سٹی42 : سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ گرین پنجاب مشن کے تحت سموگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور تاریخی شجرکاری مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران سموگ کے خاتمے کے لیے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد درخت لگائے جا چکے ہیں۔

 مریم اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال 2025-26 میں مجموعی طور پر پانچ کروڑ 10 لاکھ درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی فارسٹ کوریج تصور کی جا رہی ہے۔

حفیظ سنٹر لاہور میں فائر ریسکیو آپریشن ؛ سیکرٹری ایمرجنسی سروسز کا فائر فائٹرز کو خراج تحسین

 انہوں نے کہا ہے کہ سموگ کے خلاف ہماری جنگ صرف موسمی نہیں بلکہ یہ سسٹم بیسڈ اصلاحات اور ماحولیاتی ایمرجنسی کے تحت مستقل بنیادوں پر جاری ہے، اس مقصد کے تحت ’’پلانٹ فار پاکستان‘‘ انیشی ایٹو کے تحت 3 کروڑ 42 لاکھ درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو 41 ہزار 345 ایکڑ رقبے پر پھیلایا جا رہا ہے، ساتھ ہی گرین پاکستان پروگرام کے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے 18 ہزار 385 ایکڑ پر 1.

5 کروڑ سے زائد درختوں کی شجرکاری پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔

شکر گڑھ میں درمیانے درجے کا سیلاب، زمینی رابطہ منقطع

 مریم اورنگزیب کے مطابق نہروں اور شاہراہوں کے کنارے 3000 کلومیٹر طویل رقبے پر 18 لاکھ پودے لگانے کا عمل جاری ہے، جبکہ مری اور کہوٹہ میں جنگلاتی آگ اور سموگ کے تدارک کے لیے ’’شیلڈنگ سمٹس پروگرام‘‘ کے تحت 600 فائر واچرز کی بھرتی کی گئی ہے، واچ ٹاورز اور فائر وہیکلز کی فراہمی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی جی آئی ایس، ڈرونز اور سیٹلائٹ نگرانی کے نظام کو فعال بنا دیا گیا ہے تاکہ تجاوزات اور آتشزدگی کی فوری نشاندہی ممکن بنائی جا سکے۔

جیل روڈ سے ملحقہ سڑک پر شگاف پڑ گیا ،اتنظامیہ غائب

 سینیئر وزیر کا کہنا ہے صوبہ بھر میں 104 فارسٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز قائم کیے گئے ہیں تاکہ جنگلات کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کو یقینی بنایا جا سکے، ماحولیاتی سیاحت کے فروغ کیلئے لال سوہانرا نیشنل پارک اور سالٹ رینج میں بین الاقوامی معیار کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ محفوظ قدرتی علاقوں کے قیام کے لیے ماحول دوست لیڈ سرٹیفائیڈ عمارتوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی ہے جو ماحولیاتی توازن کی بحالی میں اہم سنگ میل ثابت ہو رہی ہے، درختوں کی قطاروں کی ڈیجیٹل نمبر شماری اور جی آئی ایس پر مبنی فہرست سازی کا عمل جاری ہے تاکہ شفافیت اور مؤثر منصوبہ بندی کو یقینی بنایا جا سکے۔

اوپن اے آئی کا گوگل سرچ کے مقابلے پر براؤزر لانچ کرنے کا اعلان

 مریم اورنگزیب نے کہا کہ کہ ہم اپنی نسلوں کے لیے ایسا ماحول چھوڑنا چاہتے ہیں جو سانس لینے کے قابل ہو، اور درختوں کی حفاظت دراصل زندگی کی حفاظت ہے۔

 سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ پلانٹ فار پاکستان ہو یا گرین پنجاب پروگرام، یہ صرف شجرکاری کے منصوبے نہیں بلکہ مستقبل کو محفوظ بنانے کی ایک وسیع البنیاد قومی تحریک ہیں۔
 
 

اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لینے اہل خانہ کراچی پہنچ گئے، قانونی کارروائی جاری

Ansa Awais Content Writer

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سٹی42 مریم اورنگزیب نے نے کہا کہ کے تحت کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

تاریخ کے اوراق پرجب کبھی انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں،تب سیاست کی بازی گری،عسکری چالاکی اور سفارتی مکاری اپنے جوبن پرنظرآتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطی کے افق پروہی کہانی ایک نئے باب کے ساتھ ابھری،جہاں امریکی پینٹاگون میں تیارکی گئی خفیہ حکمتِ عملی نے دنیاکی نظریں ایران کی جوہری تنصیبات سے ہٹاکرایک گمنام جزیرے پر مرکوزکردیں۔گویایہ منظروہی تھاجسے عربی محاورے کے مطابق’’چشمِ زدن میں صحراؤں کو گلستان اورگلستانوں کوویرانہ کرنے والی‘‘چال کہاجاسکتا ہے ۔امریکااوراسرائیل کاتعلق محض دو ریاستوں کادوستانہ رشتہ نہیں،بلکہ بیسویں اوراکیسویں صدی کی تاریخ کاسب سے پیچیدہ،ہمہ گیر اورہمہ جہت باب ہے۔یہ باب محض مادی امداداورسیاسی حمایت تک محدود نہیں،بلکہ تاریخی،تہذیبی،اقتصادی اوراسٹریٹجک پہلوئوں کا ہمہ گیرامتزاج ہے۔اس کی بنیادمحض ’’دوستی‘‘ یا ’’اتحاد‘‘کی سادہ تعریف میں سمیٹ دینا تاریخ اور سیاسیات دونوں کی توہین ہوگی۔امریکی سیاسی تاریخ میں اسرائیلی لابی کااثرورسوخ محض محاورہ نہیں بلکہ وہ محکم حقیقت ہے،جووائٹ ہاس اورکیپیٹل ہِل تک پھیلی ہوئی ہے۔اسرائیل اورامریکاکارشتہ محض دوریاستوں کا دوستانہ بندھن نہیں،بلکہ اس کی بنیادگہری اسٹریٹجک ہم آہنگی،مشترکہ تہذیبی بیانیے اورسرمایہ واثرونفوذکی مضبوط زنجیر پراستوارہے۔
(اے آئی پی اے سی)،(اے ڈی ایل)، (جے آئی این ایس اے)،وہ تمام تنظیمیں ہیں جن کے مختلف کرداراورتوجہ اسرائیل اوریہودی قوم سے متعلق ہے،حالانکہ وہ الگ الگ ادارے ہیں۔اے آئی پی اے سی،امریکامیں اسرائیل نوازلابنگ گروپ ہے۔ اے ڈی ایل،(اینٹی ڈیفیمیشن لیگ)سام دشمنی اورنفرت کی دیگراقسام کامقابلہ کرتی ہے،جبکہ اسرائیل سے متعلق مسائل کوبھی حل کرتی ہے۔جے آئی این ایس اے (یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی امور) امریکی قومی سلامتی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات پر توجہ مرکوزکرتاہے، گویاامریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ امریکامیں کوئی بھی جماعت ان کے تعاون کے بغیرحکومت سے قاصررہتی ہے۔
1948ء میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد، سردجنگ کے سائے تلے امریکانے اسرائیل کومحض خطے کااتحادی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا’’نگہبانِ اقتدار‘‘ قرار دیا۔اسرائیل کا جغرافیائی محلِ وقوع،اس کی جدیدعسکری صلاحیت اوراس کا سٹریٹجک محاذپرہمہ تن مصروف رہناواشنگٹن کی پالیسی کاحصہ بن گیا۔یوں اسرائیل، امریکی سامراجی پالیسی کامحوری ستون بن کر ابھرا اور امریکااوراسرائیل کے مابین حربی اوراسٹریٹجک تانے بانے لازم وملزوم ہوگئے۔امریکاکی سیاسی تاریخ میں اسرائیل کی لابی کااثرورسوخ محض خارجی پالیسی تک محدود نہیں ،بلکہ انتخابی مہمات، قانون سازی اور وائٹ ہاس کی پالیسی ترجیحات تک پھیلاہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فورابعدامریکااس کاسب سے بڑاسفارتی واقتصادی پشت پناہ بن کرسامنے آیا۔
امریکااوراسرائیل کارشتہ محض ریاستی یا اسٹریٹجک اتحادتک محدودنہیں۔یہ تاریخی،تہذیبی اور اقتصادی پہلوئوں کاہمہ گیرحصہ ہے۔ امریکی صدر،خواہ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹ،اس ناطے کاحصہ بننے اوراس کاتحفظ کرنے پرمجبورہے۔ اے آئی پی اے سی اوردیگر یہودی لابی تنظیمیں امریکاکی داخلی سیاست میں اس درجہ نفوذرکھتی ہیں کہ کسی بھی امریکی صدرکو اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخی نتائج کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکی تاریخ میں اس امرکی مثالیں موجودہیں کہ اسرائیلی لابی کااثرورسوخ امریکی صدراور پالیسی سازوں پرکس طرح غالب آسکتاہے۔
اس تناظرمیں جان ایف کینیڈی،رچرڈنکسن اوربارک اوباما تین ایسے امریکی صدورتھے، جنہوں نے اپنے دورمیں اسرائیل یااس کی پالیسیوں کوچیلنج کرنے کی جرت کی،یاآزادی سے اقدامات کیے لیکن اس آزادی کی قیمت چکانی پڑی،کیونکہ یہودی لابیوں اور طاقتور تنظیموں نے تینوں کی سخت مخالفت کی۔
1960ء کی دہائی میں جان ایف کینیڈی اوراسرائیل کاتاریخی تنااس بات کااولین مظہر ہے۔ کینیڈی نے اسرائیل کودیمونانیوکلیئرری ایکٹر پرعالمی معائنے کی شرط عائدکرنے کی کوشش کی،اوراس پالیسی نے اسرائیل اوراس کی لابی میں شدیدبے چینی اور مزاحمت کوجنم دیا۔کینیڈی نے اسرائیل پرزور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کوبین الاقوامی معائنے اورکنٹرول میں لائے۔اس کامقصدمشرقِ وسطی میں جوہری اسلحے کی دوڑکاسد باب تھا۔اسرائیلی حکومت نے اس دباؤکو شدید ناپسندکیا۔کینیڈی کاکھلے عام قتل اوراس کے اردگرد تاریخی سازشوں کاتذکرہ محض سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکی سیاسی ذہن میں پائے جانے والے شکوک کاحصہ بھی ہے۔یہ واقعہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اوراسرائیلی لابی کاتنامحض سیاسی نہیں،بلکہ تاریخی،اسٹریٹجک اورنفسیاتی محاذکاحصہ ہے۔
رچرڈ نکسن (1969۔1974)کا دور سردجنگ کاحساس ترین حصہ تھا۔اسرائیل اورعرب ریاستوں کامحاذگرم تھااورامریکا دونوں طرف توازن قائم کرنے کی جدوجہدمیں تھا۔ 1973ء کی یومِ کپورجنگ میں اسرائیل کی بقاخطرے میں تھی۔ نکسن نے بڑے پیمانے پراسلحہ اورسازوسامان اسرائیل کومہیاکیا، تاہم اس عمل میں اس کی پالیسی میں تذبذب اور دیگرعرب ریاستوں کوبھی انگیج کرنے کی خواہش اسرائیلی لابی کوناگوارگزری۔
اس دورمیں وزیرخارجہ ہینری کسنجر نے عرب۔ اسرائیل معاملے میں نسبتاً متوازن رویہ اپنایالیکن ہینری کسنجر کااعتدال پسندرویہ جو یہودی لابیوں اوراسرائیل کی سخت گیرقیادت کو ناپسندتھا۔لابیوں نے نکسن کواسرائیل کی حمایت میں ’’کمزور‘‘ اور’’دوغلا‘‘ قراردیا۔ مکافاتِ عمل میں واٹرگیٹ اسکینڈل نے نکسن کواقتدارچھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بعض مبصرین نے اس ضمن میں یہودی لابیوں اورمیڈیا کارویہ غیرمعمولی سخت قراردیاحالانکہ واٹرگیٹ کامعاملہ قانون اوراحتساب کاحصہ تھالیکن اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے اس دوران نکسن کی پالیسیوں کوتنقیدکاحصہ بناتے ہوئے اس کی ساکھ اورسیاسی طاقت کو مزید کمزورکرنے کی کوشش کی۔ واٹرگیٹ کا معاملہ محض قانون شکنی کامعاملہ نہیں رہا بلکہ اقتدارکے قبل ازوقت خاتمہ کے علاوہ سیاسی محاذ پربھی تاریخی دھبہ اور دشمنیوں کاحصہ بن گیا۔ اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے یہ پیغام دیاکہ جو امریکی صدراسرائیل یااس کی پالیسیوں پرتنقید کرے گا،وہ اقتدارمیں مشکلات کاشکار ہو سکتا ہے ۔
بارک اوباما 2009۔2017ء ) کا دور مشرقِ وسطیٰ میں نئے چیلنجوں اورنئے رجحانات کادورتھا۔عرب اسپرنگ،ایران نیوکلیئرڈیل اور اسرائیل کی بستیاں بسانے کی پالیسی جیسے مسائل اس دورکی نمایاں نشانیاں بنے۔اوبامانے ایران کونیوکلیئرمیدان میں محدودکرنے اور خطے کوبڑے جنگی خطرے سے بچانے کی خاطر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن تاریخی معاہدہ کیا۔ اسرائیل اوراس کی حامی یہودی لابیوں نے اس معاہدے کواسرائیل کی سلامتی اورامریکی اسٹریٹجک مفادکا ’’ناقابلِ معافی سودا‘‘قراردیا۔نیتن یاہونے امریکی کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کی شدیدمخالفت کی،اوراوباماانتظامیہ کواسرائیل دشمن قراردیا۔امریکی یہودی لابی نے اوباماکی پالیسیوں کو ’’تاریخی غلطی ‘‘قرار دیا ۔
اوبامانے فلسطین۔اسرائیل تنازعے میں دوریاستی حل کی تائیداورمغربی کنارے میں اسرائیل کی بستیاں بسانے کی مخالفت کی۔اس پالیسی کوامریکی یہودی لابی نے اسرائیل کی سکیورٹی اوربقاپرحملہ تصورکیا۔اوبامااورنیتن یاہوکی ذاتی اورسیاسی کشمکش وتناؤ اس دورکا حصہ رہی۔اس تناؤنے یہ تاثرمضبوط کیاکہ اوبامااسرائیل اوریہودی لابی کی روایتی حمایت سے کچھ فاصلے پرکھڑے تھے۔ایران ڈیل کی حمایت کرنے والاامریکی صدر،اسرائیل اوراس کی لابی کی نظروں میں’’مخالف‘‘قرار پایا۔ نیتن یاہواوراوباماکی سردمہری نے اسرائیل ۔ امریکاتعلقات میں عارضی تناؤپیداکیا، تاہم روایتی امداداوراسٹریٹجک اتحادبرقراررہا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ رچرڈنکسن اوربارک اوباماکی مثال اس تاریخی سچائی کاحصہ ہے کہ امریکاکی داخلی سیاسی بساط پریہودی لابیوں اوراسرائیلی اثرورسوخ کاغیرمعمولی اثرہے۔ نکسن کادوراس بات کی مثال ہے کہ امریکی صدور کو اسرائیل کی پالیسیوں پر آزادی یاتذبذب کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔اوباماکادوریہ درس دیتاہے کہ ایک مضبوط صدر،جو سفارت کاری اورامن کی زبان بولے،بھی لابیوں اورتنظیموں کی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے تنقید،سیاسی دبااور تاریخی جدوجہد کا حصہ بن سکتاہے۔نکسن اوراوباماکی مثال اس امر کا بھی اعلان ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں اوراس کی لابیوں کا اثر امریکی نظامِ سیاست اوراقتدارکی راہ گزرپرکس حدتک محیط ہے۔
امریکی سیاسی روایت گواہ ہے کہ اسرائیلی لابی کسی بھی صدریاقانون سازکو،جواس کی پالیسی یا مفادات سے متصادم ہو،مختلف محاذوں پرچیلنج کرسکتی ہے۔ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اوردیگربڑے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نواز بیانیے کافروغ سب سے بڑاہتھیارہوتاہے۔ دوسرااسرائیلی لابی اپنے مالی اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہمات میں تمام سیاسی پارٹیوں میں چندہ اورسرمایہ کاری کابے دریغ استعمال کرتی ہیں۔قانون سازمحاذمیں مضبوط عمل دخل کے ساتھ سینیٹ اورایوانِ نمائندگان میں اسرائیل حامی ارکان کامحاذآرائی پرآمادہ ہونابھی اس بات کی دلیل ہے اوراس کے ساتھ ہی پینٹاگون اوراسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اسرائیل نوازبیوروکریٹس کامؤثر انتظامی دباؤبھی حکومت کومجبور کردیتاہے۔تین تاریخی مثالوں سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔ (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • کرٹس کیمفر کا تاریخی کارنامہ، ٹی20 میں 5 گیندوں پر 5 وکٹیں
  • سموگ سے نمٹنے کیلیے تاریخی شجرکاری مہم کا آغاز کر دیا گیا: مریم اورنگزیب
  • اسموگ سے نمٹنے کیلیے تاریخی شجرکاری مہم کا آغاز کر دیا گیا، مریم اورنگزیب
  • بھارت کو جھٹکا ،چین نے دریائے برہما پترا ڈیم کی تعمیر شروع کردی
  • کچھ تاریخی حقیقتیں
  • خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں
  • انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
  • موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں، وفاقی وزیر خزانہ
  • راولپنڈی میں اربوں کے پراجیکٹس کا افتتاح، پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے منصوبے شروع کرینگے: مریم نواز