عمران خان کا سیاسی ورثہ: امیدیں، ناکامیاں اور تنازعات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
عمران خان کی سیاسی جدوجہد پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو غیر معمولی عزم، بلند توقعات، ناکامیوں اور تنازعات کی عکاسی کرتا ہے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھنے والے عمران خان نے ایک ایسے پاکستان کا خواب پیش کیا جو کرپشن سے پاک، انصاف پر مبنی اور ترقی یافتہ ہو ایک کامیاب کرکٹ کیریئر اور سماجی خدمات کے بعد سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان کو عوام نے ایک دیانت دار اور انقلابی رہنما کے طور پر دیکھا اور اعتماد کیا لیکن ان کا سیاسی سفر مشکلات، تضادات اور ناکامیوں سے دوچار ہی رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست کا آغاز ایک مثالی وژن کے ساتھ ہوا تھا جس نے عوام کو ایک نئی امید دلائی تھی ان کے نعروں اور وعدوں نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کیا جنہوں نے روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہو کر عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھا 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی اور عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے ان کی کامیابی کا سہرا ان کی پُرجوش تقریروں، کرپشن کے خلاف ان کے عزم اور ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کے خواب کو جاتا ہے تاہم، حکومت میں آنے کے بعد ان کا دورِ اقتدار ان وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا جن کی بنیاد پر عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔
ان کی حکومت کے دوران مملکت کی معیشت شدید بحرانوں کا شکار رہی ہے مہنگائی کی بلند شرح، کرپشن، بے روزگاری میں اضافہ اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ان کے دور کی نمایاں خصوصیات بنے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے ان کی منصوبے مزید مایوسی کا سبب بنے عمران خان نے بارہا کرپشن اور غربت کے خاتمے کے دعوے کیے لیکن عملی طور پر ان کے اقدامات ان وعدوں سے مطابقت نہ رکھتے تھے اور مملکت ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوئی۔
ان کی قیادت میں یوٹرن لینے کی عادت اور متضاد بیانات نے ان کی ساکھ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچایا انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا وعدہ کیا لیکن انہی کے در پر ماتھا ٹیکا امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام عائد کرتے رہے پھر ان ہی سے حمایت کی بھیک مانگتا رہا۔ ان تضادات نے ان کی قیادت پر سوالات کھڑے کیے اور ان کی بین الاقوامی ساکھ اتنی متاثر ہوئی کہ ناقابل ِ اعتبار شخصیت تصور کیے گئے خارجہ پالیسی کے محاذ پر چین اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا جس نے پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو ناقابل ِ تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔
عمران خان کی نجی زندگی بھی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی اور ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی رہی ہیں عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی عمران خان کی شادیوں جن میں جمائما گولڈ اسمتھ، ریحام خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں نے ہمیشہ میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کی خاص طور پر بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کے تعلق کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہیں عمران خان کی روحانی پیشوا اور سیاسی فیصلوں پر اثر انداز سمجھا جاتا تھا ان تنازعات کو ان کے مخالفین نے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جس سے ان کی شخصیت اور قیادت مزید پیچیدہ نظر آنے لگی۔
2022 میں عمران خان کے اقتدار کا اختتام تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ تھا اس کے بعد ان پر کئی قانونی مقدمات کا سامنا رہا جن میں توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیسز سب سے زیادہ نمایاں رہے اور 14 سال کی قید بامشقت کا سبب بنے ہیں ان کے حامی ان مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں جبکہ ناقدین انہیں قانون کی بالادستی کا نتیجہ سمجھتے ہیں عمران خان کا عروج و زوال مخالفین کے لیے ایک سبق آموز اور ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری مایوسی کا سبب بنا۔
عمران خان کی قیادت نے عوام کو اس وقت امید دلائی جب وہ مایوسی کے شکار تھے لیکن عملی طور پر وہ عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکے ان کی غیر مستقل پالیسیاں، تضادات اور نجی زندگی کے تنازعات نے ان کی شخصیت اور طرزِ حکمرانی کو متنازع بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے غیر متوازن فیصلے اور تنازعات نے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی سیاست ایک ایسی داستان کے طور پر یاد رکھی جائے گی جو بلند خوابوں، ناقابل ِ عمل وعدوں، اور تنازعات کا مجموعہ تھی اور ان کا سیاسی سفر پاکستان کی تاریخ میں امیدوں، ناکامیوں اور تنازعات کا امتزاج تصور کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی عمران خان کی اور تنازعات پاکستان کی اور ان
پڑھیں:
وزیرِ اعظم کے اردن و بحرین کے بادشاہوں اور ازبک صدر سے ٹیلی فونک رابطے
شہباز شریف—فائل فوٹووزیرِ اعظم شہباز شریف کی اردن کے شاہ عبداللّٰہ دوم ابن الحسین کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے۔
وزیراعظم نے اردن کے شاہ عبداللّٰہ دوم کو عیدالاضحٰی کی مبارکباد دی۔
اس موقع پر وزیرِاعظم شہباز شریف نے 2 ماہ قبل عیدالفطر پر شاہ عبداللّٰہ دوم کے ساتھ ہوئی اپنی ٹیلیفونک گفتگو کا ذکر کیا۔
گفتگو میں وزیرِ اعظم نے اردن کے ساتھ دوطرفہ تعلقات مزید بڑھانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے حالیہ پاک بھارت بحران پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے شاہ عبداللّٰہ دوم کو پاکستان کے نقطۂ نظر اور کوششوں سے آگاہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے غزہ کی صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے لیے امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی کوششوں پر بھی گفتگو کی۔
وزیرِ اعظم نے شاہ عبداللّٰہ دوم کو جلد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت کا اعادہ کیا۔
دریں اثناء وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ازبکستان کے صدر شوکت مرزوف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔
وزیراعظم نے ازبک صدر اور ازبکستان کے عوام کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد پیش کی۔
وزیرِ اعظم نے حالیہ پاک بھارت بحران میں متوازن مؤقف پر ازبکستان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے، دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ صدر شوکت مرزوف کے دورۂ پاکستان کے منتظر ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے کثیرالجہتی فورمز ای سی او اور ایس سی او میں قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
صدر شوکت مرزوف نے وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا، انہیں اور پاکستانی عوام کو عید کی مبارکباد دی اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا۔
علاوہ ازیں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔
وزیرِ اعظم نے بحرین کی قیادت اور عوام کو عید کی مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی گفتگو کے دوران امت کی صفوں میں امن اور اتحاد اور غزہ کے عوام کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم نے حالیہ پاک بھارت بحران میں بحرین کے متوازن مؤقف پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان اور بحرین کے درمیان قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بحرین کے بادشاہ کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔