فیصل آباد: الخدمت انور نذیر اسپتال کا صحت پر سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
فیصل آباد (جسارت نیوز) الخدمت انور نذیر اسپتال کے زیر اہتمام صحت عامہ پر منعقدہ سیمینار میں ممتاز پیتھالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مجید نے ’’صحت عامہ مسائل اور تدابیر‘‘ کے موضوع پر بھرپور سیشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحت مند معاشرے کی بنیاد افراد کی جسمانی، ذہنی اور سماجی صحت پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ان عوامل کا ذکر کیا جو صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علامات بیماری نہیں ہوتیں بلکہ یہ بیماری کے اثرات ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر بیماری سمجھ کر علاج شروع کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر مجید نے مریضوں پر زور دیا کہ وہ پہلے ڈاکٹر سے اپنے مرض کی تشخیص کروا کر علاج شروع کریں اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے صحت بخش عادات و اطوار کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ڈاکٹر شفقت جاوید نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مریض کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادویات کا استعمال اور پرہیز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس موقع پر وائس چیئر پرسن میمونہ روحی، ڈائریکٹر فائنانس انجم اقبال بٹ، ممبران کور کمیٹی ڈاکٹر عبدالجبار عباسی، ڈاکٹر محمد اقبال اور ڈاکٹر محمد رفیق بھی موجود تھے۔ یاد رہے کہ الخدمت انور نذیر اسپتال اپنے مریضوں کی آگاہی کے لیے اس قسم کے سیمینار کا اہتمام باقاعدگی سے کرتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھارت میں جبری مذہبی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ پر انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ
اندور پریس کلب میں دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کے کارکنان نے مرد و خواتین پر حملہ کر دیا۔
متاثرین جبری مذہبی تبدیلیوں کے الزامات کے خلاف میڈیا سے بات کرنے کے لیے پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:مودی سرکار کا کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھیانک منصوبہ، 40 ہزار انتہا پسند ہندوؤں کو ہتھیار پہنچا دیے
حملے میں متعدد خواتین کو عوام کے سامنے دھکا دیا گیا، زدوکوب کیا گیا اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب بجرنگ دل کے کارکنان نے پریس کانفرنس کا مقام زبردستی گھیر لیا اور الزام لگایا کہ مذکورہ گروپ دیواس کے جنگلاتی علاقوں میں ’سماجی خدمت‘ کے نام پر لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہا ہے۔
حملہ آوروں نے بعض افراد کے چہروں پر سیاہی مل دی اور پھر انہیں ایک مقامی اخبار کے دفتر تک پیچھا کرتے ہوئے وہاں بھی مبینہ طور پر پولیس کی موجودگی میں بیلٹوں سے مارا پیٹا۔
یہ تنازع دیواس پولیس کو موصول ہونے والی شکایات کے بعد شروع ہوا، جن کے مطابق کچھ مرد و خواتین بَروتھا تھانے کے جنگلاتی علاقے میں جھونپڑیوں میں رہ رہے تھے۔ مقامی افراد نے الزام لگایا کہ یہ لوگ گاؤں والوں کو عیسائیت اختیار کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ہولی پر انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمان خاندان سے بدتمیزی، سوارا بھاسکر کا سخت ردعمل
صحافت کے شعبے سے وابستہ سوربھ بینرجی بھی ان متاثرین میں شامل تھے۔ وہ ان الزامات کی تردید کے لیے اندور میں پریس کانفرنس کرنے آئے تھے جو دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے پھیلائے جا رہے تھے۔
تاہم پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی بجرنگ دل کے کارکنان نے مبینہ طور پر حملہ کر دیا، موت کی دھمکیاں دیں اور مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا سے بات کرنا بند کریں۔
بعدازاں بجرنگ دل کے عہدیدار اویناش کوشل نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دیواس کے شکروسا گاؤں کے قریب جنگلات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب کا نیٹ ورک چل رہا ہے۔
اُن کے بقول جب یہ لوگ اندور آئے تو ہم نے بات کرنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے ہمیں ہی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ نوجوان لڑکیوں کو بڑی تعداد میں عیسائیت میں شامل کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کیخلاف تشدد میں ہندوستان پیش پیش
شکایات میں سوربھ بینرجی کا نام بھی شامل تھا، جس کی وضاحت کے لیے انہوں نے پریس کانفرنس رکھی۔ اس موقع پر ایک نوجوان لڑکی بھی ان کے ساتھ موجود تھی۔ تاہم، جیسے ہی کانفرنس شروع ہوئی، لڑکی کے والدین وہاں پہنچے اور ہنگامہ کھڑا کر دیا، اور سوربھ پر ان کی بیٹی کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا۔
تاہم، سوربھ بینرجی نے ان تمام الزامات کی تردید کی۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی غیر ملکی فنڈنگ سے تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخص سامنے آ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے اسے زبردستی مذہب تبدیل کروایا ہو۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انتہاپسند ہندو اندور بجرنگ دل