WE News:
2025-11-03@03:24:00 GMT

سرکاری ادارے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

سرکاری ادارے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟

بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا جس میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کرلیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی امین الحق کے مطابق مذکورہ بل کی حمایت میں 10 جبکہ مخالفت میں 6 اراکین نے ووٹ دیا۔

وفاقی وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، مجھے اس کے خلاف جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن میں پیشرفت کا جائزہ

واضح رہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دے رہی ہیں، اور روایتی دفتری نظام کو ترک کیا جارہا ہے مگر پاکستان میں سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہ رہے۔

وی نیوز نے اس حوالے سے چند سابق بیوروکریٹس سے بات کی، اور ان سے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر سرکاری ادارے کیوں ڈیجیٹلائزیشن کی طرف نہیں جانا چاہتے؟

’بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق پریس سیکریٹری شفقت جلیل نے بتایا کہ اب تو کافی حد تک ادارے ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں۔ کابینہ کی جو میٹنگز ہوتی ہیں اس کی 52 یا پھر 28 کاپیاں اب نہیں بنتیں، ان کو ڈائریکٹ لیپ ٹاپ پر بھیج دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے کابینہ کے تمام وزرا کو ٹیبز دیے گئے ہیں جو مکمل طور پر کوڈڈ ہوتے ہیں اور ان تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی رسائی کی کوشش بھی کرتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ فلاں شخص رسائی حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی معلومات لیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر ٹیبز میں سیکیورٹی فیچرز رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اس کے علاوہ بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود مزید ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے۔

’اداروں میں موجود بڑی عمر کے لوگ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے سے ہچکچا رہے ہیں‘

شفقت جلیل نے کہاکہ اداروں میں بڑی عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کا جدید ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ نہیں رہا، اس لیے وہ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس سے بڑھ کی دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی ابھی اتنی مضبوط نہیں ہے، اس لیے بیوروکریسی کے ادارے اور حکومت چاہتی ہے کہ ہماری معلومات لیکن نہ ہوجائیں۔

انہوں نے ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے مزید بتایا کہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اب بہت سارا کام ای میلز اور پریذنٹیشنز کے ذریعے ہورہا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جس رفتار اور لیول کی ڈیجیٹلائزیشن ہونی چاہیے اس طرح سے نہیں ہو رہی۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ ڈیجیٹل ہوں مگر ڈیجیٹل لیٹریسی اور کپیسیٹی جیسے مسائل ہیں۔

’آج بھی کوئی بل آتا ہے تو میں کہتا ہوں، پرنٹ نکال کردیا جائے پھر پڑھ کر بتاتا ہوں۔ تو ہماری عمر کے لوگوں کی یہ ایک عادت بھی بن چکی ہے، جس کو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ میں اس حق میں ہوں کہ جلد از جلد نظام کو ڈیجیٹلائزڈ ہو جانا چاہیے کیونکہ دنیا کہ ساتھ چلنا ہے تو ٹیکنالوجی کا استعمال ہر شعبے میں لازمی بنانا ہوگا۔‘

’سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے‘

ایک سابق فنانس سیکریٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے، گزشتہ قریباً 35 برس میں لوگوں کو مشین استعمال کرنے کی عادت نہیں ڈالی گئی تو اب کسی چیز کو سیکھنے اور پھر اپنانے میں وقت لگے گا۔ ’ادارے وہ تکلیف اٹھانا ہی نہیں چاہ رہے جن کے اٹھانے سے ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔‘

انہوں نے کہاکہ ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یوں شاید فائل میں ردوبدل کر سکتے ہیں، لیکن جب سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا تو کسی قسم کا ردوبدل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

’یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے سسٹم ڈیجیٹل نہ ہونے دینے کا تہیہ کررکھا ہے‘

’ڈیجیٹل کی جانب بڑھنے کے لیے اداروں میں صلاحیت ہے اور نہ ہی لوگ تیار ہیں کہ اس حوالے سے محنت کی جائے، انٹری لیول پر تو بہت اچھے بچے آرہے ہیں، جو ان تمام چیزوں سے واقف ہیں لیکن مڈ کیریئر کے افراد کے لیے زیادہ مسئلہ ہے جو اس مسئلہ کو ختم بھی نہیں کرنا چاہ رہے۔‘

یہ بھی پڑھیں کوئٹہ میں پہلے ڈیجیٹل مدرسے کا قیام، اس ادارے میں خاص کیا ہے؟

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے ایسا نہ ہونے دینے کا تہیہ کرکرھا ہے، ڈیجیٹلائزیشن ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور وقت کے ساتھ اتنی عام ہوجائے گی کہ کوئی شخص اس سے فرار حاصل نہیں کر پائےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews جدید ٹیکنالوجی حکومت ڈیجیٹلائزیشن رکاوٹ سائبر سیکیورٹی سرکاری ادارے وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جدید ٹیکنالوجی حکومت ڈیجیٹلائزیشن رکاوٹ سائبر سیکیورٹی سرکاری ادارے وی نیوز انہوں نے کہاکہ سرکاری ادارے نہیں ہو کے لیے ہیں کہ یہ بھی

پڑھیں:

بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟

راولپنڈی کے علاقے گلبرگ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود گھر کے صحن میں قدم رکھتے ہی ایک چھوٹی مگر جاندار دنیا نے میرا استقبال کیا۔ کالی، بھوری، سفید اور سرمئی رنگ کی بلیاں صحن میں چھلانگیں لگاتیں، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتیں اور کبھی کھیل کے نشے میں ایک دوسرے پر جھپٹتی نظر آئیں۔ ہر بلی کی حرکات میں ایک الگ شخصیت چھپی ہوئی تھی۔

کچھ بلیاں میری طرف لپکیں، جیسے یہ مجھے برسوں سے جانتی ہوں، اور کچھ اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں مصروف، جیسے دنیا کی ہر خوشی ان کی آنکھوں میں بسی ہو۔

مزید پڑھیں: بلیاں گھاس کیوں کھاتی ہیں؟ طویل تحقیق کے بعد حیران کن وجہ سامنے آگئی

ایک سرمئی بلی ایک کونے میں بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، بالکل جیسے صحن کی نگرانی کررہی ہو، اور ہر چھوٹی حرکت پر نظر رکھ رہی ہو۔ ایک سفید بلی معصومیت کی حد تک کھیل رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے قدم، نرم چھلانگیں اور بے ساختہ حرکات دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ لمحہ اس کے لیے وقت کا سب سے بڑا تحفہ ہو۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب ایک بلی میرے قریب آئی، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش رفاقت تھی، ایک ایسا تعلق جو برسوں کی پہچان کی طرح محسوس ہوا۔ اس کے نرم لمس اور پرسکون انداز نے مجھے یہ یاد دلایا کہ بلیاں صرف جانور نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے احساسات اور یادوں کی حامل ایک جاندار دنیا ہیں۔

اس صحن میں قریباً 25 بلیاں موجود تھیں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ شخصیت تھی، ہر بلی کی حرکات، انداز اور کھیلنے کا طریقہ مختلف تھا۔ کچھ شرارتی اور چلبلی، کچھ معصوم اور پرسکون، اور کچھ بالکل خود میں مگن۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرا کہ آخر وہ کون سی بلیاں ہوتی ہیں جو انسانوں کی سب سے جلدی دوست بن جاتی ہیں؟

’ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی‘

کیونکہ یہ واضح تھا کہ ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سب بلیاں برابر فرینڈلی یا محبت بھری نہیں ہوتیں۔ یقیناً کچھ بلیاں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے قریب آنا پسند کرتی ہیں۔

کیونکہ کچھ اپنی دنیا میں مگن تھیں، اور میرے لاکھ چاہنے اور قربت دکھانے پر بھی کسی قسم کی نرمی برتنے کو تیار نہیں تھیں۔

ڈاکٹر قرۃ العین شفقت جو ان بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے، اسی طرح جانوروں کے رویے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بلیاں فرینڈلی ہوتی ہیں۔ اور کچھ فرینڈلی نہیں ہوتیں۔

’کسی کو ٹچ کرنا اچھا لگتا ہے، اور کسی بلی کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ کسی کو گھلنا ملنا اچھا لگتا ہے، اور کسی کو زرا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ تو اس طرح ہر بلی کی اپنی پرسنالٹی ہوتی ہے۔ کسی کو صرف دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی بلی انسان دوست ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی لیے جب کوئی ہمارے پاس بلی اڈاپٹ کرنے آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں بلی دے دیں۔ ہم انہیں کبھی بھی یوں نہیں دیتے بلکہ یہ بولتے ہیں کہ آپ آئیے ان کے ساتھ وقت گزاریں، جو بھی بلی آپ کے ساتھ گھل مل رہی ہے، ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔

’ہر نسل کی بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے‘

انہوں نے مزید کہاکہ کسی ایک بریڈ کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بریڈ ہیومن فرینڈلی ہے، کیونکہ ہر بریڈ کی ہر بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک بریڈ کی بلی آپ کے ساتھ فوراً گھل مل گئی ہے، تو اس کا یہ ہرگرز مطلب نہیں ہے کہ اس بریڈ کی باقی بلیاں بھی اتنی ہی فرینڈلی ہونگی۔

’لوگ کہتے ہیں کہ ’جنجر کیٹس‘ فوراً آ جاتی ہیں، جبکہ بلیک کیٹس ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتیں، جبکہ ہمارے ہاں بلیک اور جنجر کیٹس دونوں ہیں۔ کچھ جنجر کیٹس بڑی خطرناک ہیں، جبکہ کچھ بلیک کیٹس بہت ہی زیادہ فرینڈلی، ہر کسی کی اپنی پرسنالٹی ہے، اور اسی بنیاد پر کوئی آپ کو ہاتھ لگانے دیتا ہے اور کوئی نہیں، ان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔‘

بلیوں کی نسل اور ان کی شخصیت کے درمیان تعلق پر کئی سائنسی مطالعات موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے محققین نے قریباً 5 ہزار 700 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا اور پایا کہ مختلف نسلوں کی بلیوں میں سرگرمی، شرمیلاپن، جارحیت اور سماجی میل جول میں واضح فرق ہوتا ہے۔

یہ فرق جزوی طور پر موروثی بھی ہیں، یعنی نسلوں کے درمیان یہ خصوصیات جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔

ایک اور مطالعہ، جو ’جرنل آف ویٹرنری بیہیویئر‘ میں شائع ہوا، میں 14 مختلف نسلوں کی 129 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بعض نسلیں انسانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور رفاقتی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سفنکس (Sphynx) نسل کی بلیاں سب سے زیادہ فرینڈلی پائی گئی ہیں، جبکہ مین کوون (Maine Coon) اور پرسین (Persian) نسلیں بھی انسانوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے میں مشہور ہیں۔

’بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش کا گہرا اثر ہوتا ہے‘

عام طور پر انسان دوست اور فرینڈلی بلیوں میں سفنکس، مین کوون، پرسین، برمی اور سیامی شامل ہیں۔ سفنکس بلیاں اپنی محبت اور توجہ کے لیے مشہور ہیں، مین کوون بڑی اور نرم مزاج ہونے کے باوجود اپنے مالک کے ساتھ گہرا رشتہ قائم کرتی ہیں، جبکہ پرسین پرسکون اور آرام پسند بلی ہے۔ برمی اور سیامی نسلیں بھی انسانی تعلقات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور مالک کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔

لیکن قرۃ العین کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف نسل ہی ہیومن فرینڈلی بلی کی ضمانت نہیں دیتی، بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش، اس کے بچپن سے سماجی تربیت اور انسانوں کے ساتھ تجربات بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟

’لہٰذا، ایک فرینڈلی اور محبت کرنے والی بلی حاصل کرنے کے لیے نسل کے ساتھ ساتھ محبت اور مناسب تربیت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان بلیوں کی فیملی ہسٹری بھی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے، کہ اس نے بچن سے بڑے ہوتے تک کیا کچھ دیکھا اور اس معاشرے میں محسوس کیا، یہ اس کی پرسنالٹی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کو مد نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انسان دوست بلیاں بلیاں راولپنڈی قرۃ العین گلبرگ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • تناؤ میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • نادرا کا ڈیجیٹل پاکستان کی جانب ایک اور قدم، نکاح کے آن لائن اندراج کا آغاز
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • ساحر لودھی کی اہلیہ عوامی سطح پر نظر کیوں نہیں آتیں؟