سندھ ہائیکورٹ: چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کیخلاف درخواستیں مسترد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کیخلاف درخواستیں مسترد کردیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی جہاں درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کے دوران 2 سینئر ترین ججز کو سپرسیڈ کیا گیا، سینئر ترین جج کو چیف جسٹس پاکستان بننا چاہیے، اسپیشل پارلیمانی لمیٹی نے سینئر ججز کو بغیر وجوہات دیے بائی پاس کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے جو طریقہ کار تھا وہ پاکستان بننے کے بعد نئے آئین میں تبدیل ہوا، پارلیمنٹ کی حکمت کو کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو من مانی کا اختیار نہیں ہے، عدالت کاکہنا تھا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ سینئر ترین جج کو منتخب نہ کرنے کی وجوہات دی جائیں؟ آئین کے آرٹیکل 175(3) دوبارہ پڑھیں، ہائیکورٹ میں ججز کو ڈراپ کرنے کی وجوہات دینی ہوتی ہیں، چیف جسٹس پاکستان کیلیے آئین کی اسکیم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان کے تقرر تھا کہ
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔