بینچز اختیارات کیس: بادی النظر میں ججز کمیٹی نےجوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا: جسٹس منصور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد: بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بینچز کے اختیارات کے حوالے سے کیس کی سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کے لیے کیس واپس لینا ممکن تھا؟ اور کیا انتظامی حکم کو عدالتی حکم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ اس پر عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ انتظامی حکم عدالتی حکم کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ہمارے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا؟ اگر ایسا ہوا تو کیا معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے؟ اس سوال پر وکیل حامد خان نے معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اس معاملے میں بظاہر کچھ کنفیوژن موجود ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ خود بینچز تشکیل دیتی تھی، لیکن اب بعض اختیارات ختم کیے جا چکے ہیں، جس سے 26 ویں آئینی ترمیم کا سوال سامنے آتا ہے۔
اس پر جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو نے بینچز تشکیل دیے ہیں؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن تشکیل دے گا، جس پر جسٹس عقیل نے سوال کیا کہ کیا یہ اوورلیپنگ نہیں ہے؟
حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ دیگر عدالتوں کے دائرہ اختیار کا تعین کر سکتی ہے، لیکن سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل حامد خان نے یہ بھی کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز کو مقرر کرنے کا اختیار ہے۔
جس پر جسٹس منصور نے سوال کیا کہ اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کی پیروی نہیں کرتی تو پھر کیا ہوگا؟ انہوں نے راجہ عامر کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس منصور نے مزید سوال کیا کہ آیا آرٹیکل 2 اے کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے؟ اور کیا وہ جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کر سکتی ہے؟
حامد خان نے کہا کہ ایسی صورتحال نہیں ہونی چاہیے جہاں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔ اپنے جواب میں ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت سے استدعا کی کہ شوکاز نوٹس واپس لے لیا جائے، کیونکہ انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی اور بینچ کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز وکیل حامد خان نے ایڈیشنل رجسٹرار سوال کیا کہ سپریم کورٹ ججز کمیٹی نے کہا کہ نے سوال کہ کیا
پڑھیں:
امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی
ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب
ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟
ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر