Nai Baat:
2025-04-25@11:43:54 GMT

چھ ہاتھوں والا بڑا بُت مکھی بھی نہیں پکڑ سکتا!

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

چھ ہاتھوں والا بڑا بُت مکھی بھی نہیں پکڑ سکتا!

کونسٹین ٹائن برونزٹ (Konstantin Bronzit) چھوٹی اینی میشن فلموں کے ممتاز روسی ڈائرےکٹر ہےں۔ اُن کی مشہور فلموں مےں or The Round-About Merry-Go-Round، At the Ends of the Earth، Alosha اور Lavatory Lovestory شامل ہیں۔ اپنی پاپولر تخلےقات کے سلسلے مےں وہ تقریباً 70 ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہےں۔ اُن کی فلم Lavatory Lovestory کو اعلیٰ ترےن Best Scenario Award ملا اور اسی فلم کو جےوری نے 2009ءکی مختصر اینی میٹڈ فلموں کی کیٹگری میں ”اکیڈمی اےوارڈ“ کے لیے نامزد بھی کےا۔ ان کی اےک اور 4منٹ 17سےکنڈ کی اینی میٹڈ فلم ”The god“ ریلیز ہوئی۔ اس فلم مےں دےوتا شےوا سے ملتا جلتا اےک مکےنےکل بت دکھاےا گےا ہے جس کے چھ ہاتھ ہےں۔ وہ اپنی قوت اور توازن کے اظہار کے لیے اےک ٹانگ پر کھڑا ہے۔ دوسری ٹانگ اُس نے L کی صورت مےں موڑ کر کھڑی ٹانگ کی ران پر ٹکائی ہوئی ہے۔ اس کے تےن ہاتھ دائےں اور تےن ہاتھ بائےں مضبوط مشےنوں سے جڑے ہوئے ہےں جو طاقت کی علامت ہےں۔ وہ بہت اونچی چٹان پر تانبے کے ایک بڑے سے گول دائرے مےں کھڑا ہے جہاں سے پوری دنےا اس کے قدموں مےں نظر آتی ہے۔ اُسے بڑی محنت اور دلجمعی سے بناےا گےا ہے۔ اُس کے جاہ و جلال اور رعب سے پورا ماحول متاثر ہے۔ اس کی حکومت کی خاموشی سے فرمانبرداری کے اصول کو توڑتے ہوئے اچانک اےک مکھی کی بھن بھن سنائی دےتی ہے۔ مکھی اڑتی ہوئی اس کے دائےں گال پر آکر بےٹھتی ہے، ناک تک پہنچتی ہے، دوبارہ گال پر آتی ہے، پھر اڑ کر اس کے دائےں ہاتھوں مےں سے اےک پر جاتی ہے۔ ےہ بت اب تک مکھی کی حرکات سے بے خبر ہوتا ہے ےا اُسے غےراہم جان کر نظرانداز کرتا ہے۔ مکھی ہاتھ سے اڑ کر جب اس کی کہنی پر بےٹھتی ہے تو وہ ہلکی سی جھرجھری لےتا ہے جس سے متعلقہ بازو سے کچھ گرد اڑتی دکھائی دےتی ہے۔ اس طرح وہ پہلی مرتبہ مکھی کا نوٹس لےتا محسوس ہوتا ہے۔ مکھی بازو سے اڑ کر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر جا بےٹھتی ہے۔ وہ اپنی مشےنی انگلی کو آہستہ آہستہ ہلاتا ہے۔ مکھی شہادت کی انگلی کو چھوڑ کر ران پر ٹکے اس کے پاﺅں کے تلوے پر جا بےٹھتی ہے۔ اب وہ
اپنے چہرے کو دائےں اور پھر بائےں موڑتا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مکھی اڑانے جےسے معمولی کام کے لیے اردگرد سے کسی کو بلانا چاہتا ہو لےکن ماےوس ہوکر واپس اپنی پہلی والی پوزےشن پر آجاتا ہے۔ مکھی چھوٹی سی فلائٹ لےتی ہے اور دوبارہ اسی تلوے پر آجمتی ہے۔ اب کے مکھی کو اےک اور مشغلہ مل جاتا ہے۔ وہ تلوے پر چہل قدمی شروع کردےتی ہے۔ تلوے کی جلد پر مکھی کے چلنے سے بت کے جسم مےں جھرجھرےاں شروع ہو جاتی ہےں۔ اس کے ساتھ ہی چھ ہاتھوں والے بت کے سر پر روشنی کی چمک دکھائی دےتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بت مکھی کے معاملے کو اب سنجےدگی سے لےنے لگا ہے۔ جس پاﺅں کے تلوے پر مکھی بےٹھی ہوتی ہے وہ اس پاﺅں کی انگلےوں کو دو تےن مرتبہ اوپر نےچے کرتا ہے۔ مکھی نہےں اڑتی۔ تب وہ پاﺅں کو زور زور سے جھٹکے دےتا ہے جس سے مکھی اڑ کر اس کے اےک اےسے ہاتھ کی ہتھےلی پر جا بےٹھتی ہے جو تمام ہاتھوں مےں مرکزی حےثےت رکھتا ہے۔ اس ہاتھ کی ہتھیلی پر اےک آنکھ ہوتی ہے۔ مکھی اس آنکھ کی کالی پُتلی پر جا چمٹتی ہے۔ بت پرےشانی اور جھنجھلاہٹ کے عالم مےں اپنے باقی پانچوں ہاتھ اُس ہاتھ کی ہتھےلی پر اکٹھے دے مارتا ہے۔ بت مکھی کو پکڑنے ےا مارنے کی اپنی اس کوشش کا نتےجہ جاننے کے لیے ہاتھوں کو باری باری اٹھاتا ہے۔ جب وہ مرکزی ہاتھ کے اوپر سے آخری ہاتھ اٹھاتا ہے تو مکھی اےک دم سے اڑ جاتی ہے۔ بت مکھی کی اس چالاکی پر احمقوں کی طرح چاروں طرف اپنا سر گھماتا ہے او ر گھبراہٹ مےں اپنے سب ہاتھ اِدھر اُدھر چلانا شروع کردےتا ہے۔ اس عمل سے اُس کے چھ کے چھ ہاتھ آپس مےں الجھ جاتے ہےں اور انہےں گرہ لگ جاتی ہے۔ مکھی اب اس کے ہونٹوں پر جا پہنچتی ہے۔ بت کے ہاتھ الجھے ہونے کے باعث ناکارہ ہوتے ہےں۔ وہ اپنے چہرے کو نےچے جھکاتا ہے تاکہ ہاتھوں کے قرےب کرسکے لےکن بے سود۔ مکھی نہےں اڑتی بلکہ اوپر کی طرف اپنا سفر شروع کردےتی ہے اور سےدھی اس کی ناک مےں جا گھستی ہے۔ اس سے بت کو زور کی چھےنک آتی ہے جس سے وہ سارے کا سارا ہل جاتا ہے اور اس کے الجھے ہوئے ہاتھ خودبخود کھل جاتے ہےں۔ بت اب وحشی ہو جاتا ہے۔ مکھی دائےں طرف تانبے کے فرےم پر جابےٹھتی ہے۔ وہ پوری قوت سے اپنے سارے ہاتھوں کے پنجے اس پر مارتا ہے۔ مکھی صاف بچ نکلتی ہے اور فرےم کے بائےں طرف جا بےٹھتی ہے۔ بت غصے سے آگ بگولا ہوکر اٹھی ہوئی ٹانگ سے اس پر زور سے کک مارتا ہے۔ مکھی کو تو کچھ نہےں ہوتا البتہ تانبے کا فرےم ٹےڑھا ہو جاتا ہے۔ مکھی اڑ کر اس کی ناک کے سوراخ مےں چلی جاتی ہے اور دوسرے سوراخ سے نکلتی ہے۔ مکھی کو ےہ کھےل پسند آتا ہے۔ وہ اےک سوراخ مےں داخل ہوتی ہے اور اندر ہی اندر ہوتی ہوئی دوسرے سوراخ سے نکل کر پھر پہلے سوراخ مےں گھس جاتی ہے۔ بت مکھی کی ان حرکات سے پاگل ہو گےا ہوتا ہے۔ وہ دونوں سوراخوں کو اپنی انگلےوں سے بند کردےتا ہے۔ کچھ دےر بعد جب وہ اےک انگلی ہٹاتا ہے تو مکھی اڑ کر دوبارہ فرےم پر جا بےٹھتی ہے۔ بت اس پر مکا اور اپنا سر مارتا ہے جس سے اسے اچھی خاصی چوٹےں لگتی ہےں۔ مکھی پھر بچ نکلتی ہے اور اس کے اردگرد اڑنا شروع کردےتی ہے۔ بت اپنے جسم کا اےک ٹکڑا توڑتا ہے اور مکھی کو دے مارتا ہے مگر نشانہ خطا ہوتا ہے۔ بت اپنے سارے ہاتھ ہوا مےں گھما گھما کر اڑتی ہوئی مکھی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک مکھی اس کے اےک ہاتھ مےں آجاتی ہے۔ وہ مٹھی بند کرلےتا ہے۔ بت اس انٹرنےشنل کامےابی پر جھوم اٹھتا ہے اور مست ہوکر ناچنے لگتا ہے۔ ناچتے ناچتے وہ قےدی مکھی کو فاتحانہ انداز سے دےکھنے کے لیے مٹھی کھولتا ہے اور عےن اسی وقت مکھی اس کے ہاتھ سے فرار ہو جاتی ہے۔ بت کے لیے ےہ اےک ناقابلِ ےقےن شکست ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ مکھی کو پکڑنے کے لیے آگے لپکتا ہے۔ اےک پاﺅں پر کھڑا، چھ ہاتھوں والا، متوازن، طاقتور بت اپنا توازن کھو دےتا ہے اور نےچے گمنام گہرائےوں مےں جاگرتا ہے۔ بت کے گرجانے سے فرےم کے اندر خلاءپےدا ہوتا ہے جہاں اےک مکڑی نمودار ہوتی ہے، اپنا جالا بُنتی ہے اور وہی شرارتی خودسر مکھی جونہی اس جالے پر بےٹھتی ہے، مکڑی اسے اپنے منہ مےں دبوچ لےتی ہے۔ مکھی کی سسکےاں سنائی دےتی ہےں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ ےوں فلم ختم ہوتی ہے۔ حکمران جتنے بھی مضبوط ہوں، اُن کے چاروں طرف جتنی بھی انٹرنےشنل سپورٹ موجود ہو، ان کے طاقتور ہاتھ جتنے بھی زےادہ ہوں، وہ اگر دوسروں کے بنائے ہوئے ہےں، اپنی دھرتی اور عوام سے دور ہےں تو اےک مکھی کو بھی کےفرِکردار تک نہےں پہنچا سکتے کےونکہ چھوٹی سے چھوٹی شے کو بھی پکڑنے کے لیے جاندار ہونا ضروری ہے۔ بت تو بت ہوتا ہے، خواہ کتنا لمبا چوڑا اور مضبوط ہی کےوں نہ ہو، اس مےں جان نہےں ہوتی جبکہ چھوٹی سی مکڑی اپنے شکار کو آسانی سے پکڑ لےتی ہے کےونکہ مکڑی جاندار ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مارتا ہے ہے جس سے مکھی کی مکھی کو جاتا ہے بت مکھی ہوتی ہے جاتی ہے ہاتھ کی ہوتا ہے ہاتھ ا کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے. پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے.اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے. اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے. نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے. گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی. پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں. تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے. بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے. لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے. مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی. جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے. بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے. ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا. ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا. میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں. ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  •  بجلی چوری کے خلاف لیسکو کا بڑا آپریشن، 35 افراد رنگے ہاتھوں گرفتار
  • چولستان میں نایاب گرے بھیڑیا مقامی افراد کے ہاتھوں ہلاک
  • پہلگام حملے کے پیچھے خود بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، علی رضا سید
  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • نہروں کے مسئلے پر بات ہمارے ہاتھ سے نکلی تو ہر قسم کی کال دیں گے ،وزیراعلیٰ سندھ
  • دوران پرواز جہاز کی چھت گر پڑی، مسافر ہاتھوں سے تھامنے پر مجبور
  • ’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟