بریسٹ فیڈنگ ایکٹ نافذ العمل، ڈاکٹری نسخے کے بغیر خشک فارمولا دودھ کی فروخت پر پابندی عائد
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
سندھ اسمبلی نے سندھ پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن ایکٹ نافذ کردیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر بچوں کے لیے خشک فارمولا دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
نئے قانون کے مطابق سندھ کے تمام میڈیکل اسٹورز کو نوزائیدہ بچوں کے دودھ کی مصنوعات صرف ڈاکٹر کے نسخے کے ساتھ فروخت کرنا ہوں گی اور پیکنگ میں واضح طور پر اس پروڈکٹ کو مصنوعی دودھ کا لیبل لگایاجائے گا۔
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق نئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 5 لاکھ روپے تک جرمانے اور ممکنہ طور پر 6 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
دودھ پلانے کی کم شرحپاکستان میں اس وقت دودھ پلانے کی شرح صرف 48 فیصد ہے اور 52 فیصد مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں۔ اس سے نوزائیدہ بچوں کی صحت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں، کیونکہ بہت سے بچوں کو قدرتی قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے کم عمری میں ہی خسرہ، ڈائریا، نمونیا اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔
دودھ کیوں پلا رہے ہیں؟پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر مسعود صادق اور ڈاکٹر خالد شفیع نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دودھ پلانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پہلے 2 سال تک دودھ پلانے سے بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے مدافعتی نظام کو تقویت ملتی ہے اور ذہنی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔ ماں کا دودھ قدرتی طور پر جراثیم سے پاک ہوتا ہے، جس سے بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
سندھ پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر وسیم جمالی اور ڈاکٹر خالد شفیع نے بھی 20 مختلف کمپنیوں کی جانب سے فروخت کی جانے والی مصنوعی دودھ کی پروڈاکٹس پر تشویش کا اظہار کیا جو بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں۔
درآمد شدہ بچوں کے دودھ کے فارمولوں پر خاندانوں کو ماہانہ 25،000 سے 30،000 روپے خرچ ہوتے ہیں، اس سے ایک خاندان کو سالانہ 360،000 روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اربوں روپے غیر ملکی درآمدات پر خرچ ہو رہے ہیں جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے حکومت کی مشاورت سے سندھ پروٹیکشن اینڈ بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا جسے فوری طور پر نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے قانون پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک بورڈ بھی تشکیل دیا ہے۔
بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے مصنوعی دودھ فروخت کرنے پر سزائیںنئے قانون کے تحت اگر کوئی ڈاکٹر بغیر کسی وجہ کے مصنوعی دودھ کی تشہیر کرتا ہے یا تجویز کرتا ہے تو اسے 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ مزید برآں اسپتالوں کو مصنوعی دودھ کے لیے کسی بھی پروموشنل کنٹنٹ کی تشہیر کی اجازت نہیں ہوگی اور میڈیکل اسٹورز ڈاکٹری نسخے کے بغیر فارمولا دودھ کی مصنوعات کو فروخت نہیں کر سکتے۔
ہنگامی طور پر استعمال کی اجازتایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹروں کی رہنمائی میں اسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کو مصنوعی دودھ فراہم کیا جا سکتا ہے تاہم اس کی اجازت محدود مدت کے لیے ہی دی جائے گی۔ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ مصنوعی دودھ ماں کے دودھ کی طرح مدافعتی فوائد فراہم نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ جن بچوں کو فارمولا دودھ دیا جاتا ہے وہ بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹروں اور ماہرین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مصنوعی دودھ قدرتی طور پر دودھ پلانے کا مناسب متبادل نہیں ہے۔ سندھ میں اس قانون میں بچوں کے ڈاکٹروں کی جانب سے مصنوعی دودھ تجویز کرنے پر سخت پابندی بھی شامل ہے، جس سے بچوں کی غذائیت کے لیے ترجیحی اور صحت مند ترین آپشن کے طور پر دودھ پلانے پر زور دیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بریسٹ فیڈنگ پابندی حکومت خشک خواتین خود اعتمادی دودھ ڈاکٹری نسخہ سندھ غذائی قلت فارمولا قدرتی غذا معدافتی نظام منظوری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بریسٹ فیڈنگ پابندی حکومت خواتین ڈاکٹری نسخہ غذائی قلت فارمولا قدرتی غذا معدافتی نظام فارمولا دودھ بریسٹ فیڈنگ دودھ پلانے نسخے کے بچوں کی بچوں کو سے بچوں دودھ کی بچوں کے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات
اسلام ٹائمز: ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کیلئے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کے بارے میں متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں بھی دی ہیں کہ امریکا نے ان تنصیبات پر حملے کے منصوبے پر اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خلل پڑے۔
کیا اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ حملے کی سطح پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے تعاون اور یہاں تک کہ اس کی عوامی یا نجی شرکت کے بغیر بڑے اور وسیع پیمانے پر حملے کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، اسرائیل کی طرف سے "محدود حملے" کے دو امکانات ہیں۔ پہلا، امریکہ کو بتائے یا ہم آہنگی کے بغیر اور دوسرا، دونوں فریقوں کے علم اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ٹرمپ نیتن یاہو کے تعلقات کے نتائج پر غور کرتے ہوئے پہلا منظر نامہ اس وقت پیش آسکتا ہے، جب نیتن یاہو کو مکمل یقین ہو جائے کہ ایران اور امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے، جو اسرائیل کے نقطہ نظر سے "ناگوار" ہوگا تو وہ اس صورت حال میں خلل ڈالنے اور دوسرے طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد حملہ کرسکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ’’عارضی اور جزوی‘‘ معاہدے تک پہنچنے کے بعد بھی اس طرح کے حملے کا امکان موجود ہے۔
بلاشبہ، نیتن یاہو ایسا شخص نہیں ہے، جو بغیر حساب کتاب اور صرف غیر ضروری خطرات مول لے کر حملے کا رسک لے گا۔ ٹرمپ کے رویئے اور انتقام کے بارے میں اس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر اعلانیہ حملے کا فیصلہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا نتیجہ اسے غزہ کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ غزہ کی جنگ سے نیتن یاہو کا سارا سیاسی مستقبل وابستہ ہے اور اس کا اقتدار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے ساتھ تصادم کی نوعیت اور دیگر مسائل کے بارے میں اختلاف رائے اور "معمولی تناؤ موجود ہے، جس کے بارے میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ اس طرح کے تناؤ کا ابھی تک کوئی قابل ذکر عملی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔"
لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں غزہ کی صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ایک طرح سے سمجھوتہ اور سودے بازی کی صورت حال موجود ہے۔ ہعنی اسرائیل، ٹرمپ کی درخواست کی تعمیل کے بدلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرے گا اور ٹرمپ غزہ کی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وتکاف کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اسرائیل کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور یہی چیز نیتن یاہو کو فوری طور پر اس معاہدے کے خلاف کچھ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بالآخر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ چاہے ایران کے ساتھ ہو یا دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ۔ امریکہ اسرائیل کے "بڑے مفادات" کو مدنظر رکھے بغیر کوئی مستقل اقدام نہیں کرے گا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وٹکوف نے بظاہر ٹرمپ کی مذاکراتی پالیسی سے متاثر ہو کر ایرانی فریق کے ساتھ مذاکرات میں ایسا مبہم اور متضاد رویہ اپنایا ہے۔ غزہ پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو کا عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا محدود حملہ بھی نہیں کرے گا۔ مجموعی طور پر، ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کا فیصلہ امریکی گرین لائٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس طرح کے مفروضے کو درست مانتے ہوئے، ممکنہ محدود حملے کو مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قسم کا دباؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران پر مشترکہ حملے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی کے خاتمے کے بارے میں کچھ رپورٹس اور تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کے لیے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ رہبر انقلاب کے اس موقف نے ٹرمپ کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کس انداز سے نیتن یاہو کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتی ہے یا نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مفادات کی اس جنگ میں ضامن کوئی نہیں۔ یہ دنگل کون جیتے گا، اس کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔