UrduPoint:
2025-04-26@01:47:41 GMT

ہم اندھی محبت اور اندھی نفرتوں کے عادی لوگ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ہم اندھی محبت اور اندھی نفرتوں کے عادی لوگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جنوری 2025ء) ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 'دشمنی‘ کے بھی تو کچھ آداب ہوا کرتے ہیں! لیکن ہمارے سماج میں دشمنی کی انتہا پر انسانیت سے بھی نیچے اتر جانا ایک بہت عام رویہ ہے، جس میں ہم 'دشمنوں‘ یا حریفوں کے جسمانی خد و خال اور ساخت تک کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں رہتے۔

اگر مغرب میں کوئی ناخوش گوار حادثہ ہو جائے، تو ہمارے ہاں اظہار مسرت کرنا بہت عام رویہ ہے۔

اس کے جواز کے طور پر مغرب کے دُہرے معیار یا ان کی پالیسیوں کی بات کی جاتی ہے، جب کہ انسانیت کے اصول غیر مشروط طور پر ہم پر یہ ساری ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ پھر یہی تو فرق اچھے اور برے میں اور صحیح اور غلط میں ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی دوسرے کے کسی غلط کو اپنے غلط کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کریں گے، تو پھر ہم خود کہاں کھڑے ہوں گے؟

ہمارے مغرب سے ایسے رویوں کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں، اس میں جہاں ہم ردعمل کا شکار ہوتے ہیں، وہیں ہماری کم زور اور غیر موثر حیثیت ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ ہم خود پر محنت کرنے اور خود کو بہتر کرنے کے بجائے مغرب کی کسی مشکل یا حادثے پر تالیاں بجانے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

ستم یہ ہے کہ اس کے باوجود ہمارے سماج میں لوگ وہاں جا کر رہنا بھی چاہتے ہیں، وہاں جا کر اپنی زندگی بہ تر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں معلوم اس متضاد طرز عمل کو کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ زندگی کے لیے تعلیم اور تربیت کی بڑی گہری ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہاں مقابلے اور مسابقت کے لیے بھی ہمیں یہ آداب ذرا کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔

ہم اخلاقی بنیادوں پر اور اصولی طور پر کسی صحیح اور غلط کو اپنی عام زندگی میں بروئے کار نہیں لاتے، سو یہ تو پھر مغربی دنیا کا معاملہ ہے۔ ہم تو عام سماج میں اخلاقی اقدار سے بہت پرے بے اصولی کی ایک بہت بڑی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔

انصاف، مساوات، سچائی اور دیانت داری سے لے کر اصول کی بنیاد پر مخالفت اور اصول کی بنیاد پر حمایت کا ہمارے ہاں چلن نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔

ہم بس اندھی محبت اور اندھی نفرتوں کے زیادہ عادی ہیں۔ اس تاریکی یا آنکھیں چندھیا دینے والی تیز روشنی میں ہمیں کم ہی کچھ دکھائی دے پاتا ہے۔ جب کہ زندگی میں بہت سی چیزیں ان کے بین بین بھی ہوتی ہیں۔

ہمارے اس رویے کا نقصان مغرب کو تو خیر کیا ہو گا، ہم خود منفیت کا شکار ہو کر اپنی ترقی اور اصلاح کا وقت تلف کر رہے ہوتے ہیں، وہ وقت اور توانائی جو ہم اپنی بہتری کے لیے صرف کر سکتے تھے، وہ ہم نے 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے‘ کے مصداق ایک لایعنی 'جشن‘ میں برباد کر دی۔

گذشتہ دنوں امریکی ریاست 'لاس اینجلس‘ میں لگنے والی خوف ناک آگ کے تئیں بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد خوشیاں مناتی اور امریکی نقصان پر شاداں اور فرحاں نظر آئی اور جواز کے طور پر امریکا کے دنیا بھر کیے جانے والے اقدام بتائے گئے، لیکن یہ سب بتاتے ہوئے یہ بھول گئے کہ یہ حادثہ عام امریکی شہریوں کو متاثر کر رہا ہے، جو کہ امریکی پالیسیوں پر احتجاج بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

پھر ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ہمیں تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امریکی معیشت کے کسی نقصان کے سبب عالمی معیشت پر جو اثرات ہوں گے، تو ہمارے اندر اس کو برداشت کرنے کی کتنی سکت ہے؟ کیوں کہ جنگ و جدل صرف دو ممالک ہی پر اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ اس کی وجہ سے ان کے ہاں کی پیداواری صلاحیت، درآمدات، برآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشت پر بھی پڑنے لگتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال یوکرین اور روس کی جنگ ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں غذائی اجناس کی دستیابی اور ان کے نرخ پر گہرا اثر پڑا ہے۔ اسی طرح اگر ہم امریکا میں اس آتش زدگی کے ماحولیاتی پہلو کو دیکھیں تو دنیا تو سبھی ممالک کی ساجھی ہے، اس ماحول میں ہونے والی کوئی بھی بربادی کسی ایک ملک تک تو محدود نہیں رہتی، اس لیے کسی بھی حادثے کے حوالے سے کوئی بھی رائے دینے یا موقف اپنانے سے پہلے ہمیں اخلاقی اقدار اور منطقی اعتبار سے بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ کہیں ہمارا جذباتی ردعمل ہمیں بچکانہ اور بے وقوفانہ طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا باعث تو نہیں بن رہا۔

اگر ہمہ وقت سخت تربیت اور اپنا محاسبہ نہ ہو تو ہمیں پتا نہیں چلتا کہ کہاں ہمارے رویے بہت زیادہ منفی ہو گئے ہیں اور کہاں ہمارے نظریات تاریک اور گم راہی کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ اس لیے ہر لمحہ سیکھتے رہنا اور اپنے خیالات اور افکار پر نظر رکھنی چاہیے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم پاک فوج کیساتھ ہوگی، طاہر اشرفی

چیئرمین پاکستان علماء کونسل کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں مگر امن کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہم پاکستان کیلئے ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عظمت ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، ہمارے فوجی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بحریہ ٹاون لاہور کی گرینڈ مسجد میں نماز جمعہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ انصاف اور امن کی بات کی ہے، کسی بیگناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام میں ہونیوالا واقعہ افسوسناک ہے، انڈیا نے بغیر کسی ثبوت پاکستان پر الزام لگانا شروع کر دیا، خدا نہ کرے ایسا ہو، لیکن اگر جنگ کی ضرورت پڑ گئی تو پورا پاکستان پاک افواج کیساتھ ہے۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں مگر امن کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہم پاکستان کیلئے ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عظمت ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، ہمارے فوجی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم پاک فوج کیساتھ ہوگی، طاہر اشرفی
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • بھارت پاکستان میں حالات خراب کرے گا، ہمیں اب چوکنا رہنا پڑے گا، عبدالباسط
  • ہمیں آگے بڑھنے سے کون روکتا ہے، مناسب وقت پر بتاؤں گا، آفاق احمد
  • آج عدالتی آرڈر کی توہین ہو رہی ہے کل ہر ادارے کی توہین ہوگی، علیمہ خان
  • آج عدالتی آرڈر کی توہین ہو رہی ہے کل ہر ادارے کی توہین ہوگی، علیمہ خان
  • نہروں کے مسئلے پر بات ہمارے ہاتھ سے نکلی تو ہر قسم کی کال دیں گے ،وزیراعلیٰ سندھ
  • طعنہ نہ دیں، ہمارے ووٹوں سے صدر بنے ہیں، رانا ثناء کا بلاول کے بیان پر ردِ عمل
  • ملتان سلطانز کی قیمت بڑھائی تو نہیں خریدوں گا