پیکا ایکٹ: دفاع یا دبائو؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
دنیا بھر میں جھوٹی خبروں اور میڈیا پروپیگنڈے کے خلاف مختلف ممالک نے سخت قوانین نافذ کیے ہیں تاکہ غلط معلومات کے پھیلا کو روکا جا سکے۔ سنگاپور میں 2019 ء میں ایک قانون متعارف کروایا گیاجسے Protection from Online Falsehoods and Manipulation Act کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ جھوٹی خبروں کو ہٹائے، حقائق درست کرے اور جھوٹی معلومات پھیلانے والوں پرجرمانے عائد کرے۔ جرمنی میں Network Enforcement Act نافذ ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات 24 گھنٹوں کے اندر ہٹانے کا پابند بناتا ہے، بصورت دیگر بھاری جرمانے عائد کیےجاتے ہیں۔ فرانس نے 2018 میں ایک قانون بنایا جس کے تحت انتخابات کے دوران جھوٹی خبروں کے پھیلائو پر سخت پابندی عائد کر دی گئی اور عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی معلومات فوری ہٹانے کا حکم دے سکیں۔روس میں 2019 میں جھوٹی خبروں کے خلاف ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت جھوٹی معلومات پھیلانے پر جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ ملائیشیا نے 2018 میں ایک قانون نافذ کیا جس کے ذریعے جھوٹی خبروں کو پھیلانے والوں پر بھاری جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ایک قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نقصان دہ اور جھوٹی معلومات کو ہٹانے کا پابند کرتا ہے۔چین میں انٹرنیٹ پر سخت قوانین نافذ ہیں جہاں حکومت جھوٹی معلومات کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے جس میں جرمانے، قید اور آن لائن پابندیاں شامل ہیں۔یہ قوانین جھوٹی معلومات کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن بعض ممالک میں ان قوانین کو آزادی اظہار پر پابندی کے لیے استعمال کیے جانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے، فیک نیوز اور الزام تراشی کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی نے حال ہی میں پیکا ترمیمی بل کو منظور کیا ہے۔ یہ بل نہ صرف فیک نیوز کے خاتمے بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کے شعبے میں اصلاحات کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس قانون کو حکومت اور صحافتی حلقوں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کی سمت ایک بڑی کامیابی قرار دیاجا رہا ہے۔پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیے قواعد و ضوابط پہلے سے موجود ہیں لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم ایک بے قابو میدان بن چکا تھا۔ یہاں ہرکوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور صحافت کے نام پر اکثر الزام تراشی اور جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ڈیجیٹل میڈیا پر صحافت کے معیار کو بہتر کرنے، جھوٹ اور پروپیگنڈے کی جوابدہی کو یقینی بنانے، اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک قانونی فریم ورک ضروری تھا۔ پیکا ترمیمی بل اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ڈیجیٹل میڈیا پرجھوٹے الزامات، کردار کشی اور نفرت انگیزمواد پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکے گی۔پیکاترمیمی ایکٹ کا دائرہ کارصرف ڈیجیٹل میڈیا تک محدود ہے۔ اس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے لیے پہلے ہی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنےوالےصحافی اکثر خودساختہ ہوتے ہیں، جو صحافت کے اصولوں اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر نفرت انگیز مواد اورجھوٹےبیانیے پھیلاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ حقیقی صحافیوں کے لیے مشکلات بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ قانون ورکنگ جرنلسٹس کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ آزادی کے ساتھ مگر ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پلیٹ فارم جہاں مثبت خبروں اور معلومات کے تبادلے کے لیے اہم ہے وہیں فیک نیوز اور نفرت انگیز مواد کے پھیلائو کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔سیاسی الزامات کی صورت میں کئی مواقع پر سیاسی شخصیات کےخلاف جھوٹے بیانیے یاجعلی ویڈیوز پھیلائی گئیں، جن سے نہ صرف انکی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عوام میں انتشار بھی پھیلا۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ جو افراد سوشل میڈیا سے لاکھوں کما رہے ہیں وہ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے اکثر افراد کسی ضابطے کے تحت کام نہیں کرتے اور ان کی کمائی پر کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ یہ قانون ایسے افراد کو نظام کے تحت لانے میں بھی مدد دے گا اور معیشت میں ان کا حصہ یقینی بنائے گا۔ یہ قانون صحافت کی آزادی اور ذمہ داری کے درمیان توازن قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس کے نفاذ سے نہ صرف ڈیجیٹل میڈیا کے معیار کو بہتر بنایاجاسکےگا بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہوگا۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کی تیزرفتارترقی کے پیش نظر یہ قانون سازی وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کیا۔ بل کی منظوری پر صحافیوں نے واک آئوٹ کیا اورحکومت پر مشاورت کے بغیر قانون سازی کا الزام عائد کیا۔ پی ایف یو جے اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بل کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج اور عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔ حالیہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے صحافیوں کی جوائنٹ کمیٹی کا اعتراض یہ ہے کہ انہیں وزارت کی جانب سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بل کی شقوں پر کوئی اعتراض نہیں مگر ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے انہیں شامل نہیں کیا گیا اور ان کی قائم کردہ کمیٹی سے منظوری نہیں لی گئی۔یہ اعتراض قدرے جائز محسوس ہوتا ہے اس لیے وزیر اطلاعات کو خود صحافیوں کے نمائندگان سے ملاقات کرنی چاہیےتاکہ کسی قسم کے ابہام یا ناراضگی کا موقع نہ ملے۔ اس طرح نہ صرف صحافتی برادری کا اعتماد برقرار رہے گا بلکہ ایک متفقہ اور مضبوط قانون کا نفاذ بھی ممکن ہو سکے گا، جو ملک میں صحافتی اخلاقیات اور ذمہ داری کو فروغ دے گا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹی خبروں پاکستان میں صحافیوں کے معلومات کے ایک قانون یہ قانون کے خلاف کے لیے کے تحت
پڑھیں:
وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک کے درمیان معاہدہ
16 اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر وزیراعظم یوتھ پروگرام (PMYP) نے موبی لنک مائیکرو فنانس بینک (MCB) کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (LOI) پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ وزیراعظم آفس میں وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خاں کی زیر صدارت ایک اجلاس کے دوران طے پایا۔ اس اجلاس میں موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے سی ای او ہارِس محمود چوہدری اور دونوں اداروں کے افسران بھی موجود تھے۔ یہ شراکت داری پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے، کاروبار کو فروغ دینے، مالی اور ڈیجیٹل خواندگی بڑھانے اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے لیے کام کرے گی۔ اس شراکت داری کا مقصد نوجوانوں کی صلاحیتوں کو خاص طور پر خواتین کے لیے بڑھانا ہے تاکہ وہ کاروبار، فری لانسنگ، مالی شمولیت اور پائیدار کاروباری طریقوں میں کامیاب ہو سکیں۔
یہ اقدام نوجوانوں کی قیادت میں کاروبار کو فروغ دینے کے لیے تربیت، رہنمائی اور بیج سرمایہ تک رسائی فراہم کرے گا۔ دونوں ادارے ذمہ دار، تخلیقی اور ماحول دوست کاروباری طریقوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ، کاروباری افراد، سرمایہ کاروں اور رہنماؤں کے درمیان منظم نیٹ ورکنگ پاکستان کے بڑھتے ہوئے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کو مضبوط کرے گی۔ مزید یہ کہ، وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک مائیکرو فنانس بینک نوجوانوں کو فری لانسنگ اور ڈیجیٹل کام کے مواقع میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری مہارت فراہم کریں گے۔ خصوصی پروگرامز ڈیزائن کیے جائیں گے تاکہ نوجوان، خاص طور پر خواتین، کو ٹیکنالوجی، ڈیزائن، مواد کی تخلیق اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں مہارت حاصل ہو، جس سے وہ عالمی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل کر سکیں اور گیگ معیشت میں پائیدار کیریئر بنا سکیں۔
شراکت داری کا ایک اہم پہلو مالی شمولیت ہوگا، جس کے تحت موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے ڈیجیٹل بینکنگ ایکو سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں اور خواتین کاروباری افراد کو ڈیجیٹل والٹس، مائیکرو قرضوں، انشورنس مصنوعات اور ادائیگی کے حل جیسے مالیاتی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ادارے مالی خواندگی کے پروگرامز تیار اور عمل میں لائیں گے تاکہ نوجوان افراد، خاص طور پر خواتین، کو مالیات کو بہتر طور پر منظم کرنے، بچت کرنے کی عادات اپنانے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے آگاہی حاصل ہو سکے۔ شراکت داری جنسی بنیادوں پر مالی رسائی کی رکاوٹوں کو کم کرنے اور جامع اقتصادی شمولیت کی پالیسیوں کے لیے کام کرے گی۔
خواتین کاروباری افراد پر خصوصی توجہ دی جائے گی، جن کی رہنمائی اور مالی معاونت کی جائے گی، خاص طور پر ان کاروباروں پر جو پائیدار ترقی اور ماحولیاتی لچک کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ پروگرامز ماحولیاتی دوستانہ کاروباری طریقوں، سبز ٹیکنالوجیز اور سرکولر معیشت کے اصولوں پر تربیت فراہم کریں گے تاکہ خواتین کے زیر قیادت کاروبار ماحولیاتی پائیداری میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
موبی لنک مائیکرو فنانس بینک وزیراعظم یوتھ پروگرام کے 4Es فریم ورک (اختیار، تعلیم، روزگار اور کاروبار) کے تحت سرگرمیوں کی حمایت بھی کرے گا تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کو آج کی ڈیجیٹل معیشت میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری وسائل اور مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ اس شراکت داری کے ذریعے، دونوں ادارے ایک ایسا جامع، تخلیقی اور پائیدار ماحولیاتی نظام تخلیق کرنے کا عزم رکھتے ہیں جو پاکستان میں طویل مدتی اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہو۔