ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: خفیہ دستاویز سامنے آگئی، عمران حکومت پر سوالیہ نشان لگ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: خفیہ دستاویز سامنے آگئی، عمران حکومت پر سوالیہ نشان لگ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر کے دستخط شدہ معاہدہ رازداری (ڈِیڈ آف کانفیڈنشلٹی) کے مطابق عمران خان حکومت کی پراپرٹی ٹائیکون اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے درمیان 190 ملین پاؤنڈز کے معاملے میں حکومت کی براہِ راست مدد کی نشاندہی ہوتی ہے۔
انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ کے رپورٹر فخر درانی نے رپورٹ کیا ہے کہ معاہدے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ کا ذکر ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ معاہدہ اس وقت تک خفیہ رہے گا جب تک کہ قانوناً اسے افشا کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ٹائیکون کے ساتھ حکومت کے تعاون پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
جس وقت اس کیس کا تصفیہ ہو رہا تھا، اس وقت ٹائیکون اور این سی اے کے درمیان ’فریم ورک ایگریمنٹ‘ ہوا تھا، اسی معاہدے کے موقع پر ڈِیڈ آف کانفیڈنشلٹی بھی ہوئی جس میں تصفیے کی شرائط کا خاکہ، ضبط شدہ رقم کی وطن واپسی اور غیر منقولہ جائیداد کی فروخت کے متعلق باتیں شامل تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ وہ معاہدے کی تفصیلات خفیہ رکھے گی اور افشا نہیں کرے گی۔
شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے میں انہوں نے اور عمران حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن رازداری کے معاہدے کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عمران حکومت مکمل طور پر اس میں ملوث تھی، حالانکہ وہ معاہدے میں کوئی کردار ہونے کی تردید کرتی رہی ہے۔
ڈِیڈ آف کانفیڈنشلٹی کی نقل ’دی نیوز‘ کے پاس موجود ہے۔ معاہدے کی شق 2.
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آر یو نہ صرف ڈیڈ کا حصہ تھی بلکہ اسے فریم ورک کی تفصیلات بھی معلوم تھیں۔ حالانکہ شہزاد اکبر نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ معاہدہ صرف پراپرٹی ٹائیکون اور این سی اے کے درمیان ہوا ہے اور حکومت نے کوئی مدد نہیں کی۔
شق 2.4 میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی شخص کو اس ڈیڈ، فریم ورک معاہدے کے بارے میں دیگر فریقین کی پیشگی تحریری اجازت کے بغیر، کوئی معلومات فراہم نہیں کرے گی۔ شق نمبر 2.6 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی فریق چاہے تو وہ فریم ورک یا معاہدے کے حوالے سے کسی طرح کی تصیح کرنا چاہے یا درست معلومات فراہم کرنا چاہے تو حکومت پاکستان اسے ایسا کرنے کی اجازت دے گی۔
شق نمبر 2.3.4 حکومت پاکستان کو عدالتی حکم، ریگولیٹری باڈی، یا قانونی معاملات میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے معلومات افشا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اسے ایسا کرنے سے پہلے متعلقہ فریقوں کو مطلع کرنے اور ان سے مشورہ کرنا ہوگا۔ معاہدہ رازداری کے علاوہ، عمران خان کی حکومت نے پراپرٹی ٹائیکون کو بار بار بیرون ملک سفر کی اجازت دی۔
مجموعی طور پر ٹائیکون کو 20 مرتبہ باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ 30 مارچ 2022 کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے خان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے چند دن پہلے ٹائیکون کو بیرون ملک سفر کے لیے 8 ہفتوں کی اجازت دی گئی۔ عمران حکومت کی ٹائیکون کے لیے مدد کی عکاسی شہزاد اکبر کے ٹائیکون کے ہمراہ برطانیہ کے دوروں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
شہزاد اکبر نے اگست 2018 سے دسمبر 2019 کے درمیان 10 مرتبہ برطانیہ کا دورہ کیا، یہ وہ وقت تھا جب این سی اے ٹائیکون کے اثاثہ جات اور مالی معاملات کی تحقیقات کر رہا تھا۔کئی مواقع پر شہزاد اکبر اور ٹائیکون ساتھ ساتھ برطانیہ میں تھے، یہ صورتحال حکومت کے ملوث ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کے دوران وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے رانا ثنا اللّٰہ سے رابطہ کیا گیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا شہباز شریف کی حکومت نے پراپرٹی ٹائیکون کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا تھا؟ انہوں نے کہا کہ انہیں تصدیق کی ضرورت ہے۔
شہزاد اکبر کو تفصیلی سوالنامہ بھیجا گیا تاکہ ان سے معاہدے پر دستخط کے حوالے سے مؤقف لیا جا سکے، تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن بعد میں جواب دیا کہ آپ نے اتوار کو سوالات بھیجے ہیں، میں فیملی کے ساتھ باہر ہوں، کل پڑھ کر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 17 جنوری کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسی مقدمے میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی 7 برس قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی اور القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 18 دسمبر 2024 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 3 مرتبہ مؤخر کیے جانے کے بعد جمعہ 17 جنوری 2025 کو اڈیالہ جیل میں سنایا گیا تھا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عمران حکومت
پڑھیں:
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارت کا گھناونا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب
اسلام آباد( نیوز ڈیسک) پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میںبھارت کی پاکستان کے خلاف سازش کھل کرسامنے آگئی ، حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات بھی بے نقاب ہوگئے ۔
ذرائع کے مطابق بھارت اپنے اقدام سے آبی جارحیت پر اتر آیا، ہندوستان کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یکطرفہ ختم نہیں کر سکتا، ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا، ہندوستان نے پہلگام فالس فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کر دیا۔
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12 (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں، بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian ،Lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔
باوثوق ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
نوازشریف کا فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ