ہم اندھی محبت اور اندھی نفرتوں کے عادی لوگ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جنوری 2025ء) ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 'دشمنی‘ کے بھی تو کچھ آداب ہوا کرتے ہیں! لیکن ہمارے سماج میں دشمنی کی انتہا پر انسانیت سے بھی نیچے اتر جانا ایک بہت عام رویہ ہے، جس میں ہم 'دشمنوں‘ یا حریفوں کے جسمانی خد و خال اور ساخت تک کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں رہتے۔
اگر مغرب میں کوئی ناخوش گوار حادثہ ہو جائے، تو ہمارے ہاں اظہار مسرت کرنا بہت عام رویہ ہے۔
اس کے جواز کے طور پر مغرب کے دُہرے معیار یا ان کی پالیسیوں کی بات کی جاتی ہے، جب کہ انسانیت کے اصول غیر مشروط طور پر ہم پر یہ ساری ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ پھر یہی تو فرق اچھے اور برے میں اور صحیح اور غلط میں ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی دوسرے کے کسی غلط کو اپنے غلط کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کریں گے، تو پھر ہم خود کہاں کھڑے ہوں گے؟ہمارے مغرب سے ایسے رویوں کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں، اس میں جہاں ہم ردعمل کا شکار ہوتے ہیں، وہیں ہماری کم زور اور غیر موثر حیثیت ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ ہم خود پر محنت کرنے اور خود کو بہتر کرنے کے بجائے مغرب کی کسی مشکل یا حادثے پر تالیاں بجانے لگتے ہیں۔
(جاری ہے)
ستم یہ ہے کہ اس کے باوجود ہمارے سماج میں لوگ وہاں جا کر رہنا بھی چاہتے ہیں، وہاں جا کر اپنی زندگی بہ تر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں معلوم اس متضاد طرز عمل کو کیا نام دیا جا سکتا ہے۔جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ زندگی کے لیے تعلیم اور تربیت کی بڑی گہری ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہاں مقابلے اور مسابقت کے لیے بھی ہمیں یہ آداب ذرا کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔
ہم اخلاقی بنیادوں پر اور اصولی طور پر کسی صحیح اور غلط کو اپنی عام زندگی میں بروئے کار نہیں لاتے، سو یہ تو پھر مغربی دنیا کا معاملہ ہے۔ ہم تو عام سماج میں اخلاقی اقدار سے بہت پرے بے اصولی کی ایک بہت بڑی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔انصاف، مساوات، سچائی اور دیانت داری سے لے کر اصول کی بنیاد پر مخالفت اور اصول کی بنیاد پر حمایت کا ہمارے ہاں چلن نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔
ہم بس اندھی محبت اور اندھی نفرتوں کے زیادہ عادی ہیں۔ اس تاریکی یا آنکھیں چندھیا دینے والی تیز روشنی میں ہمیں کم ہی کچھ دکھائی دے پاتا ہے۔ جب کہ زندگی میں بہت سی چیزیں ان کے بین بین بھی ہوتی ہیں۔ہمارے اس رویے کا نقصان مغرب کو تو خیر کیا ہو گا، ہم خود منفیت کا شکار ہو کر اپنی ترقی اور اصلاح کا وقت تلف کر رہے ہوتے ہیں، وہ وقت اور توانائی جو ہم اپنی بہتری کے لیے صرف کر سکتے تھے، وہ ہم نے 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے‘ کے مصداق ایک لایعنی 'جشن‘ میں برباد کر دی۔
گذشتہ دنوں امریکی ریاست 'لاس اینجلس‘ میں لگنے والی خوف ناک آگ کے تئیں بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد خوشیاں مناتی اور امریکی نقصان پر شاداں اور فرحاں نظر آئی اور جواز کے طور پر امریکا کے دنیا بھر کیے جانے والے اقدام بتائے گئے، لیکن یہ سب بتاتے ہوئے یہ بھول گئے کہ یہ حادثہ عام امریکی شہریوں کو متاثر کر رہا ہے، جو کہ امریکی پالیسیوں پر احتجاج بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
پھر ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ہمیں تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امریکی معیشت کے کسی نقصان کے سبب عالمی معیشت پر جو اثرات ہوں گے، تو ہمارے اندر اس کو برداشت کرنے کی کتنی سکت ہے؟ کیوں کہ جنگ و جدل صرف دو ممالک ہی پر اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ اس کی وجہ سے ان کے ہاں کی پیداواری صلاحیت، درآمدات، برآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشت پر بھی پڑنے لگتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال یوکرین اور روس کی جنگ ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں غذائی اجناس کی دستیابی اور ان کے نرخ پر گہرا اثر پڑا ہے۔ اسی طرح اگر ہم امریکا میں اس آتش زدگی کے ماحولیاتی پہلو کو دیکھیں تو دنیا تو سبھی ممالک کی ساجھی ہے، اس ماحول میں ہونے والی کوئی بھی بربادی کسی ایک ملک تک تو محدود نہیں رہتی، اس لیے کسی بھی حادثے کے حوالے سے کوئی بھی رائے دینے یا موقف اپنانے سے پہلے ہمیں اخلاقی اقدار اور منطقی اعتبار سے بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ کہیں ہمارا جذباتی ردعمل ہمیں بچکانہ اور بے وقوفانہ طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا باعث تو نہیں بن رہا۔
اگر ہمہ وقت سخت تربیت اور اپنا محاسبہ نہ ہو تو ہمیں پتا نہیں چلتا کہ کہاں ہمارے رویے بہت زیادہ منفی ہو گئے ہیں اور کہاں ہمارے نظریات تاریک اور گم راہی کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ اس لیے ہر لمحہ سیکھتے رہنا اور اپنے خیالات اور افکار پر نظر رکھنی چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر بے وقوف بن جاتے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے ملاقات نہ کروا کے پارٹی میں تقسیم چاہتی ہے اور ہمارے کچھ لوگ اس ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بے وقوف بن جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا صوبائی کابینہ کے ہمراہ عمران خان سے ملاقات کیلیے راولپنڈی پہنچے، جہاں پولیس نے انہیں گورکھپور ناکلے پر روک دیا۔
علی امین گنڈا پور نے پولیس سے بات چیت کی مگر انہیں آگے جانے کی اجازت نہ ملی اور پھر وہیں پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کرینگے اسطرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔ اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔