چین کا بحری سلک روٹ، ٹرمپ اور ہم
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
چین نے سمندری روٹس پر اہم بندرگاہوں پر کنٹرول کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ 129 بندرگاہیں ایسی ہیں جہاں چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان روٹس اور بندرگاہوں کے ذریعے چین خوراک اور خام مال کی تجارت پر اثر بڑھا رہا ہے۔ سویا بین، کارن، بیف، آئرن، کاپر اور لیتھیم وہ اہم آئٹم ہیں جو ان راستوں سے چین آتے جاتے ہیں۔
ان آئٹمز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چین اپنی انڈسٹری کے خام مال اور آبادی کے لیے خوراک کی سپلائی لائن مستحکم رکھنے پر کتنا کام کررہا ہے۔ چین بندرگاہوں میں سرمایہ کاری زیادہ تر گلوبل ساؤتھ یعنی لاطینی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں میں کررہا ہے۔ سمندری راستوں پر چینی کنٹرول کی برتری اب واضح دکھائی دیتی ہے۔ لاطینی امریکا کے ملک چین کے بندرگاہوں پر کنٹرول کے اس شوق یا ضرورت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نومبر میں ریو ڈی جنیرو جی 20 اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ راستے میں پیرو رک کر انہوں نے پیرو کے صدر دینا بولارتے کے ساتھ مل کر چانکے بندرگاہ کا افتتاح کیا تھا۔ یہ بندرگاہ 3 اشاریہ 6 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوئی ہے۔ چین کی ریاستی شپنگ جائنت چائنہ اوشن شپنگ کمپنی نے اس بندرہ گاہ کے 60 فیصد شیئر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر میں خرید لیے ہیں۔ ڈیل کے فوری بعد پہلا بحری جہاز یہاں سے معدنیات ایووکاڈو اور بلو بیری لے کر چین کی جانب روانہ ہوگیا۔
ویسٹرن خدشات یہ ہیں کہ چین ان کمرشل بندرگاہوں کا فوجی استعمال نہ کرے۔ کئی ایسی بندرگاہیں ہیں جن کے اکثریتی شیئر چین کی سرکاری اور نجی کمپنیوں کے پاس ہیں۔ چین ان کا فوجی استعمال کر سکتا ہے۔ چین پر ڈیٹ ٹریپ کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ اس سے مراد قرض کا ایسا جال جس میں پھنس کر ملک اپنے اثاثوں کا کنٹرول چین کو دے دیتے ہیں۔ سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا پورٹ اس کی ایک مثال ہے۔ سری لنکا جب چینی قرض نہ ادا کرسکا تو بندرگاہ کا کنٹرول چین نے سنبھال لیا۔
چین کو اگر اپنی ایکسپورٹ میں برتری برقرار رکھنی ہے تو سمندری راستوں اور بندرگاہوں پر اسے کنٹرول بھی چاہیے۔ تاکہ خام مال چین آتا رہے اور تیار مال وہاں سے دنیا بھر میں جائے۔ امریکا معاشی برتری حاصل کرنے کے چینی خواب کو جتنا ممکن ہو اتنا سست کرنا چاہتا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف برداری کی اپنی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے پاناما کینال پاناما کو دی تھی جو اب چین کے پاس ہے، یہ ہم واپس لیں گے۔ یہ کینال چین کی بجائے ہانگ کانگ کی دو مختلف کمپنیوں کے پاس ہے جو دونوں سروں پر بندرگاہوں کا آپریشن کنٹرول کرتی ہیں۔
چین یہ ساری پیش رفت بی آر آئی یعنی بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو کے تحت کررہا ہے۔ پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اسی بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو کا فلیگ شپ پروگرام ہے۔ اس کے تحت گوادر میں ڈیپ سی پورٹ تعمیر کی گئی ہے۔ روڈ کے ذریعے چین سے اس پورٹ تک سامان لایا جائےگا، یہاں سے پھر سمندری راستوں سے آگے جائےگا۔
گوادر اپنی لوکیشن کی وجہ سے منفرد پوزیشن کا حامل ہے۔ 21 ملین بیرل تیل روزانہ صرف آبنائے ہرمز کے راستے روزانہ گوادر کے سامنے سے گزرتا ہے۔ یہ سالانہ پیٹرولیم کارگو کا 21 فیصد بنتا ہے۔ ایل این جی کارگو کا 20 فیصد بھی اسی راستے سے آتا ہے۔ یہ اعدادوشمار مزید بہت بدل جاتے ہیں جب اور اطراف سے آنے والے انرجی کارگو کا بھی شمار کیا جائے۔ اس اہم ترین پوائنٹ پر چینی موجودگی امریکا اور ویسٹ کے لیے بے چینی کا باعث ہے۔
گوادر بطور بزنس حب بھی بہت پوٹینشل رکھتا ہے۔ انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور بھی گوادر کے پاس سے ہی تعمیر ہونا ہے۔ یہ کاریڈور 7200 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ ہر سال 20 ملین کارگو کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یورپ تک تجارتی سامان آدھے وقت اور 30 فیصد کم اخراجات کے ساتھ پہنچایا جا سکتا ہے۔ روسی صدر پوتن پاکستان کو اس کاریڈور میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں۔ ہم اگر اپنے بزنس پوٹینشل پر ہی فوکس رہیں۔ تو ہر طرح کی جاری ٹریڈ وار، سفارتی کھینچا تانی میں بھی ہمارے لیے امکانات ہی امکانات ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews امریکا امریکی صدر بحری سلک روٹ بندرگاہیں پاکستان پاناما کینال چین ڈونلڈ ٹرمپ گوادر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر بحری سلک روٹ بندرگاہیں پاکستان پاناما کینال چین ڈونلڈ ٹرمپ گوادر وی نیوز کے لیے چین کی کے پاس
پڑھیں:
اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔
امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔
ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔
5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔
جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔