Jasarat News:
2025-06-06@11:57:49 GMT

پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں، خواجہ آصف

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات سے انکار پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں کو خود بھی پتا تھا کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔ پی ٹی آئی والے کسی بھی بات پر مخلص نہیں اور نہ ہی اپنے لیڈر
کے ساتھ مخلص ہیں۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے انکار کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ علی امین گنڈاپور نے خود ہی اعتراف جرم کیا ہے کہْ ہمارے لوگ گمراہ ہوئے۔ یہ کس چیز کا جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں، جن کو سزائے ہوئی انہوں نے اعتراف جرم کیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جب میں قید میں تھا تو مجھے بس ایک کمبل دیا گیا تھا۔ ہماری پوری لیڈرشپ کو قید کیا گیا مگر ہم نے ملک کے نقصان کا نہیں سوچا۔ پیکا ایکٹ کی منظوری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے، یہ چیز امریکا میں بھی ہورہی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خواجہ ا صف پی ٹی ا ئی نے کہا کہ کے ساتھ

پڑھیں:

کیا پاکستان بدل رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کئی دنوں تک پاکستانی سوشل میڈیا پر پاکستان ایئر فورس کے اورنگزیب احمد ٹرینڈ کرتے رہے۔ انہیں قومی کرش کا خطاب دے دیا۔ ہر پلیٹ فارم پر انہی کا نام اور انہی کی تعریفیں نظر آ رہی تھیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تعریفیں خواتین کی جانب سے کی جا رہی تھیں۔

ماضی میں بھی انٹرنیٹ پر مختلف شخصیات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں پسندیدگی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ تاہم، وہ اظہار مردوں کی طرف سے خواتین کے لیے ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال گلوکارہ مومنہ مستحسن ہیں۔ جب ان کا راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا ریلیز ہوا تو لوگوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ان کا نام آئے دن ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ٹرینڈ کر رہا ہوتا تھا۔

ایک دن کسی نے ان کی منگنی کی افواہ پھیلا دی۔ پھر وہی ہنگامہ مچا کہ انہیں خود ٹویٹ کر کے اس افواہ کی تردید کرنا پڑی۔

اسی طرح تُرک اداکارہ اسرا بلجیک کو ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی میں حلیمہ سلطان کے کردار میں لوگوں نے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ان کے بھی بہت سے قدردان بن گئے تھے۔ ان مداحوں نے جب اسرا کی انسٹاگرام پر موجود تصاویر دیکھیں تو خاصے دکھی ہوئے اور ہر پوسٹ پر انہیں اصل زندگی میں بھی حلیمہ سلطان بننے کی ترغیب دینے لگے۔

بالآخر اسرا کو مجبوراً اپنے انسٹاگرام پر کمنٹس بند کرنا پڑے۔

پاکستانی خواتین کی جانب سے کسی مرد کے لیے اس سطح کی پذیرائی کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ وہ عموماً کم گو، شرمیلی اور محتاط سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم سابق کرکٹر اور وزیرِ اعظم عمران خان کی بہت سے خواتین مداح تھیں۔ اسی طرح ”چاکلیٹی ہیرو" کے لقب سے مشہور پاکستان کے مایہ ناز اداکار وحید مراد کے لیے بھی خواتین میں ایک الگ ہی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔

لیکن اتنی بڑی سطح پر ایک درمیانی عمر کے مرد کے لیے خواتین کے جذبات کے اس طرح کے اظہار کی مثال شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملی ہو۔

پاکستان جیسے معاشروں میں لڑکیوں کو بچپن سے ہی اپنے جذبات اور احساسات چھپا کر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ان کا اونچی آواز میں بولنا، ہنسنا یا اپنے انداز کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں آنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

بہت سی لڑکیاں اور خواتین صرف پسند کی شادی کی خواہش پر قتل کی جا چکی ہیں۔ کئی علاقوں اور خاندانوں میں آج بھی خواتین کا اپنے شوہروں کو نام لے کر پکارنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

تو کیا اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ثقافت میں کوئی بڑا بدلاؤ آ چکا ہے؟

کہیں نہ کہیں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک بڑا فرق ٹیکنالوجی کا ہے۔

آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ دنیا کے ایک کونے کی خبر چند سیکنڈ میں دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے ممالک، اقوام اور ثقافتوں کے درمیان سرحدیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہماری موجودہ نسل اس دنیا میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ وہ ایک عالمی ثقافت کی پیروی کرتی ہے جو انہیں اپنے جذبات کو دبانا نہیں بلکہ ان کا اظہار کرنا سکھاتی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ”نیٹ ورکڈ پبلکس" کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ایسے نیٹ ورکس ہوتے ہیں جہاں لوگ دیگر ہم خیال افراد کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز انہیں اپنی شناخت خود تخلیق کرنے کی طاقت دیتے ہیں اور وہ اپنی اس شناخت کو اپنی مرضی کے مطابق دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہاں وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، اختلافِ رائے کرتے ہیں اور وہ سب کچھ کہتے ہیں جو حقیقی دنیا میں کہنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔

یہ پلیٹ فارمز اپنے مختلف فیچرز جیسے شناخت کو چھپانے کی سہولت، پرائیویسی سیٹنگز اور مرضی کے افراد کے ساتھ رابطہ بنانے کی صلاحیت کی مدد سے صارفین کو وہاں ایک قسم کی ورچوئل آزادی فراہم کرتے ہیں۔

کچھ پلیٹ فارمز کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہاں انسان کے لیے اپنے اندر کے جذبات کو باہر نکالنا تقریباً ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایکس پر لوگ چند الفاظ میں اپنے احساسات بیان کرتے ہیں۔

وہ دن میں متعدد بار ایپ کھولتے ہیں اور اپنے دل و دماغ میں آنے والے جذبات کو وہاں پوسٹ کرتے ہیں۔ چند سیکنڈز میں وہ پوسٹ یا تو وائرل ہو جاتی ہے یا دیگر پوسٹس کے انبار تلے دب جاتی ہے۔ پہلی صورت میں صارف کو مختصر دورانیے کی شہرت ملتی ہے جو ان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔

ان عوامل سے متاثر ہو کر صارفین نہ صرف گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

جن موضوعات پر اچانک زیادہ بات شروع ہو جائے وہ ٹرینڈز بن جاتے ہیں۔ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے خوف یا ”ڈیجیٹل خاموشی" کے احساس سے بچنے کے لیے بھی لوگ ان مباحثوں میں لازمی شرکت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ رجحانات عارضی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی نیا پن ختم ہوتا ہے، صارفین کی توجہ کسی اور جانب مڑ جاتی ہے یا پلیٹ فارم کے الگورتھمز کسی اور مواد کو ترجیح دینے لگتے ہیں، پھر ٹرینڈ کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور وہ مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

کچھ عرصہ پہلے مسرت نذیر کا ”آہستہ آہستہ" گیت وائرل ہوا تھا۔ اور ایسا وائرل ہوا تھا کہ ہر ریل میں وہی سنائی دیتا تھا۔ پھر غائب ہوگیا۔ عیدالفطر سے پہلے ”فرشی شلوار" کا ٹرینڈ آیا تھا مگر وہ بھی کچھ دنوں میں غائب ہو گیا۔ اسی طرح اورنگزیب احمد کا ٹرینڈ بھی اچانک منظر پر آیا اور اچانک ہی چلا گیا۔

اس ٹرینڈ کے بعد کچھ افراد نے خواتین کو شرم دلانے کی بھی کوشش کی حالانکہ یہ رویہ نہ صرف ان کی طرف تنقیدی شعور کی کمی کی عکاسی کر رہا تھا بلکہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ وہ ہمارے معاشرے میں آنے والی بتدریج تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہے۔

اورنگزیب احمد کے ٹرینڈ پر ہونے والی گفتگو نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب خود کو چپ کرانے والے اصولوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نئی دنیا کے تقاضوں کے ساتھ چل رہی ہے جہاں اظہار جرم نہیں بلکہ شناخت ہے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ، یہ نسل ایسی دنیا میں جی رہی ہے جہاں کچھ بھی مستقل یا طویل المدت نہیں ہے۔ ان کی دنیا میں سب کچھ ایک مختصر مدت کے لیے ہوتا ہے اور وہ مدت دن بہ دن مزید مختصر ہوتی جا رہی ہے۔

ایسے میں ان سے مستقل مزاجی یا یکسانیت کی امید شاید غیر حقیقی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے اظہار کو سمجھیں، ان کے انداز کو سنیں اور ان کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھیں کیونکہ یہ نسل نہ صرف سوال اٹھا رہی ہے بلکہ اپنے لیے راستہ بھی خود بنا رہی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ سندھ کی حج کی سعادت حاصل کرنے والے مسلمانوں کو مبارکباد
  • میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی، کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں، بلاول بھٹو
  • عید اپنے ساتھ بہت سے سوالات لیکر آ رہی ہے، علی محمد خان
  • وزارت خارجہ کا میرے بیان سے کوئی تعلق نہیں ، میرا مؤقف بالکل ٹھیک ہے،چناب میں روز خود پانی کی سطح چیک کر رہا ہوں: خواجہ آصف
  • شملہ معاہدہ ختم ،دونوں ممالک1948 کی پوزیشن پرآگئے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت اپنے دوستوں کے ساتھ بھی مل کر چلنے کو تیار نہیں، حنا ربانی کھر
  • نیشنل کانفرنس کی حکومت عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکی، التجا مفتی
  • شملہ معاہدہ فارغ ہوگیا، اب لائن آف کنٹرول کو سیز فائر لائن سمجھا جائے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • کیا پاکستان بدل رہا ہے؟
  • پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کا جواب دیا.اسحاق ڈار