ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان مماثلت
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
القادر ٹرسٹ المعروف 190ملین پاﺅنڈ کیس میں عمران خان اور ان کی زوجہ سزا یافتہ ہو چکے ہیں۔ اپریل 2022ءمیں حکومت سے فارغ ہونے کے بعد سے ان کی پارٹی اپنی مزاحمتی سیاست کے ساتھ سڑکوں سے ہوتے ہوئے اب عمران خان و ان کی اہلیہ جیل میں اور پارٹی قیادت کہیں چھپی ہوئی ہے، ریاست کے خلاف نہ صرف بیانیہ فیل ہو چکا ہے بلکہ مزاحمتی سیاست اپنی طبعی موت مر چکی ہے۔ عمران خان حکومت و ریاست کے خلاف بدزبانی اور بدکلامی کرتے کرتے ابھی تک تھکے نہیں ہیں۔ ان کی زبان ابھی تک شعلے اگل رہی ہے وہ اب بھی شیخ مجیب الرحمن، حمود الرحمن کمیشن اور ایسی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جس سے ریاست کو غصہ آتا ہے ان کی پارٹی کذب بیانی اور دروغ گوئی میں مصروف ہے وہ کبھی آرمی چیف سے ملاقات سے انکار کرتے ہیں، کبھی اقرار کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ جس کی تردید آئی ایس پی آر کو کرنا پڑتی ہے۔ امریکی انتخابات میں 45اور 47کے ہندسے کو پی ٹی آئی والوں نے پاکستانی سیاست سے جوڑنے کی ناکام کاوش کی۔ یہاں فارم 45اور فارم 47کا بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن امریکہ میں یہ ہندسے ٹرمپ کی سیاست کے حوالے سے الیکشن مہم کا حصہ بنے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلی دفعہ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہوئے تھے جبکہ گزشتہ انتخابات میں وہ 46ویں صدارتی انتخابات ہار گئے تھے وہ 46ویں صدر نہ بن سکے۔ اس دفعہ انہوں نے 47ویں صدر بننے کے لئے انتخابی مہم چلائی اور کامیاب قرار پائے۔ اس طرح 45اور 47کا ہندسہ انتخابی عمل میں سامنے آیا جسے پی ٹی آئی نے پاکستانی سیاست کے حوالے سے ابھارنے کی ناکام کوشش کی۔ پی ٹی آئی اپنی تمام تر منفی کاوشوں کے باوجود الیکشن 2024ءمیں سب سے زیادہ پاپولر ووٹ لینے کے باوجود الیکٹورل پالیٹکس میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی ہے انہیں ریلیف نہیں مل پا رہا ہے بلکہ ان کی قیادت کو سزائیں بھی ہو رہی ہیں۔ مذاکرات کی تین نشستیں ہونے کے باوجود معاملات ڈیڈلاک کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کذب کی سیاست میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ان کے معاملات بہتری کی طرف جاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
190ملین پاﺅنڈ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کے خلاف گندی مہم شروع کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر جج کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کیس میں 100سے زائد پیشیاں ہوئیں اور اگر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد کی پیشیاں بھی شامل کر لیں تو 106پیشیاں ہوئیں جس میں پی ٹی آئی کے وکلاءبھی پیش ہوتے رہے۔ اپنا نقطہ نظر بھی پیش کرتے رہے۔ انہوں نے اس دوران کبھی جج کے کنڈکٹ پر اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ ان پر اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن فیصلہ آنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ جج صاحب کو سپریم کورٹ سے 2004ءمیں ایک فیصلے پر ڈانٹ پڑی تھی اور یہ ڈانٹ تحریری طور پر کی گئی تھی۔ حیران کن بات ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی قیادت کو یہ بات پہلے پتہ نہیں تھی۔ کور کمیٹی کے گزشتہ روز اجلاس میں شعیب شاہین صاحب نے بتایا کہ اس جج کے متعلق، سپریم کورٹ سے ملنے والی ڈانٹ کے بارے میں فیصل چودھری صاحب کو پتہ تھا اور یہ ان کا فرض تھا کہ وہ پارٹی قیادت کو اس بارے میں بتاتے گویا شعیب شاہین صاحب نے سارا ملبہ فیصل چودھری پر ڈال دیا حالانکہ اس وقت پی ٹی آئی کی قیادت زیادہ تر وکلاءپر ہی مشتمل ہے اور 2004ءمیں جج صاحب کو ملنے والی ڈانٹ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھی لیکن 106پیشیوں کے دوران پی ٹی آئی والوں نے جج ناصر جاوید رانا کے کنڈکٹ کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن فیصلے کے اعلان کے بعد ان کے خلاف باقاعدہ منفی مہم جوئی شروع کر دی ہے۔ ایسا کرنا پی ٹی آئی کا وتیرہ رہا ہے کیونکہ ان کی سوشل میڈیا کی ٹیم ایسے ہی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور مقاصد کے حصول کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اپنے روایتی ہتھکنڈوں میں ناکامی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اب ان کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ پر لگی ہوئی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ امریکہ کو اپنی اولین ترجیح قرار دے کر انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منفی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف اعلان جنگ بھی کر دیا ہے۔ میکسیکو سے سرحد پھلانگنے والوں کو گولی مارنے کا حکم بھی دیا جائے گا۔ انہوں نے امریکہ کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا، جنگوں کا خاتمہ بھی ان کے عزائم میں شامل ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کو نئے دور کا آغاز بھی قرار دیا ہے۔ سب سے اہم انہوں نے کرپٹ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کیا اور قوم کو اس سے چھٹکارا دلوانے کا کہا۔ لگتا ہے امریکہ، تبدیلی سے ہمکنار ہونے جا رہا ہے۔ عمران خان اور ٹرمپ میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ عمران خان اچھے مقرر ہیں، باتیں کرنا، باتیں بنانا انہیں آتا ہے اور پھر طویل تقریریں کرنا جانتے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ لمبی لمبی چھوڑتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ عمران خان کی باتوں پر غور کیا جائے تو وہ الہامی اور سچی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنی اسی صلاحیت اور ایسی باتوں سے نوجوانوں کی ایک معقول تعداد کو اپنا ہمنوا بنایا ہے۔ وہ تبدیلی کا نعرہ لئے میدان میں اترے اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آئے۔ بری کارکردگی، کرپشن اور سیاسی ناپختگی کے باعث، اب مقدمات کا شکار ، جیل میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں۔ ٹرمپ بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ لمبی لمبی تقریریں کرکے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، بیانیہ اچھا تشکیل دیتے ہیں۔ 45ویں صدر کے طور پر بری کارکردگی کے باعث 46ویں صدر بننے میں ناکام رہے۔ مقدمات کا شکار بھی ہوئے، جیل جاتے جاتے بچے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کے طور پر الیکشن جیت کر بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر 47ویں صدر کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ عمران خان ابھی دوبارہ اقتدار میں آنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، ان کی پارٹی کو امید ہے کہ ٹرمپ کی مداخلت سے ان کے برے دنوں کا خاتمہ ہوگا اور وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت سے ایسے ہی اقتدار میں واپس آ جائیں گے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ آئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کا راستہ نہیں روک سکے گی۔
بہرحال دیکھتے ہیں ٹرمپ کا اقتدار عمران خان کے لئے کیا پیغام لایا ہے، ان کے برے دن ختم ہوتے ہیں یا وہ ایسے ہی جیل میں پڑے پڑے گزارہ کریں گے۔ لیکن ایک بات ہے کہ ٹرمپ عمران خان کو پسند کرتے ضرور ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عمران خان اور ان کی پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کے باوجود پی ٹی آئی انہوں نے رہے ہیں کرنے کے ایسے ہی کے خلاف کے بعد کے لئے
پڑھیں:
بار بار کی پابندیاں تاریخی حقائق نہیں بدل سکتیں ہیں، میرواعظ کشمیر
میرواعظ عمر فاروق نے غزہ کی ابتر انسانی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب ہم یہاں پُرامن طور جمع ہیں ہمارے دل غزہ میں اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کیلئے شدید غمزدہ ہیں جو اس وقت ایک سنگین انسانی المیے غذائی قلت اور قحط کا سامنا کررہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایسے میں انہوں نے آج دو ہفتے بعد وہاں جمعہ کا خطبہ دیا۔ میرواعظ نے نماز جمعہ سے سے قبل ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو جمعہ گزرنے کے بعد آج مجھے جامع مسجد آنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے کہا "مجھے بار بار جامع مسجد میں جمعہ کے روز آنے سے روکنا سراسر زیادتی ہے اور یہ عمل عوام کے مذہبی حقوق میں براہِ راست مداخلت ہے"۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حربوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیونکہ ایسے اقدامات تاریخی حقائق کو بدل نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے انتظامیہ سے مطالبہ کرتا آیا ہوں کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے باز رہیں اور لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق کے استعمال کی آزادی دیں جن میں مذہبی اعمال کی ادائیگی اور جمعہ کے خطبے سننا بھی شامل ہے۔
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے توقع ظاہر کی کہ حکومت اس طرح کے من مانے اقدامات گریز کریےگی اور مجھے ہر جمعہ اپنے مذہبی اور منصبی فراض کی ادائیگی کیلئے جامع مسجد آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس دوران میرواعظ نے غزہ کی ابتر انسانی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب ہم یہاں پرامن طور جمع ہیں ہمارے دل غزہ میں اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے لئے شدید غمزدہ ہیں جو اس وقت ایک سنگین انسانی المیے غذائی قلت اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ معصوم شہری خاص طور پر بچے کھانے اور پناہ کی تلاش میں بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں اور اسرائیل اس افسوسناک صورتحال کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔
میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ہم اس درندگی کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی اور بے عملی قابلِ افسوس ہے۔ دنیا کا ان مظالم کو روکنے میں ناکام رہنا، بچوں اور معصوم شہریوں کے قتلِ عام کو براہِ راست نہ روکنا، انسانیت کے ضمیر پر ہمیشہ ایک دھبہ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھنے والے لوگ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کو اس شدید آزمائش سے نجات عطا فرمائے۔