اسلام ٹائمز: سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس کے اپنے گلشن کے ایک حصے میں ”آگ“ لگی ہو وہ دوسروں کے گھروں کی آگ کیسے ٹھنڈی کرے گا؟ اور پھر ماضی میں جس کا کام ہی دوسروں کے آشیانوں کو جلانا رہا ہو اس سے یہ توقع رکھنا کو وہ تند رو ہواؤں کو لگام دے گا اور جلتے ہوئے آشیانوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرے گا، محض بنجر زمین پر امیدوں کی فصل کاشت کرنا ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
آج کل پاکستان کے تقریباً ہر تجزیہ نگار کا تجزیہ انہی موضوعات کے گرد گھومتا ہے کہ ٹرمپ کیا سوچتا ہے؟ ٹرمپ کیا دیکھتا ہے؟ ٹرمپ کیا بولتا ہے اور ٹرمپ کیا کرتا ہے ؟ گویا تمام دنیا لمحہء موجود میں ٹرمپ کے ابرو کے اشارے کی منتظر ہے۔ ہمارے اکثر سیاست دان جو ”پرفارمنگ آرٹس“ میں مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے ٹرمپ کی نظر التفات کو اپنی جانب مبزول کرنے کے لیے ابھی سے ٹرمپ کی پسندیدہ تال پر رقص کرنا شروع کر دیا ہے لیکن ٹرمپ ہیں کہ ان کے شیڈول میں ابھی تک وائٹ ہاؤس کے دروازے پر نظریں جمائے ہوئے اپنے ان چاہنے والوں کے لیے اپنی آنکھ کا ایک اشارہ بھی مختص نہیں ہے۔ ٹرمپ کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اس طرح کے رقص میں ایسے ”آزادی پسندوں“ کا ”رقص درویش“ بھی شامل ہے جو زندان میں پابند سلاسل ہیں۔ فنون لطیفہ کے اس شعبے میں اپنا جدا رنگ دکھانے کے لیے ان کی نوک زباں پر اس وقت حبیب جالب کا یہ معروف مصرع ہے کہ:
”رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے“
جبکہ ان کو زندان کی سیر کرانے والے بھی کبھی بڑے ذوق شوق سے اور لہک لہک کر جالب کا ہی یہ شعر بھری محفل میں گایا کرتے تھے کہ:
”ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا“
قفس میں ان پر کٹے مرغان بسمل کے علاوہ بھی گلشن میں جو اپنے پر سلامتی کے ساتھ پھیلائے رکھتے ہیں اور جنہیں ہر بدلتے موسم میں اپنا کاروبار زیست چلانے کے لیے کسی نئے سہارے کی ضرورت ہے، وہ بھی آج نظریہء ضرورت کے تحت اپنے کلاسیکی اسلوب میں فیض کی یہ غزل گاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ:
”گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آو کی گلشن کا کاروبار چلے‘‘
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس کے اپنے گلشن کے ایک حصے میں ”آگ“ لگی ہو وہ دوسروں کے گھروں کی آگ کیسے ٹھنڈی کرے گا؟ اور پھر ماضی میں جس کا کام ہی دوسروں کے آشیانوں کو جلانا رہا ہو اس سے یہ توقع رکھنا کو وہ تند رو ہواؤں کو لگام دے گا اور جلتے ہوئے آشیانوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرے گا، محض بنجر زمین پر امیدوں کی فصل کاشت کرنا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم منجدھار میں پھنسی ہوئی اپنی کشتی کو کنارے پر لگانے کے لیے بظاہر کسی اور سے مدد چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں اپنے آپ کو غرق ہونے سے بچانے کے لیے کسی اور کے ”امدادی بیڑے“ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بیڑا ہمیشہ ہمیں سمندر کی طوفانی لہروں کے درمیان میں تنہا چھوڑ کر خود ہوا ہو جاتا ہے اور پھر ہماری امیدوں کا ”ٹائی ٹانک“ اپنی تمام امیدوں کے ساتھ غرق دریا ہو جاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دوسروں کے ٹرمپ کیا ٹرمپ کی کرے گا کے لیے
پڑھیں:
دعا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے: وزیراعظم شہباز شریف
---فائل فوٹووزیرِ اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب پہنچنے پر سعودی فضائیہ کے ایف-15 لڑاکا طیاروں کی جانب سے پرتپاک استبال کرنے پر ولی عہد، محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے دیے گئے والہانہ استقبال نے نہایت متاثر کیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اِن کے طیارے کو سعودی شاہی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے غیر معمولی انداز میں اسکواٹ کیا جبکہ سعودی افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق یہ سب کچھ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قائم دیرینہ محبت اور باہمی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے اپنے ایکس پیغام میں مزید بتایا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سے نہایت خوشگوار اور بامقصد ملاقات ہوئی، جس میں خطے کے حالات اور دو طرفہ تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچ گئے۔
وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کی قیادت اور مسلم دنیا کے لیے اِن کے وژن کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور دو طرفہ سرمایہ کاری، تجارت اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’اِن کی دعا ہے پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے، انشاء اللّٰہ۔‘