسئلے پر جس طرح کی بے اعتنائی اور بے عملی دیکھنے کو ملی ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے اور اسے ہمدردی، سچائی اور انسانیت کا فقدان کہنا چاہیے۔
انسانی اور اخلاقی بحرانسیکرٹری جنرل نے بتایا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کا عملہ ناقابل تصور حالات میں امدادی کام کر رہا ہے جن میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو زندگی اور موت کے درمیان کی کیفیت میں محسوس کرتے ہیں۔
مئی کے بعد 1,000 سے زیادہ فلسطینی خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ علاقے کی پوری آبادی فاقوں کا شکار ہے۔ یہ انسانی بحران ہی نہیں بلکہ اخلاقی بحران بھی ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر امداد کی آمد ضروری ہے۔
اس کے ساتھ مسئلے کے دو ریاستی حل کی جانب بھی فوری، ٹھوس اور ناقابل واپسی قدم اٹھانا ہوں گے۔انہوں نے سوڈان سمیت دیگر مسلح تنازعات کا تذکرہ بھی کیا اور یوکرین کے خلاف روس کے حملے پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ادارے کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر ملک میں منصفانہ اور پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا۔
بڑھتی ہوئی آمریتسیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ دنیا بھر میں آمرانہ اقدامات زوروں پر ہیں۔ انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اختلافی سیاسی تحریکوں کو کچلا جا رہا ہے، جوابدہی کے طریقہ کار ختم کیے جا رہے ہیں، صحافیوں اور حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے، شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو ناکردہ گناہوں پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر سنگین حملے ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا بطور ہتھیار استعمالانتونیو گوتیرش نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم بطور ہتھیار استعمال ہونے لگے ہیں اور مصںوعی ذہانت کے الگورتھم جھوٹ، نسل پرستی، خواتین کے خلاف نفرت اور تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔
انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمگیر ڈیجیٹل معاہدے پر عمل کریں جسے رکن ممالک نے گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر منظور کیا تھا، اور آن لائن نفرت، تعصب اور گمراہ کن اطلاعات کی بیخ کنی کے لیے مضبوط اقدامات اٹھائیں۔
موسمیاتی انصاف کی ضرورتسیکرٹری جنرل نے ہنگامی موسمیاتی حالات کو انسانی حقوق کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ غریب ترین ممالک اور لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے رواں ہفتے اس مسئلے پر دی گئی مشاورتی رائے کا خیرمقدم کیا جس میں کہا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی موسمیاتی نظام کو تحفظ دینے کے لیے بلاتاخیر ضروری اقدامات اٹھائیں۔
سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ غیرمنصفانہ انداز میں اور انسانی حقوق کو پامال کر کے ماحول دوست توانائی کی جانب مراجعت ناقابل قبول ہو گی۔
دنیا کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ہنگامی بنیاد پر کمی لانا ہو گی، معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی یقینی بنانا ہو گی اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا کرنا ہوں گے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا قابل قدر کردارخطاب کے آخر میں انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمگیر مہم میں اس ادارے نے ناگزیر کردار ادا کیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونے کا مطلب سچائی کے لیے کھڑا ہونا ہےیاد رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 1961 میں قائم کیا گیا تھا جو حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ ادارے نے گزشتہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں اس مقصد کو لے کر اقوام متحدہ کے اشتراک سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
آج انتونیو گوتیرش کا خطاب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی عالمی اسمبلی میں اقوام متحدہ کے کسی سیکرٹری جنرل کی جانب سے کی جانے والی پہلی تقریر تھی۔