سندھ ہائیکورٹ کا لاپتا افراد کے اہلخانہ کی فوری مالی معاونت کرنیکا حکم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
عدالت نے ایس ایس پی ایسٹ سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی اور ریمارکس دیئے کہ اگر کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو آئندہ سماعت پر ایس ایس پی ایسٹ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ ہائیکورٹ نے 2016ء سے لاپتا شخص اور دیگر افراد کی گمشدگی کیخلاف درخواستوں پر شہریوں کے اہل خانہ کی فوری مالی معاونت کرنے کا حکم دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق ہائیکورٹ میں 2016ء سے لاپتا شخص اور دیگر افراد کی گمشدگی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ محمد طاہر تھانہ سہراب گوٹھ سے 2016ء لاپتا ہوا تھا، ہر پیشی پر پولیس روایتی رپورٹس پیش کر دیتی ہے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹیز نے طاہر کی جبری گمشدگی کا تعین کیا ہے، سندھ حکومت نے لاپتا طاہر کے اہلخانہ کی مالی معاونت بھی کر دی ہے، لاپتا طاہر کی اہلیہ نے کہا کہ میرا شوہر بازیاب کرایا جائے، 9 برسوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہوں۔
عدالت نے ایس ایس پی ایسٹ سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی اور ریمارکس دیئے کہ اگر کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو آئندہ سماعت پر ایس ایس پی ایسٹ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت میں 2017ء سے لاپتا شہری کے اہل خانہ بھی ہوئے۔ درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ ظفر اقبال اور ملک رضوان 2017ء سے تھانہ گلشن معمار سے لاپتا ہیں، گزشتہ سماعت پر لاپتا افراد کے اہلخانہ کی مالی معاونت کی سمری منظور ہوئی تھی، لیکن اہلخانہ کی مالی معاونت نہیں کی گئی۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو شہریوں کے اہلخانہ کی فوری مالی معاونت کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے لاپتا شہریوں کی بازیابی کیلئے کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایس ایس پی ایسٹ کے اہلخانہ کی مالی معاونت عدالت نے سے لاپتا کا حکم
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔