WE News:
2025-07-26@23:40:39 GMT

روحی بانو، شہرت سے گمنامی تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

روحی بانو، شہرت سے گمنامی تک کا سفر

مایوس، بے بس اور ناامیدی کے بھنور میں ڈوبی ہوئی روحی بانو نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ سب اپنی نگاہیں پھیرلیں گے۔ وہ اداکار جن کے سنگ زندگی کے بہترین لمحات گزارے تھے انہیں روحی بانو کی باتیں اس قدر بوجھل اور بور کریں گی کہ  وہ دھیرے دھیرے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

کئی تو ایسے بھی تھے جو روحی بانو کو کسی محفل میں دیکھ کر راہیں بدل لیتے، پروڈیوسرز کی بھی دلچسپی اب ان میں کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔

ذرائع ابلاغ جو کبھی ان کے حسن اور اداکاری کے گن گاتے تھے انہیں روحی بانو کی زندگی میں کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی تھی۔ عروج سے زوال کا یہ دور، یہ لمحات اور یہ برس روحی بانو کو درد، کرب اور تکلیف کا ایسا احساس دیتے جن سے وہ بچنا چاہتیں تھی۔ خاص کر ایسے میں جب ان کی کل کائنات یعنی ان کا ہونہار بیٹا علی رضا بے رحمانہ قتل کا شکار ہوا۔

سال 2005 ہی دراصل وہ برس تھا جس نے روحی بانو کی زندگی کو دہرے دکھ اور درد کا صدمہ دیا۔ جواں سال بیٹے علی رضا کے قتل کی تکلیف سے ابھی نبرد آزما ہی تھیں کہ اس عرصے میں والدہ کی سوختہ لاش کراچی کے کلثوم کورٹ کے فلیٹ سے ملی، جسم پر جلنے کے شدید نشانات تھے۔

بس پھر کیا تھا، روحی بانو تو ایک کے بعد ایک ملنے والے ان زخموں سے وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئیں۔ دماغی بیماری شیزوفرینیا میں ایسی مبتلا ہوئیں کہ پھر لوٹ کر زندگی کی طرف نہ آسکیں۔

2015 میں یہ خبر بھی دیکھی گئی کہ روحی بانو پر لاہور میں قاتلانہ حملہ ہوا، پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ حملہ آور کوئی اور نہیں، مرحوم بیٹے علی کا دوست تھا۔ جس نے روحی بانو پر دباؤ ڈالا کہ وہ گھر بیچ دیں، انکار کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

بعد میں وہ اس قدر مشتعل ہوگیا کہ روحی بانو پر حملہ آور ہوگیا۔ یہ روحی بانو ہی تھیں جو اپنوں کی بے رخی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر سی گئی تھیں۔ جن کو اگر کبھی کوئی ٹی وی چینل یاد کرتا اور ملاقات کا اہتمام ہوتا تو روحی بانو کی بہکی بہکی اور بے تکان باتوں سے وہ یہی اندازہ لگاتا کہ روحی بانو ذہنی طور پر حد سے زیادہ منتشر ہوچکی ہیں۔

کیسے کوئی اُن تصاویر کو بھول سکتا ہے جب ایک دور کی خوبصورت اور حسین و جمیل اداکارہ کو انہوں نے بے ڈھنگے اور بے ترتیب بال، پرانے کپڑوں اور ان گنت سوالوں میں گھری آنکھوں اور چہرے پر بڑھاپے کی لکیروں کے ساتھ دیکھا۔

یہ روحی بانو کے اُن پرستاروں کو دل گرفتہ کرگیا جو کسی زمانے میں اُن کے حسن کے دیوانے تھے۔ وہ روحی بانو جنہوں نے 70اور پھر 80کی دہائی میں ٹی وی ڈراموں پر راج کیا۔ وہ روحی بانو جنہوں نے کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ، کانچ کا پل، دہلیز اور کارواں میں اپنی اداکاری سے ہر ایک کو متاثر کیا۔

صرف ٹی وی ڈرامے ہی نہیں ان کی فنی خدمات تو پردہ سیمیں پر بھی دیکھنے کو ملیں۔ 1981میں جب انہیں حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تو ہر جانب بس ان کا ہی چرچا تھا ۔

لاہور کے گورنمنٹ کالج سے نفسیات میں ماسٹرز کرنے والی روحی بانو کو کیا معلوم تھا کہ مستقبل میں وہ خود ان گنت نفسیاتی مسائل سے جنگ کریں گی۔

روحی بانو کو کیا علم تھا کہ پی ٹی وی کے سنہری دور کی ساتھی کی زندگی ایک وقت میں خود بے نور ہوجائے گی۔ اپنی دلچسپ اور بامعنی گفتگو سے ہر کسی کو گرویدہ کرنے والی بدقسمت اداکارہ 2بار دلہن بننے کے باوجود اس رشتے کی اصل روح اور تعلق  سے محروم رہیں۔

ذہن تو وہ منظر بھی مٹا نہیں پاتا جب ذرائع ابلاغ میں روحی بانو رنج و الم میں ڈوبی ہوئی ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے،  بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی دہائی دیتے ہوئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتی ملیں۔

پھر سب نے وہ منظر بھی دیکھا جب روحی بانو نفسیاتی علاج کے لیے سینٹر میں داخل ہوئیں۔ کبھی وہ کسی شیلٹر ہاؤس میں پناہ لینے کی خبروں کی زینت بنیں۔

بھارتی طبلہ نواز اللہ رکھا کی بیٹی اور حال ہی میں زندگی کی بازی ہار جانے والے استاد ذاکر حسین کی سوتیلی بہن روحی بانو کو شکوہ اُن سے رہا جو ان کے کبھی دوست تھے، کبھی غم گسار تھے اور کبھی ہمدرد تھے۔

جن سے وہ یہی شکایت کرتیں کہ نفسیاتی الجھنوں میں گھری روحی بانو کو وہ  تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دل جوئی کی جاتی تو ممکن ہے کہ روحی بانو زندگی کی طرف لوٹ آتیں۔ لیکن وہ دل برداشتہ ہو کر  لوٹ کر گئیں تو ترک شہر استنبول میں اپنی بہن کے پاس۔

استنبول ہی سے 25 جنوری 2019 کو یہ بری خبر سننے کو ملی کہ روحی بانو اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ 10 دن تک وہ مصنوعی سانسوں کے ساتھ  وینٹی لیٹر پر رہیں اور پھر ہر غم اور دکھ سے آزاد ہو کر دوسرے جہاں پہنچ گئیں۔

روحی کے انتقال پر پرانے ساتھیوں نے بڑھ چڑھ کر یادیں تازہ کیں۔ ان کے ڈراموں، کردار اور شخصیت پر اظہار خیال کیا۔ لیکن افسوس کہ ان کی زندگی میں کوئی روحی بانو کے دل کے بند اور زنگ لگے دروازوں کو کھول کر یہ نہ جان سکا کہ انہیں کیا غم اندر ہی اندر زخم دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: روحی بانو کی روحی بانو کو کہ روحی بانو کی زندگی

پڑھیں:

سیاسی رہنما  غلام مرتضیٰ کاظم نے 50سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرلیا

مبارک حسین اعوان: 50 برس کی عمر میں غلام مرتضیٰ کاظمی نےمیٹرک پاس کر کے ضلع جہلم ویلی ہٹیاں بالا میں  نئی مثال قائم کر دی۔

 میرپور بورڈ کے تحت منعقدہ میٹرک امتحانات میں ضلع جہلم ویلی ہٹیاں بالا چناری سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی و سماجی رہنما غلام مرتضیٰ کاظمی نے 50 برس کی عمر میں نمایاں نمبرز سے میٹرک امتحانات میں کامیابی حاصل کر لی۔

  غلام مرتضیٰ کاظمی نے کہا کہ تعلیم صرف سند نہیں بلکہ شعور عزم اور مسلسل خود کو بہتر بنانے کا نام ہے، انہوں نے اس موقع پر پیغام دیا کہ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا اور اگر جذبہ ہو تو عمر مصروفیات یا کوئی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی ،نوجوان اگر محنت لگن جاری رکھیں تو کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتے، میں نے بھی محنت اور لگن سے پچاس برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔  

میٹرک امتحان میں فیل ہونے پر طالبعلم نے بڑا قدم اٹھالیا

 غلام مرتضیٰ کاظمی کی اس کامیابی کو علاقے میں نوجوانوں اور بزرگوں کیلئے ایک روشن مثال قرار دیا جا رہا ہےجو اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ علم حاصل کرنے کیلئے کبھی دیر نہیں ہوتی۔

متعلقہ مضامین

  • واشنگٹن مذاکرات میں کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں رہا، جہاد اسلامی
  • گوگل میپ کا استعمال؛ خاتون گاڑی سمیت نالے میں جا گریں
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی ڈیجیٹل ایکو سسٹم کیلئے عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات لینے کی ہدایت
  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  •  ٹک ٹاک کے جنون نے ایک اور زندگی نگل لی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، سینیٹر عرفان صدیقی
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟
  • سیاسی رہنما  غلام مرتضیٰ کاظم نے 50سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرلیا