پیکا ایکٹ زبانیں بند کرنے کا کالا قانون ہے، پی ٹی آئی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو زبانیں بند کرنے کا کالا قانون قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عمر ایوب نے کہا کہ تمام صحافتی تنظمیں متفق ہیں کہ پیکا ایکٹ منظور نہیں، یہ زبانیں بند کرنے کا کالا قانون ہے، تمام صحافتی تنظمیں متحد ہوکر آگے بڑھیں اپوزیشن ان کا ساتھ دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: صحافت سے منسلک کوئی بھی شخص پیکا ایکٹ ترمیمی بل سے متاثر نہیں ہوگا، وزیراطلاعات
عمرایوبؤ نے کہا کہ فارم 47 کی حکومت بھی پیکا قوانین کا نشانہ بنے گی، اس ایکٹ کے بعد صحافیوں کو ہتھکڑیاں لگیں گی، 26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کو کمزور کیا گیا، اس ایکٹ سے آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لیں ہم حکومتی اقدامات مسترد کرتے ہیں، 9 مئی اور 26 نومبر کا جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، عمران خان کی ہدایت پر مذاکرات ختم کردیے ہیں۔
اس موقع پر چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین کہتا ہے 130 دن سیشن چلے گا مگر یہاں 90 دن چلا ہے، 37 بل پاس ہوئے ہیں مگر کسی بھی قانون کے لیے بحث نہیں کی گئی، آج 11 منٹ میں 8 قانون پاس کرلیے گئے، یہ وہ قوانین ہیں جن کو صدر نے ریجکٹ کردیا تھا، آئین کے مطابق صدر کے اعتراض کو دیکھا جاتا ہے اس کے بعد قانون پاس کراتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کو ’پولیٹیکل اسپیس‘ نہ دی گئی تو مستقبل سب کا ہی تاریک ہو گا، بیرسٹرگوہر خان
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف لمبی چارج شیٹ ہے ، اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا کہا اور دو مطالبات رکھے، حکومت نے تحریری مطالبات مانگے، ہم نے وہ بھی دے دیے، دن گزر گیا حکومت نے کل کے دن کے بعد بھی جوڈیشل کمیشن کا اعلان نہیں کیا، بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر اب ہم حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کسی اور اجلاس میں نہیں جارہے۔
انہوں نے کہا کہ انفارمیشن و ڈس انفارمیشن کی آڑ میں آزادی اظہار کا گلا دبایا جارہا ہے، حکومت سینیٹ میں پیکا ایکٹ کی منظوری روکے اور اپوزیشن اور تمام صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں لے۔
رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم میڈیا کے نمائندوں کو کال کوٹھری میں لے جانے کے لیے ہیں، کوشش کی جارہی ہے لوگوں کے احتجاج اور آواز کو کیسے دبایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جی ایچ کیو حملہ کیس: شاہ محمود، وزیراعلیٰ گنڈاپور، شبلی فراز سمیت 14 ملزمان پر فرد جرم عائد
شبلی فراز نے کہا کہ اس ملک میں بہت دباؤ آچکا ہے، افسوس کا مقام ہے اس وقت حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی خاموش ہیں، ہم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں، چلی ہے رسم کہ کوئی نا سر اٹھا کر چلے‘ یہ والی صورتحال آنے والی ہے، ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی زرتاج گل نے اس موقع پر کہا کہ پیکا ایکٹ منظور کرنے والوں نے آزادی اظہار کا گلا دبانے کی کوشش کی ہے، ہم نے پیکا ایکٹ کی مخالفت کی ہے، پی ٹی آئی میڈیا پر حملے کے خلاف صحافیوں کے ساتھ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بیرسٹر گوہر پیکا ایکٹ زرتاج گل شبلی فراز عمرایوب کالا قانون.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر پیکا ایکٹ زرتاج گل شبلی فراز عمرایوب کالا قانون کالا قانون شبلی فراز پی ٹی ا ئی پیکا ایکٹ نے کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔
قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔