کرم میں کلیئرنس آپریشن، بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
سرکاری ذرائع کے مطابق بگن میں 19 سے 21 جنوری تک سول ایڈمنسٹریشن، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے مل کر سرچ اینڈ کلیئرنس آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غیر قانونی ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کرم میں قیام امن کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے، اس دوران بڑی تعداد میں غیر قانونی ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بگن میں 19 سے 21 جنوری تک سول ایڈمنسٹریشن، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے مل کر سرچ اینڈ کلیئرنس آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غیر قانونی ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کرم میں فریقین کے دستخط شدہ امن معاہدے کے مطابق آئندہ بھی کسی واقعے کے نتیجے میں شر پسندوں کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کی جائے گی۔
 
 دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آپریشن میں تمام شرپسندوں سے مکمل صفائی پر کام شروع ہو چکا ہے، کرم کے علاقے بگن میں مسجد کی تزئین و آرائش اور علاقے کی صفائی مہم کا آغاز عوام اور انتظامیہ کے باہمی تعاون کی علامت ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے حکام نے بتایا کہ عوامی تعاون سے بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ اب اگلے مرحلے میں علاقے میں رسد کے قافلے بحال کیے جائیں گے اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کلیئرنس آپریشن بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد
پڑھیں:
لانڈھی جیل سے 225 قیدیوں کا فرار،زلزلہ نہیں،جیل انتظامیہ کی غفلت اور ناقص سیکورٹی اصل وجہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-23
کراچی (خصوصی رپورٹ\محمد علی فاروق) کراچی کی لانڈھی (ملیر) جیل سے 225 خطرناک قیدیوں کے فرار کے واقعے کی تحقیقات مکمل کرلی گئیں، جن میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ محض زلزلے کے جھٹکوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ جیل انتظامیہ کی سنگین غفلت، ناقص سیکورٹی اور پیشگی منصوبہ بندی کی کمی اس اجتماعی فرار کی اصل وجوہات تھیں۔ واقعہ 2 جون 2025ء کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب زلزلے کے جھٹکوں کے دوران قیدیوں نے جیل کی باڑ توڑ کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ مختلف سنگین جرائم میں ملوث 225 قیدی جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے جن میں سے ضلعی پولیس نے اب تک 188 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے تاہم 37 قیدی تاحال مفرور ہیں اور ان کی تلاش کے لیے خصوصی ٹیمیں سرگرم ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جیل میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیا کہ جیل کے داخلی و خارجی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں سنگین خامیاں پائی گئیں۔ سیکورٹی کیمرے غیر فعال تھے جبکہ ڈیوٹی پر موجود عملہ اپنی جگہ سے غیر حاضر تھا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ قیدیوں کا اجتماعی فرار کسی قدرتی آفت نہیں بلکہ ناقص نگرانی، بدانتظامی اور مبینہ ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ انکوائری کمیٹی نے تین افسران کو براہِ راست ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ سپرنٹنڈنٹ ارشد حسین شاہ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ذوالفقار پیرزادہ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عبداللہ خاصخیلی کو غفلت اور ناقص سیکورٹی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں سرکاری افسر مولا بخش بستو (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل) کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر نمبر 25/1639، سیریل نمبر 11667 کے تحت مقدمہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 223، 225، 119، 166، 217، 34، اور 129 کے تحت قائم کیا گیا۔ مزید تفتیش کی ذمہ داری سی آئی سی ملیر ڈویژن کے انچارج کو سونپی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے 10 اکتوبر 2025ء کو نامزد افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم جاری کیا جبکہ وفاقی و صوبائی سطح پراعلیٰ سطحی انکوائری کی ہدایت بھی دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جیل کے سیکورٹی سسٹم اور کمانڈ انفرا اسٹرکچر کاازسرِنو آڈٹ کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ لانڈھی جیل سے 225 قیدیوں کے فرار کا یہ واقعہ ناصرف کراچی کی سیکورٹی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ملک کی جیلوں کے نظام میں پائے جانے والی بدانتظامی، کرپشن اور تربیت کی کمی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ یہ کیس اس وقت کراچی کے سب سے بڑے سیکورٹی اسکینڈلز میں شمار کیا جا رہا ہے۔