ٹرمپ نے اسپین کو دھمکی دے ڈالی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسپین کو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے بلاک ’ برکس‘ ( BRICS ) کا حصہ سمجھتے ہوئے ٹیرف میں زبردست اضافہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔
عالمی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس میں نئے نئے براجمان ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نےا سپین کو برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقا، مصر، متحدہ عرب امارات، ایران اور ایتھوپیا کے معاشتی اتحاد ’ برکس ‘کا حصہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے ٹیرف میں اضافے کی دھمکی دے ڈالی۔
اوول آفس میں ایک صحافی کے اسپین کی جانب سے معیشت کا 2 فیصد دفاع پر خرچ نہ کرنے کے سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسپین اس فہرست میں بہت نیچے ہے۔ پھر امریکی صدر نے کہا کہ وہ برکس کے ممالک میں شامل ہے، بہت جلد اسے اندازہ ہوجائے گا جب ٹیرف میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔
واضح رہے کہ اسپین یورپی یونین اورناٹو کا رکن ہے۔ ناٹو کا رکن ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے اپنی آمدن کا 2 فیصد دفاعی اخراجات کی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے مگر گذشتہ برس اس نے اس مد میں 1.
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسپین کی وزیرتعلیم اور حکومت کی ترجمان پلار الیگیریا نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ امریکی صدر نے یہ بات کیوں کی، یا تو وہ کچھ بھول گئے یا کسی غلط فہمی کا شکار ہوگئے مگر میں اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ اسپین ’ برکس ‘ کا رکن نہیں ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
شام پر امریکی پابندیوں کا اختتام: 25 سال بعد ایک نئی شروعات کی امید
امریکا نے شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی راہ پر ڈالتے ہوئے 13 سال سے جاری اقتصادی پابندیوں کو باضابطہ طور پر اٹھانے کا تاریخی فیصلہ کرلیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو کے مطابق، شام کو 180 دن کی معطلی کے بعد یہ پابندیاں مکمل طور پر ختم کردی گئی ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کی جانب پہلا اہم قدم ہے۔
امریکی وزیر خزانہ نے اس موقع پر کہا کہ ’’شام کو ایک مستحکم اور خوشحال ملک بننے کے لیے کام جاری رکھنا چاہیے۔ ہمارے یہ اقدامات شامی عوام کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘‘
یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض میں ہونے والے سرمایہ کاری فورم میں کیے گئے اعلان کے بعد عمل میں لایا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے بعد شام پر پابندیاں اٹھانے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم شام کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک نئی شروعات کے لیے ہم نے شام پر سے پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ ’’شامی عوام اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملک کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘‘
اس فیصلے کے بعد ایک اور تاریخی واقعہ اس وقت پیش آیا جب شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے سعودی عرب میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ یہ 25 سال بعد شام اور امریکا کے سربراہان مملکت کی پہلی براہ راست ملاقات تھی، جو خطے میں نئے سیاسی دور کا اشارہ دے رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ قدم نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ شام پر پابندیوں کے خاتمے سے نہ صرف شامی معیشت کو فروغ ملے گا، بلکہ یہ خطے میں امن اور استحکام کے امکانات کو بھی تقویت دے گا۔ تاہم، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ شام میں اب بھی بہت سے چیلنجز موجود ہیں جن پر قابو پانا ہوگا۔