Nai Baat:
2025-06-09@14:53:41 GMT

مقامی حکومتیں کیوں ضروری ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

مقامی حکومتیں کیوں ضروری ہیں؟

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہر دور میں حکمران طبقہ نے ملک و قوم کو پس پشت ڈال کر ذاتی،سیاسی،گروہی مفادات کو اہمیت دی،اپنی ذات،پارٹی کو ملک و قوم پر مقدم جانا،ہر کوئی اخبارات میں شہ سرخی بننے اور اپنی ذات کو اجاگر کرنے کی تگ و دو میں مبتلا رہا،بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے اور مرحومہ والدہ بارے مضمون نصاب میں شامل کرایا ہے،یہ کام دراصل مورخین کا ہے کہ وہ کس حکمران کو مسیحا جان کر اس کے کارناموں سے قوم کو آگہی دیں،خود سے ایسی کوشش کو ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے کے سوا کچھ نام نہیں دیا جا سکتا،اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ ملک کے کسی صوبہ میں بلدیاتی نظام کی بنیاد مضبوط نہیں ہو سکی،پنجاب جہاں کبھی پنچائتی نظام کے تحت مقامی سطح پر بہت سے معاملات کا تصفیہ کرا دیا جاتا تھا آج بلدیاتی نظام سے محروم ہے،جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش ہی تیز رفتار ترقی اور کرپشن کی راہیں مسدود کرنے کی ضامن ہے۔
ایوب خان نے بی ڈی سسٹم کے تحت بلدیاتی نظام اپنایا مقصد خود کو اکثریت سے صدر مملکت منتخب کرانا تھا،ضیاالحق نے مئیر سسٹم اپنایا اور نچلی سطح تک عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی،مقصد تا عمر صدرمنتخب ہونا تھا،تاہم ضیاالحق کے بعد بلدیاتی نظام کچھ عرصہ کیلئے چلتا رہا ،مگر بعد ازاں آنے والی جمہوری حکومتوں نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں کوئی دلچسپی نہ لی،پرویز مشرف نے ضلعی حکومت کا نظام اپنایا مگر بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے اس نظام کو مسترد کر دیا مگر کوئی اور نیا نظام مرتب کرنے کیلئے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی،بلدیاتی ادارے محکوم بنا دئیے گئے ،نچلی سطح پر بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب سے ارکان اسمبلی کی اپنے حلقوں میں ’’ظل الٰہی‘‘بننے کی خواہش کو گزند پہنچی جس کے بعد اول تو ان اداروں کو بے اختیار رکھا گیا اور بالاخر الیکشن ہی نہ کرائے گئے،بلدیاتی اداروں کے آخری الیکشن سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے مگر بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز تو درکنار دفاتر بھی نہ دئیے گئے،نتیجے میں بلدیاتی ادارے بے وقعت ہو گئے اور عوامی مسائل و مشکلات کے حل میں معاون ثابت نہ ہو سکے۔

ہر حکومت نے بلدیاتی نظام میں اپنے مفاد کے تحت ترامیم کر کے نیا نظام متعارف کرانے کی کوشش کی،پنجاب کا پیش کردہ بلدیاتی نظام 2013ء مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانے ، لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے اور حکمرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کے عمل کی نفی کرتا ہے ،جبکہ دنیا میں موثر حکمرانی کا دارو مدار نچلی سطح تک زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی اور مضبوط مقامی نظام حکومت پر ہے ،اسی تناظر میں دنیا کے بیشتر ممالک حکمرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کی طرف گامزن ہیں ، جبکہ ہم ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے انہی غلطیوں کو دہراکرمسائل میں اضافہ کرتے جاتے ہیں ،مسلم لیگ( ن)کی حکومت نے پنجاب میں مقامی حکومتوں سے متعلق ’’ نیا بلدیاتی ایکٹ2013ئ‘‘کابینہ سے منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں پیش کرکے منظوری حاصل کی مگر اس کے بعد چاروں جانب خاموشی ہے، اس نئے نظام کو2013ء کا نام دیا گیا ہے ، لیکن عملی طور پر یہ 1979ء کے بلدیاتی نظام سے مماثل ہے ،یہ نظام مقامی حکومتوں کی بجائے بلدیاتی اداروں کو فوقیت دیتا ہے، بلدیاتی اداروں میں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں سیاسی، انتظامی ا و رمالی اختیارات ضلعی سطح کی بجائے صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں ، جس سے اس نظام کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے ،پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا مجوزہ نظام 1973ء کے دستور کی شق 140-Aکے بھی خلاف اور متصادم ہے ،کیونکہ آئین کی شق 140-Aکے تحت ’’ تمام صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنا تے ہوئے سیاسی، انتظامی او ر مالی اختیارات کو عوام کے منتخب مقامی نمائندوں کو منتقل کریں گے‘‘اسی طرح آئین کی شق 32کے تحت ریاست پابند ہے کہ مقامی حکومتوں کے اداروں کو منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائیں اور ان میں بالخصوص کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں اور عورتوں کی نمائندگی کو یقینی بنائیں، 15مئی 2006ء کومیثاق جمہوریت جیسے سیاسی معاہدے میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی نے مقامی حکومتوں کے نظام پر جو اتفاق کیا تھا ، وہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ میشاق جمہوریت کی شق 10میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد’’مقامی حکومتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرکے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان اداروں کو مکمل طور پر خود مختاری دی جائیگی‘‘ اب پنجاب میں جو نظام سامنے لایا جارہا ہے وہ 1973ء کے آئین سمیت میثاق جمہوریت میں کی گئی سیاسی و قانونی کمٹمنٹ کے برعکس ہے۔

پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یونین اور وارڈ کی سطح پر کونسلرز کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے ، جبکہ تحصیل، ٹائون، میونسپل کمیٹی، ضلع کونسل کا چیئرمین، لارڈ میئر،میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا،جمہوری قوتوں کا جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے گریز عملی طور پراپنے ہی طے کردہ اصولوں کے خلاف غیر جمہوری فیصلہ ہے ، غیر جماعتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں برادری یا دھڑے بندی کی سیاست کو تقویت حاصل ہوتی ہے ، میئر، لارڈ میئر صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کے دبائو میں رہیں گے،مقامی نظام حکومت کو مضبوط نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی بجٹ ہے، اصولی طورپر یہ بجٹ مقامی حکومتوں کے تحت خرچ ہونے چاہئیں، لیکن قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی توجہ بھی ترقیاتی بجٹ اور وسائل پر ہوتی ہے ، چنانچہ صوبائی او رمقامی حکومتوں کے درمیان ٹکرائو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ارکان اسمبلی اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

لوکل گورنمنٹ کا ادارہ جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے،بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں عوامی مسائل و مشکلات کا عوامی امنگوں کے مطابق حل ممکن ہے نہ ہی عوام کو ریلیف دینا ممکن ہے،ہمارے ہاں مگر مقامی حکومتوں کا تصور سیاسی خانوادوں کی سیاسی موت ہے لہٰذا منتخب ارکان اسمبلی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،منتخب بلدیاتی نمائندے اگر محکمہ لوکل گورنمنٹ سے مل کر نچلی سطح پر دیانتداری اور خلوص نیت سے کام کریں تو نہ صرف کرپشن کا گرم بازار بند کیا جا سکتا ہے بلکہ کروڑوں نہیں اربوں کی بچت کر کے عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل کئے جا سکتے ہیں،لیکن بد قسمتی سے عوام کوایسے منتخب نمائندے دینے میں دانستہ تساہل اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو ہر وقت عوام کی دسترس میں ہوں،مقامی حکومتوں کو اگر فعال کیا جائے ، بلدیاتی ادارے متحرک ہوں تو نہ صرف عوامی مسائل کو نچلی سطح پر مختصر وقت میں حل کیا جا سکتا ہے بلکہ نا گہانی صورت میں عوام کو بر وقت ریلیف دینے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں،اس سلسلے میں دیر کرنا ملک وقوم بلکہ عوام سے زیادتی ہو گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے بلدیاتی اداروں بلدیاتی نظام نچلی سطح پر اداروں کو کرنے کی کے نظام نظام کو کے تحت کے بعد کیا جا

پڑھیں:

بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟

چین میں کچھ عرسے سے ایک عجیب و غریب رجحان  دیکھا جا رہا ہے جس کے تحت بیروزگار نوجوانوں کرائے کے دفاتر میں کام کرنے کا بہانہ کرنے کے لیے فیس ادا کرتے ہیں اور اس میں انہیں کوئی مالی فائدہ بھی نہیں ہوتا بلکہ الٹا پیسے بھرنے پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 40 کروڑ سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوبر ’مسٹر بیسٹ‘ شادی کے لیے پیسے ادھار لیں گے!

ایسے نوجوان کچھ جعلی کمپنیوں کو ادائیگی کرتے ہیں تاکہ وہ جھوٹ موٹ کی نوکری کرسکیں جس کے لیے انہیں 4 تا7 امریکی ڈالر روزانہ اس کمپنی کو دینے ہوتے ہیں۔

یہ کمپنیاں کسی کو بھی مختلف کام کرنے والے ماحول کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور ان کے لیے میزوں، لنچ کی سہولیات اور مفت وائی فائی بھی اہتمام بھی کرتی ہیں تاکہ انہیں ایک باقائدہ آفس کا ماحول مل سکے۔

یہی نہیں بلکہ وہ اپنے کلائنٹس کو اضافی ادائیگی پر فرضی کاموں اور جعلی مینیجرز تک بنادیتے ہیں۔ ان نام نہاد ملازمتیں فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تعداد اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تاکہ بے روزگار نوجوانوں کی ڈیمانڈ پوری کی جاسکے۔

مزید پڑھیے: سینکڑوں کلومیٹرز مفت میں بری، بحری اور فضائی سفر کرنے والا سیہ بالآخر پکڑا گیا

کوئی کام کرنے کا بہانہ کیوں کرے گا؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ ایک ہسپانوی اخبار ایل پیس نے حال ہی میں اس عجیب و غریب بڑھتے ہوئے رجحان پر ایک مضمون لکھا اور درحقیقت کام کرنے والی ان کمپنیوں میں سے ایک کا دورہ کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اسے کس چیز نے اتنا پرکشش بنا دیا ہے۔

اس کے کچھ نام نہاد ملازمین نے کہا کہ وہ صرف اس لیے وہاں ہیں کیوں کہ انہیں یہ آئیڈیا دلچسپ لگا۔ کچھ  نے کہا کہ گھر میں پڑے رہنے کی بجائے کم پیسوں پر یہاں آکر یہ ماحول انجوائے کرنے میں انہیں خوشی ملتی ہے۔ کچھ نے امید ظاہر کی کہ یہ تجربہ مستقبل قریب میں حقیقی ملازمت حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

مارچ میں نوجوانوں ملک میں بیروزگاری کی شرح 16 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں میں 16.5 فیصد اور 25 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں 7.2 فیصد تھی جو بیجنگ جیسے بڑے شہروں میں سستے دفاتر کی جگہ کی دستیابی کے ساتھ مل کر کام کی نقل کرنے کے اس غیر معمولی رجحان کی وجہ بنی۔

مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟

اس طرح کی جگہیں کرایہ کے لیے ناقابل یقین حد تک سستی ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو گھومنے پھرنے کے خواہاں ہیں ان کے لیے وہ کیفے میں بیٹھنے سے زیادہ سستی پڑتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جعلی عہدے جعلی نوکری جھوٹ موٹ کی نوکری

متعلقہ مضامین

  • تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
  • افسوس ہے وزیراعلیٰ پنجاب کو گٹر کھلوانے کیلئے خود آنا پڑتا ہے، سعدیہ جاوید
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • میہڑ:دادو کینال میں ڈوبنے والے نوجوان کی لاش 18 گھنٹے بعد نکال لی گئی
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • امام خمینی نے اپنی حکمت و بصیرت اور کمال دانشمندی سے اسلام مخالف قوتوں کو زیر کیا، علامہ قاضی نادر حسین علوی
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک