190 ملین پائونڈ:کرپشن کی طلسم ہوش رُبا!
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
190ملین پائونڈ کے عنوان سے معروفِ زمانہ مقدمے کا فیصلہ آ گیا۔
اِس طلسمِ ہوش رُبا کاپہلاباب، سندھ سےطلوع ہوتاہےجہاں ملیرڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹائون کے درمیان وسیع وعریض زمین کا تبادلہ ہوا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اِس ڈیل کو خلافِ قانون اور ناجائزقرار دیتے ہوئے بحریہ ٹائون پر 460 ارب روپےکا جرمانہ عائد کر دیاگیا۔ ساڑھے سات برس میں یہ رقم ادا کرنے کےلئےقسط بندی کر دی گئی اور اس مقصد کے لئے، سپریم کورٹ کے زیرنگرانی، نیشنل بنک میں ایک خصوصی اکائونٹ کھول دیاگیا۔
دوسراباب دسمبر2018 میں کھُلاجب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے کچھ کھاتوں میں بےقاعدگی کا سراغ لگایا، تحقیقات کیں اور اُنہیں جُرم سے نتھی کرتےہوئےمنجمدکردیا۔ باہمی سمجھوتے کے تحت، مزید کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر190 ملین پائونڈ کی رقم، ریاستِ پاکستان کو منتقل کرنےکافیصلہ ہوا۔ برطانوی کرائم ایجنسی (NCA) نے باضابطہ طورپر پاکستان کو مطلع کردیا۔ یہاں سے کہانی کا تیسرا بابِ تحیّر کھُلتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مشیرِ احتساب اور ’’اثاثہ جات بازیابی یونٹ‘‘ (ARU) کے سربراہ شہزاد اکبر بھاگم بھاگ لندن پہنچے۔ کرائم ایجنسی کی انتظامیہ اور بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے ملاقاتیں کیں۔ یہاں برطانیہ اورپاکستان کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا۔ شہزاد اکبر ڈھول پیٹتے ہوئے وطن واپس آئے کہ تاریخ کی سب سے بڑی رقم بازیاب کرلی گئی جو ریاستِ پاکستان کو واپس مل رہی ہے۔ انتہائی مجرمانہ واردات یہ ہوئی کہ شہزاد اکبرنے، برطانوی ایجنسی کورقم جمع کرانےکے لئےریاستِ پاکستان کےاکائونٹ کےبجائے، پراپرٹی ٹائیکون کے اُس کھاتے کا نمبر دے دیا جو بحریہ ٹائون کے جرمانے کی ادائیگی کے لئےکھُلا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ جس فرد سے برطانوی ایجنسی نے بھاری رقم وصول کرکے ریاست پاکستان کو بھیجنا تھی، پاکستان کے برسراقتدار طاقت ور گروہ نے اُسی فرد کو واپس کردی۔ سو ٹیکس کاٹ کر 171 ملین پائونڈ سے زائد رقم پاکستان تو آ گئی لیکن پاکستان کے عوام اُس سے محروم کردیئے گئے۔ ایسا کیوں کیاگیا؟ ایسا کرنے والوں کو کیا ملا؟ کیا یہ واقعی سنگین کرپشن کی واردات تھی؟ کہانی کے مختلف ابواب اِن سوالوں کا نہایت واضح جواب دیتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں کی نیم تاریک راہداریوں اور اسلام آباد کے کچھ پُرتعیش گھروں میں معاملات طے پائے۔
مفادِ باہمی کی خفیہ ’’مفاہمتی یاداشت‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عجوبۂِ روزگار واردات دسمبر کے اوائل میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت، کابینہ کا اجلاس، رسمی ایجنڈے کی تکمیل کے بعدختم ہونے کو تھا کہ شہزاد اکبر نے ایک سیل بند لفافہ لہراتے ہوئے کہا ’’ایک ایجنڈا آئٹم اور بھی ہے۔‘‘ کم وبیش نصف درجن وزرا نے سوال اٹھایا کہ ’’ہمیں کیا معلوم اس بند لفافے میں کیا ہے؟ ہم کیسے آنکھیں بند کرکے اس کی منظوری دے دیں۔‘‘ وزیراعظم نے اعتراض مسترد کردیا۔ وزرا خاموش ہوگئے۔ اس خاموشی کو ایجنڈا آئٹم کی توثیق قرار دے دیا گیا۔
دو تین ہفتوں بعد،جنوری 2020ء میں، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں بحریہ ٹائون نے 485 کنال، 4 مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین وزیراعظم عمران خان کے رفیقِ خاص اور دستِ راست ذُلفی بخاری کے نام کردی ۔ راتوں رات القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ بھی رجسٹر کرادیاگیا۔ جنوری 2021ء میں یہ ساری زمین چار ٹرسٹیوں (عمران خان، بشریٰ بی بی، بابر اعوان اورذُلفی بخاری) پرمشتمل ٹرسٹ کے نام منتقل ہوگئی۔ چارماہ بعد ٹرسٹ کے چیئرمین عمران خان متعلقہ اتھارٹی کو خط لکھ کر بابراعوان اور ذُلفی بخاری کو ٹرسٹ سے خارج کردیتے ہیں۔ یوں زمین سمیت ٹرسٹ کے سارے اثاثے میاں بیوی کی ملکیت بن گئے۔
پی۔ٹی۔آئی کی ’’ریاست مدینہ‘‘ میں رقم ہونے والی اس پُراسرار داستان نے، امانت ودیانت کی ایک صوفیانہ کروٹ اُس وقت لی جب 137 سال پرانے، ٹرسٹ ایکٹ1882 میں ترمیم کرتے ہوئے ’اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ2020 ‘نافذالعمل ہوگیا۔ قراردیاگیا کہ اسلام آباد کی حدود میں واقع تمام ٹرسٹ، نئے قانون کے تحت خود کورجسٹر کرائیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن منسوخ ہوجائے گی۔ کوئی باور کرسکتا ہےکہ خود’ القادر ٹرسٹ‘ نے اپنے آپ کو نئے قانون کے تحت رجسٹر نہ کرایا اور یوں صرف آٹھ ماہ بعد، قانون کی نظر میں ’القادر ٹرسٹ‘ دَم توڑ گیا۔ اِس کی ساری زمین اور تمام اثاثے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ذاتی تصرف میں آ گئے۔
عدالتی فیصلے میں ایک اور حیرت فزا کہانی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ جن دِنوں 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں گئے اور ’القادر یونیورسٹی‘ کا بابِ فضیلت کھُلا، عین اُنہی دِنوں جولائی اوراکتوبر2021 میں، بحریہ ٹائون مالکان کی طرف سے دو قسطوں میں، بنی گالہ کے قرب وجوار میں 245 کنال نہایت قیمتی اراضی بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح شہزادی کے نام منتقل کی گئی۔ بحریہ ٹائون انتظامیہ اور بشریٰ بی بی کے دستخطوں سےایک اورمعاہدہ بھی سامنے آیا ہےجس کے تحت ’القادر یونیورسٹی‘ کی تعمیر، فرنیچر، ہرنوع کےسازوسامان اورعملے کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجات ِجاریہ کی ذمہ داری بحریہ ٹائون نے اٹھالی۔
حسین شہیدسہروردی سےشہبازشریف تک متعددوزرائے اعظم اور سیاستدانوں پر کرپشن سمیت کیسےکیسے الزامات نہیں لگے۔ کسی ایک پربھی ایسے ٹھوس،ناقابلِ تردید اور واضح شواہد کے ساتھ مقدمہ نہیں بن پایا۔ 190 ملین پائونڈ تو دیدہ دلیری ، بدعنوانی اور لوٹ مار کی ایسی کہانی ہے جس میں کوئی جھول ہے نہ کمی کجی۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے لے کر 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتےمیں ڈالنےاوراس کھاتہ دار سے اربوں روپے رشوت اور ’’کک بیکس‘‘ کےطورپروصول کرنے کی کہانی کی تمام چُولیں مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں اورزنجیر کی ہرکڑی، دوسری کڑی سے جُڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ سازی کے ہُنر میں طاق قبیلہ بھی ہکلانے لگا ہےاوراُسکے لئے کارِمُوشگافی مشکل ہوگیا ہے۔
چھبیس برس تک دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈرر، کرپٹ اور عوام دشمن قرار دینے والا کردار، صرف ایک مقدمے نے پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ سونے کی انگوٹھیوں اور پسِ چلمن کے مفادباہمی کی داستانوں کو جانے دیجیے۔ لائق فکر بات یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ممکن ہے یہ محبوب سبحانی، غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی تصرّفات کاکوئی معجزنماپہلوہوجن کامبارک نام کھلی کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار سے جُڑی ایک متعفن واردات سے جوڑ دیاگیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ اب تاویلات کا حیاباختہ سلسلہ اِس شرمناک دلیل کےساتھ جوڑا جارہا ہےکہ یہ سب کچھ سرکارِِمدینہ ﷺ کی تعلیمات کے فروغ کےلئےکیاجا رہا تھا۔ کرپشن کی یہ واردات درجنوں سوالات اٹھا رہی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان اور اُن کے شریکِ جرم ساتھیوں نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا تو پھر سینکڑوں ایکڑ اراضی، نقد رقوم، ہیرے جواہرات اور لاتعداد دوسری عنایات کی برکھا عمران خان، بشریٰ بی بی اور اُن کے حاشیہ نشینوں پر کیوں برستی رہی؟ کیا کوئی کاروباری شخص اس قسم کے ’’سودے‘‘ کا تصور بھی کرسکتا ہے چاہے اُس کے سینے میں حاتم طائی کا دِل ہی کیوں نہ دھڑکتا ہو؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بحریہ ٹائون کے ملین پائونڈ پاکستان کو پاکستان کے کے تحت
پڑھیں:
سال 2024-25 میں چینی برآمد کرنے والی شوگز ملز کی فہرست سامنے آگئی
اسلام آباد:جولائی 2024 سے جون 2025 کے درمیان چینی برآمد کرنے والی شوگر ملز کی فہرست سامنے آگئی۔
دستاویز کے مطابق مجموعی طور پر 67 شوگر ملز نے 40 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی برآمد کی، جس میں سب سے زیادہ 7 کروڑ 30 لاکھ 90 ہزار کلو چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے برآمد کی۔
تاندلیاں والا شوگر ملز نے 4 کروڑ 14 لاکھ 12ہزار 200 کلو اور حمزہ شوگر ملز نے 3کروڑ 24 لاکھ 86 ہزار کلو چینی برآمد کی۔ تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمٹیڈ نے دو کروڑ 91 لاکھ 7ہزار کلو اور المعیز انڈسٹریز نے 2کروڑ 94 لاکھ 52ہزار کلو چینی برآمد کی۔
جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے سب سے زیادہ 73ہزار90 میٹرک ٹن چینی 11 ارب 10 کروڑ روپے میں برآمد کی۔ تندلیانوالہ شوگر ملز نے 41ہزار412 میٹرک ٹن چینی 5 ارب 98 کروڑ روپے میں برآمد کی اور حمزہ شوگر ملز نے 32ہزار486 میٹرک ٹن چینی 5 ارب 3 کروڑ روپے میں برآمد کی۔
تھل انڈسٹریز کارپوریشن نے 29ہزار107 میٹرک ٹن چینی 4ہزار553 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔ المعیز انڈسٹریز نے 29ہزار453 میٹرک ٹن چینی 4ہزار322 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔
جے کے شوگر ملز نے 29ہزار969 میٹرک ٹن چینی 4ہزار89 ملین روپے، مدینہ شوگر ملز نے 18ہزار869 میٹرک ٹن چینی 2ہزار787 ملین روپے، فتیما شوگر ملز نے 17ہزار365 میٹرک ٹن چینی 2ہزار684 ملین روپے، ڈیہرکی شوگر ملز نے 16ہزار533 میٹرک ٹن چینی 2ہزار447 ملین روپے اور رمضان شوگر ملز نے 16ہزار116 میٹرک ٹن چینی 2ہزار413 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔
انڈس شوگر ملز نے 14ہزار47 میٹرک ٹن چینی 2ہزار103 ملین روپے، اشرف شوگر ملز نے 11ہزار317 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار669 ملین روپے، شکر گنج لمیٹڈ نے 7ہزار867 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار128 ملین روپے، یونی کول لمیٹڈ نے 6ہزار857 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار19 ملین روپے اور حبیب شوگر ملز نے 6ہزار253 میٹرک ٹن چینی 960 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔
وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادوں کی ملکیت رمضان شوگر ملز نے 2ارب 41 کروڑ روپے کی چینی برآمد کی جبکہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز جے ڈی ڈبلیو اور جے کے شوگر ملز نے 15 ارب روپے سے زائد کی چینی برآمد کی۔